Ayats Found (4)
Surah 7 : Ayat 158
قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُۖ فَـَٔـامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِ ٱلنَّبِىِّ ٱلْأُمِّىِّ ٱلَّذِى يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَكَلِمَـٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اے محمدؐ، کہو کہ 1"اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے"
1 | اصل سلسلہ کلام بنی اسرائیل سے متعلق چل رہا تھا ۔ بیچ میں موقع کی مناسبت سے رسالت محمدی پر ایمان لانے کی دعوت بطور جملہ معترضہ آگئی۔ اب پھر تقریر کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو پچھلے کئی رکوعوں سے بیان ہورہا ہے |
Surah 34 : Ayat 28
وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور (اے نبیؐ،) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں1
1 | یعنی تم صرف اسی شہر، یا اسی ملک، یا اسی زمانے کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہو۔ مگر یہ تمہارے ہم عصر اہل وطن تمہاری قدر و منزلت کو نہیں سمجھتے اور ان کو احساس نہیں ہے کہ کیسی عظیم ہستی کی بعثت سے ان کو نوازا گیا ہے۔ یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اپنے ملک یا اپنے زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک پوری نوع بشری کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں،قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ مثلاً: وَاُحِیَ اِلَیَّ ھٰذَاالقرآنُ لِاُنْذِرَ کُم بِہ وَمَنْ بَلَغَ (الانعام 197) اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو متنبہ کروں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے۔ قُلْ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً (الاعراف۔ 158) اے نبی کہہ دو اے انسانوں، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃلِّلعٰلَمِیْنَ(الانبیاء۔107) اور اے نبی، ہم نے نہیں بھیجا تم کو مگر تمام ایمان والوں کے لیے رحمت کے طور پر۔ تَبٰرَ کَ الَّذِیْ نَذَّلَالْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہ لِیَکُنَ لِلْعَا لَمِیْنَ نَذِیْراً۔(الفرقان۔1) بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لیے متنبہ کرنے والا ہو۔ یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی بہت سے احادیث میں مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے۔ مثلاً: بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْمَرِوَلْاَسْوَدِ (مسند احمد، مرویات ابو موسیٰ اشعریؓ) میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ امّا انا فا رسلتُ الی الناس کلھم عامۃ وکان من قبلی انما یُرْسَلُ الیٰ قومہ(مسند احمد، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص) میں عمومیت کے ساتھ تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ حالانکہ مجھ سے پہلے جو نبی بھی گزرا ہے وہ اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا۔ وکان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ(بخاری و مسلم، من حدیث جابر بن عبداللہ) پہلے ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ بعثت انا والساعۃ کھتین یعنی اصبعین۔(بخاری و مسلم) میری بعثت اور قیامت اس طرح ہیں، یہ فرماتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دو انگلیاں اٹھائیں۔ مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی تیسری انگلی حائل نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان بھی کوئی نبوت نہیں ہے۔ میرے بعد بس قیامت ہی ہے اور قیامت تک میں ہی نبی رہنے والا ہوں۔ |
Surah 62 : Ayat 2
هُوَ ٱلَّذِى بَعَثَ فِى ٱلْأُمِّيِّــۧنَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
وہی ہے جس نے امیوں1 کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے2 حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے3
3 | یہ حضورؐ کی رسالت کا ایک اور ثبوت ہے جو یہودیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے عرب کی سر زمین میں آباد تھے اور اہل عرب کی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، اور تمدنی زندگی کا کوئی گوشہ ان سے چھپا ہوا نہ تھا۔ ان کی اس سابق حالت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ چند سال کے اندر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت و رہنمائی میں اس قوم کی جیسی کایا پلٹ گئی ہے اس کے تم عینی شاہد ہو۔ تمہارے سامنے وہ حالت بھی ہے جس میں یہ لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے مبتلا تھے۔ وہ حالت بھی ہے جو اسلام لانے کے بعد ان کی ہو گئی، اور اسی قوم کے ان لوگوں کی حالت بھی تم دیکھ رہے ہو جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ کیا یہ کھلا کھلا فرق، جسے ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے ، تمہیں یہ یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کے سوا کسی کا کارنامہ نہیں ہو سکتا؟ بلکہ اس کے سامنے تو پچھلے انبیاء تک کے کارنامے ماند پڑ گۓ ہیں |
2 | قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ صفات چار مقامات پر بیان کی گئی ہیں، اور ہر جگہ ان کے بیان کی غرض مختلف ہے۔ البقرہ آیت 129 میں ان کا ذکر اہل عرب کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ آنحضورؐ کی بعثت، جسے وہ اپنے لیے زحمت و مصیبت سمجھ رہے تھے ، در حقیقت ایک بڑی نعمت ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کر تے تھے۔ البقرہ آیت 151 میں انہیں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان حضورؐ کی قدر پہچانیں اور اس نعمت سے پورا پورا فیض حاصل کریں جو حضورؐ کی بعثت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے۔ آل عمران آیت 164 میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لیے ان کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ کتنا بڑا احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان اپنا رسول بھیج کر کیا ہے اور یہ لوگ کتنے نادان ہیں کہ اس کی قدر نہیں کرتے۔ اب چوتھی مرتبہ انہیں اس سورہ میں دہرایا گیا ہے جس سے مقصود یہودیوں کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کر رہے ہیں وہ صریحاً ایک رسول کا کام ہے۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان، مضامین، انداز بیان، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں، ان کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں، اور ان کو اعلیٰ درجے کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتاب الٰہی منشا سمجھا رہے ہیں اور ان کو اس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی ہے۔ یہی سیرت اور کردار اور کام ہی تو انبیاء کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ پھر یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ جس کا رسول بر حق ہونا اس کے کارناموں سے علانیہ ثابت ہو رہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اللہ نے اسے تمہاری قوم کے بجاۓ اس قوم میں سے اٹھایا جسے تم امی کہتے ہو |
1 | یہاں امی کا لفظ یہودی اصطلاح کے طور پر آیا ہے ، اور اس میں ایک لطیف طنز پوشیدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کو یہودی حقارت کے ساتھ امی کہتے اور اپنے مقابلہ میں ذلیل سمجھتے ہیں، انہیں میں اللہ غالب و دانا نے ایک رسول اٹھایا ہے۔ وہ خود نہیں اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس کا اٹھانے والا وہ ہے جو کائنات کا بادشاہ ہے ، زبردست اور حکیم ہے ، جس کی قوت سے لڑ کر یہ لوگ اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے ، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید میں ’’اُمی‘‘ کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے اور سب جگہ اس کے معنی ایک ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں وہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جس کی پیروی وہ کرتے ہوں۔ مثلاً فرمایا : قَلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ وَا لْاُمِّیِّنَءَ اَسْلَمْتُمْ (آل عمران۔ 20)۔ ’’ اہل کتاب اور امیوں سے پوچھو کیا تم نے اسلام قبول کیا؟’’ یہاں امیوں سے مراد مشرکین عرب ہیں، اور ان کو اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ سے الگ ایک گروہ قرار دیا گیا ہے۔ کسی جگہ یہ لفظ خود اہل کتاب کے اَن پڑھ اور کتاب اللہ سے نا واقف لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا : وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَا نِیَّ (البقرہ۔ 78)۔’’ اِن یہودیوں میں کچھ لوگ امی ہیں، کتاب کا کوئی علم نہیں رکھتے ، بس اپنی آرزوؤں ہی کو جانتے ہیں ‘‘۔ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے مراد دنیا کے تمام غیر یہودی ہیں۔ مثلاً فرمایا: ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْ ا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ (آل عمران۔ 75 )۔ یعنی ’’ ان کے اندر یہ بد دیانتی پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں کا مال مار کھانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے ’’۔ یہی تیسرے معنی ہیں جو آیت زیر بحث میں مراد لیے گۓ ہیں۔ یہ لفظ عبرانی زبان کے لفظ گوئیم کا ہم معنی ہے ، جس کا ترجمہ انگریزی بائیبل میں Gentiles کیا گیا ہے ، اور اس سے مراد تمام غیر یہودی یا غیر اسرائیلی لوگ ہیں۔ لیکن اس یہودی اصطلاح کی اصل معنویت محض اس کی اس تشریح سے سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ در اصل عبرانی زبان کا لفظ گوئیم ابتداءً محض اقوام کے معنی میں بولا جاتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہودیوں نے اسے پہلے تو اپنے سوا دوسری قوموں کے لیے مخصوص کر دیا، پھر اس کے اندر یہ معنی پیدا کر دیے کہ یہودیوں کے سوا باقی تمام اقوام نا شائستہ، بد مذہب، ناپاک اور ذلیل ہیں، حتیٰ کہ حقارت اور نفرت میں یہ لفظ یونانیوں کی اصطلاح Barbarian سے بھی بازی لے گیا جسے وہ تمام غیر یونانیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ربیوں کے لٹریچر میں گوئیم اس قدر قابل نفرت لوگ ہیں کہ ان کو انسانی بھائی نہیں سمجھا جا سکتا، ان کے ساتھ سفر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان میں سے کوئی شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آنے والا مسیح تمام گوئیم کو ہلاک کر دے گا اور جلا کر خاکستر کر ڈالے گا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ 64 ) |
Surah 62 : Ayat 4
ذَٲلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ
اللہ زبردست اور حکیم ہے1 یہ اس کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے
1 | یعنی یہ اسی کی قدرت و حکمت کا کرشمہ ہے کہ ایسی نا تراشیدہ امی قوم میں اس نے ایسا عظیم نبی بیدا کیا جس کی تعلیم و ہدایت اس درجہ انقلاب انگیز ہے ، اور پھر ایسے عالمگیر ابدی اصولوں کی حامل ہے جن پر تمام نوع انسانی مل کر ایک امت بن سکتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ان اصولوں سے رہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ کوئی بناؤٹی انسان خواہ کتنی ہی کوشش کر لیتا، یہ مقام و مرتبہ کبھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ عرب جیسی پسماندہ قوم تو درکنار، دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کا کوئی ذہین سے ذہین آدمی بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کی اس طرح مکمل طور پر کایا پلٹ دے ، اور پھر ایسے جامع اصول دنیا کودے دے جن پر ساری نوع انسانی ایک امت بن کر ایک دین اور ایک تہذیب کا عالمگیر و ہمہ گیر نظام ابد تک چلانے کے قابل ہو جاۓ۔ یہ ایک معجزہ ہے جو اللہ کی قدرت سے رونما ہوا ہے ، اور اللہ ہی نے اپنی حکمت کی بنا پر جس شخص، جس ملک، اور جس قوم کو چاہا ہے اس کے لیے انتخاب کیا ہے۔ اس پر اگر کسی بے وقوف کا دل دکھتا ہے تو دکھتا رہے |