Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 143
وَكَذَٲلِكَ جَعَلْنَـٰكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًاۗ وَمَا جَعَلْنَا ٱلْقِبْلَةَ ٱلَّتِى كُنتَ عَلَيْهَآ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ ٱلرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى ٱلَّذِينَ هَدَى ٱللَّهُۗ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَـٰنَكُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِٱلنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک 1"امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے2 یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے
2 | یعنی اس سے مقصُود یہ دیکھنا تھا کہ کون لوگ ہیں جو جاہلیّت کے تعصّبات اور خاک و خون کی غلامی میں مبتلا ہیں، اور کون ہیں جو اِن بندشوں سے آزاد ہو کر حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہیں۔ ایک طرف اہلِ عرب اپنے وطنی و نسلی فخر میں مبتلا تھے اور عرب کے کعبے کو چھوڑ کر باہر کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا ان کی اِس قوم پرستی کے بُت پر ناقابلِ برداشت ضرب تھا۔ دُوسری طرف بنی اسرائیل اپنی نسل پرستی کے غرور میں پھنسے ہوئے تھے اور اپنے آبائی قبلے کے سوا کسی دُوسرے قبلے کو برداشت کرنا ان کے لیے محال تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بُت جن لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوں، وہ اُس راستے پر کیسے چل سکتے تھے، جس کی طرف اللہ کا رسُول انہیں بُلا رہا تھا۔ اس لیے اللہ نے ان بُت پرستوں کو سچّے حق پرستوں سے الگ چھانٹ دینے کے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تاکہ جو لوگ عربیّت کے بُت کی پرستش کرتے ہیں، وہ الگ ہو جائیں۔ پھر اس قبلے کو چھوڑ کر کعبے کو قبلہ بنایا تاکہ جو اسرائیلیت کے پرستار ہیں، وہ بھی الگ ہو جاءیں۔ اِس طرح صرف وہ لوگ رسُول کے ساتھ رہ گئے، جو کسی بُت کے پرستار نہ تھے، محض خدا کے پرستار تھے |
1 | یہ اُمّتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے۔ ”اسی طرح“ کا اشارہ دونوں طرف ہے: اللہ کی اُس رہنمائی کی طرف بھی، جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اِس مرتبے پر پہنچے کہ ” اُمّتِ وَسَط“ قرار دیے گئے ، اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سَمْت سے دُوسری سَمْت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں، حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمْت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دُنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزُول کیا اور اُمّتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا۔ ”اُمتِ وَسَط“ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دُوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہواور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں”اُمّتِ وَسَط“ اس لیے بنایا گیا ہے کہ”تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو“ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا ، اُس وقت رسُول ہمارے ذمّہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عملِ صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے اُسے دی تھی ، وہ اس نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا۔ اس کے بعد رسُول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسُول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں ، اور جو کچھ رسُول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دُنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسُول صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمّت کے لیے خدا ترسی ، راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے، اسی طرح اِس اُمّت کو بھی تمام دُنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے، حتّٰی کہ اس کے قول اور عمل اور برتا ؤ ، ہر چیز کو دیکھ کر دُنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے، راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمّہ داری بڑی سخت تھی، حتّٰی کہ اگر وہ اِس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے، اُسی طرح دُنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمّہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت ، جو تیرے رسُول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی ، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بُری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دُنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں، اُن سب کے لیے ائمہء شر اور شیاطینِ انس و جِنّ کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دُنیا میں معصیت ، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاں مر گئے تھے |
Surah 4 : Ayat 41
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةِۭ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰٓؤُلَآءِ شَهِيدًا
پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد ﷺ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے1
1 | یعنی ہر دَور کا پیغمبر اپنے دَور کے لوگوں پر اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا کہ زندگی کا وہ سیدھا راستہ اور فکر و عمل کا وہ صحیح طریق ، جس کی تعلیم آپ نے مجھے دی تھی، اُسے میں نے اِن لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ پھر یہی شہادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دَور کے لوگوں پر دیں گے، اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کا دَور آپ ؐ کی بعثت کے وقت سے قیامت تک ہے۔( آل عمران، حاشیہ نمبر ٦۹) |
Surah 16 : Ayat 89
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِى كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَـٰٓؤُلَآءِۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
(اے محمدؐ، اِنہیں اُس دن سے خبردار کر دو) جب کہ ہم ہر امت میں خود اُسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُس کے مقابلے میں شہادت دے گا، اور اِن لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے1 اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ہے2
2 | یعنی جولوگ آج اِس کتاب کو مان لیں گے اوراطاعت کی راہ اختیار کر لیں گے ان کو یہ زندگی کے ہر معاملہ میں صحیح رہنمائی دے گی اور اس کی پیروی کی وجہ سے اُن پراللہ کی رحمتیں ہوں گی اور انہیں یہ کتاب خوشخبری دے گی کہ فیصلہ کے دن اللہ کی عدالت سے وہ کامیاب ہو کر نکلیں گے۔ بخلاف اس کے جو لوگ اسے نہ مانیں گے وہ صرف یہی نہیں کہ ہدایت اور رحمت سے محروم رہیں گے، بلکہ قیامت کے روز جب خدا کا پیغمر ان کے مقابلہ میں گواہی دینے کو کھڑا ہو گا تو یہی دستاویز اُن کے خلاف ایک زبردست حجت ہو گی۔ کیونکہ پیغمبرؐ یہ ثابت کر دے گا کہ اس نے وہ چیز انہیں پہنچا دی تھی جس میں حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا گیا تھا۔ |
1 | یعنی ہرایسی چیز کی وضاحت جس پرہدایت وضلالت اور فلاح و خسران کا مدارہے،جس کا جاننا راست روی کے لیے ضروری ہے،جس سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہوتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غلطی سے لوگ تُبِیَانًا لِکُلِ شَیءٍ اوراس کی ہم معنی آیات کا مطلب یہ لے لیتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ بیان کردیاگیا ہے۔پھر وہ اسے نباہنے کےلیے قرآن سے سائنس اور فنون کے عجیب عجیب مضامین نکالنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔ |
Surah 22 : Ayat 78
وَجَـٰهِدُواْ فِى ٱللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِۦۚ هُوَ ٱجْتَبَـٰكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَجٍۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَٲهِيمَۚ هُوَ سَمَّـٰكُمُ ٱلْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِى هَـٰذَا لِيَكُونَ ٱلرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِۚ فَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَٱعْتَصِمُواْ بِٱللَّهِ هُوَ مَوْلَـٰكُمْۖ فَنِعْمَ ٱلْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ ٱلنَّصِيرُ
اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے1 اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے2 اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی3 قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر4 اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام 5"مسلم" رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ6 پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ7 وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار
7 | یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ہدایت اور قانون زندگی بھی اسی سے لو، اطاعت بھی اسی کی کرو ، خوف بھی اسی کا رکھو، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو، مدد کے لیے بھی اسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ |
6 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 144۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اس مضمون پر ہم نے اپنے رسالہ ’’ شہادت حق‘‘ میں روشنی ڈالی ہے |
5 | ’’تمہارا‘‘ کا خطاب مخصوص طور پر صرف ان ہی اہل یمان کی طرف نہیں ہے جوق اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے ، یا اس کے بعد اہل ایمان کی صف میں داخل ہوئے، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغاز تاریخ انسانی سے توحید، آخرت ، رسالت اور کتب الہٰی کے ماننے والے رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس ملت حق کے ماننے والے پہلے بھی ’’ نوحی‘‘، ’’ ابراہیمی‘‘ ،‘‘موسوی‘‘،’’مسیحی‘‘ وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ انکا نام ’’ مسلم‘‘ (اللہ کے تابع فرمان ) تھا ، اور آج بھی وہ ’’محمدی‘‘ نہیں بلکہ ’’ مسلم‘‘ ہیں۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ سوال معما بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروؤں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا |
4 | اگرچہ سلام کو ملت نوح ، موسیٰ ، ملت عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملت ابراہیم۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملت ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسوخ و اثر رچا ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان ، مشرکین عرب ، اور شرق اوسط کے صابئ، سب متفق تھے۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملتوں کی پیدائش سے پہلے گزرے ہیں۔ یہودیت ، عیسائیت اور صائبیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکین عرب ، تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بت پرستی کا رواج عمر و بن لُحَیّ سے شروع ہوا جو بنی خزاعہ کا سردار تھا اور مَآب (موآب) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا۔ اس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ لہٰذا یہ ملت بھی حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملتوں کے بجائے ملت ابراہیمؑ کو اختیار کرو، تو وہ در اصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم بر حق اور بر سر ہدایت تھے ، اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے ، تو لامحالہ پھر وہی ملت اصل ملت حق ہے نہ کہ یہ بعد کی ملتیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اسی ملت کی طرف ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، البقرہ ، حواشی 134۔ 135۔ آل عمران، حواشی 58۔ 79۔ جلد دوم، النحل، حاشیہ 120 |
3 | یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دی گیا ہے جو پچھلی امتوں کے فقیہوں اور فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ ایک سادہ اور سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ : یَأ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُ وْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِالْمُنْکَرِوَیْحِلَّ لَہُمْ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئِثَ وَیَضَعُ عَنْ ھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْ لٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ، ’’ یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کو حکم دیتا ہے ، اور ان برائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرت انسانی انکار کرتی ہے ، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ‘‘ (اعراف۔آیت 157) |
2 | یعنی تمام نوع انسانی میں سے تم لوگ اس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گۓ ہو جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔مثلاً سورہ بقرہ میں فرمایا : جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً (آیت 143)۔ اور سورہ آل عمران میں فرمایا :کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اخْرِجَتْ لِنَّاسِ (آیت 110)۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور ان لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اس کا خطاب بالتبع پہنچتا ہے |
1 | جہاد سے مراد محض’’قتال‘‘(جنگ) نہیں ہے ، بلکہ یہ لفظ جد و جہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جدو جہد مطلوب ہے۔ اور اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی میں ، اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں ، اور جدو جہد کا مقصود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے کے لیے جان لڑا دے۔ اس مجاہدے کا اولین ہدف آدمی کا اپنا نفس امّارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے، باہر کسی مجادہے کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قد متم خیر مقدم من الجھاد الصغر الی الجھاد الاکبر۔ ’’ تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگۓہو‘‘۔ عرض کیا گیا وہ بڑا جہاد کیا ہے َ فرمایا مجاھدۃ العبد ھواہ۔ ’’ آدمی کی خود اپنی خواہش نفس کے خلاف جد و جہد ‘‘۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے |