Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 190
وَقَـٰتِلُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَـٰتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ
اور تم اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں1، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا2
2 | یعنی تمہاری جنگ نہ تو اپنی اغراض کےلیے ہو، نہ اُن لوگوں پر ہاتھ اُٹھا ؤ ، جو دینِ حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے، اور نہ لڑائی میں جاہلیّت کے طریقے استعمال کرو۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا، دشمن کے مقتولوں کا مُثلہ کرنا، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دُوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال ” حد سے گزرنے“ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت وارد ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہیں کیا جائے ، جہاں وہ ناگزیر ہو، اور اُسی حد تک کیا جائے ، جتنی اس کی ضرورت ہو |
1 | یعنی جو لوگ خدا کے کام میں تمہارا راستہ روکتے ہیں، اور اس بنا پر تمہارے دُشمن بن گئے ہیں کہ تم خدا کی ہدایت کے مطابق نظامِ زندگی کی اصلاح کرنا چاہتے ہو، اور اس اصلاحی کام کی مزاحمت میں جبر و ظلم کی طاقتیں استعمال کر رہے ہیں، ان سے جنگ کرو۔ اس سے پہلے جب تک مسلمان کمزور اور منتشر تھے، ان کو صرف تبلیغ کا حکم تھا اور مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی۔ اب مدینے میں ان کی چھوٹی سی شہری ریاست بن جانے کے بعد پہلے مرتبہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس دعوتِ اصلاح کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں، ان کو تلوار کا جواب تلوار سے دو۔ اس کے بعد ہی جنگ ِ بدر پیش آئی اور لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا |
Surah 5 : Ayat 87
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُحَرِّمُواْ طَيِّبَـٰتِ مَآ أَحَلَّ ٱللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کر لو1 اور حد سے تجاوز نہ کرو2، اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں
2 | ”حد سے تجاوز کرنا“ وسیع مفہُوم کا حامل ہے۔ حلال کو حرام کرنا اور خدا کی ٹھیرائی ہوئی پاک چیزوں سے اِس طرح پرہیز کرنا کہ گویا کہ وہ ناپاک ہیں ، یہ بجائے خود ایک زیادتی ہے۔ پھر پاک چیزوں کے استعمال میں اسراف اور افراط بھی زیادتی ہے۔ پھر حلال کی سرحد سے باہر قدم نکال کر حرام کے حُدُود میں داخل ہونا بھی زیادتی ہے۔ اللہ کو یہ تینوں باتیں نا پسند ہیں |
1 | اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ خود حلال و حرام کے مختار نہ بن جاؤ۔ حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا۔ اپنے اختیار سے کسی حلال کو حرام کرو گے تو قانونِ الہٰی کے بجائے قانونِ نفس کے پَیرو قرار پاؤ گے۔ دوسری بات یہ کہ عیسائی راہبوں، ہندو جوگیوں ، بودھ مذہب کے بھکشووں اور اشراقی متصوّ فین کی طرح رہبانیت اور قطعِ لذّات کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ مذہبی ذہنیت کے نیک مزاج لوگوں میں ہمیشہ سے یہ میلان پایا جاتا رہا ہے کہ نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے کو وہ رُوحانی ترقی میں مانع سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا، اپنے نفس کو دُنیوی لذّتوں سے محرُوم کرنا، اور دُنیا کے سامانِ زیست سے تعلق توڑنا ، بجائے خود ایک نیکی ہے اور خدا کا تقرب اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ صحابہ کرام میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کے اندر یہ ذہنیت پائی جاتی تھی ۔ چنانچہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بعض صحابیوں نے عہد کیا ہے کہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھیں گے ،راتوں کو بستر پر نہ سوئیں گے بلکہ جاگ جاگ کر عبادت کرتے رہیں گے ، گوشت اور چکنائی استعمال نہ کریں گے، عورتوں سے واسطہ نہ رکھیں گے۔ اس پر آپ ؐ نے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ” مجھے ایسی باتوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ تمہارے نفس کے بھی تم پر حقوق ہیں۔ روزہ بھی رکھو اور کھاؤ پیو بھی۔ راتوں کو قیام بھی کرو اور سوؤ بھی ۔ مجھے ، میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں۔ روزے کھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ گوشت بھی کھاتا ہوں اور گھی بھی ۔ پس جو میرے طریقے کو پسند نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں ہے“۔ پھر فرمایا” یہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو اور اچھے کھانے کو اور خوشبو اور نیند اور دُنیا کی لذّتوں کو اپنے اُوپر حرام کر لیا ہے؟ میں نے تو تمہیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ تم راہب اور پادری بن جاؤ۔ میرے دین میں نہ عورتوں اور گوشت سے اجتناب ہے اور نہ گوشہ گیری و عزلت نشینی ہے ۔ ضبطِ نفس کے لیے میرے ہاں روزہ ہے ، رہبانیت کے سارے فائدے یہاں جہاد سے حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، حج و عمرہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو ۔ تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے وہ اس لیے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے اپنے اُوپر سختی کی ، اور جب انہوں نے خود اپنے اُوپر سختی کی تو اللہ نے بھی اُن پر سختی کی۔ یہ انہی کے بقایا ہیں جو تم کو صومعوں اور خانقاہوں میں نظر آتے ہیں“۔ اسی سلسلہ میں بعض روایات سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ وہ ایک مُدّت سے اپنی بیوی کے پاس نہیں گئے ہیں اور شب و روز عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو آپ ؐ نے بُلا کر اُن کو حکم دیا کہ ابھی اپنی بیوی کے پاس جا ؤ ۔ اُنہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں۔ آپ ؐ نے فرمایا روزہ توڑ دو اور جا ؤ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایک خاتون نے شکایت پیش کی کہ میرے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں اور مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ حضرت عمر ؓ نے مشہور تابعی بزرگ، کعب ؓ بن سَور الاَزْدِی کو اُن کے مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر کیا ، اور اُنہوں نے فیصلہ دیا کہ اس خاتون کے شوہر کو تین راتوں کے لیے اختیار ہے کہ جتنی چاہیں عبادت کریں مگر چوتھی رات لازماً ان کی بیوی کا حق ہے |
Surah 7 : Ayat 55
ٱدْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةًۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ
ا پنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقیناً و ہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا