Ayats Found (3)
Surah 7 : Ayat 157
ٱلَّذِينَ يَتَّبِعُونَ ٱلرَّسُولَ ٱلنَّبِىَّ ٱلْأُمِّىَّ ٱلَّذِى يَجِدُونَهُۥ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى ٱلتَّوْرَٮٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَـٰهُمْ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ ٱلْخَبَـٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَٱلْأَغْلَـٰلَ ٱلَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْۚ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِهِۦ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَٱتَّبَعُواْ ٱلنُّورَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ مَعَهُۥٓۙ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبر، نبی امی کی پیروی اختیار کریں1 جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے2 وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال او ر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے3، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے4 لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں
4 | یعنی ان کے فقیہوں نے اپنی قانونی موشگافیوں سے ، ان کے روحانی مقتداؤں نے اپنے تورُّع کے مبالغوں سے ، اور ان کے جاہل عوام نے اپنے تو ہمات اور خود ساختہ حدود و ضوابط سے ان کی زندگی کو جن بوجھوں تلے دبا رکھا ہے اور جن جکڑ بندیوں میں کَس رکھا ہے، یہ پیغمبر وہ سارے بوجھ اتار دیتا ہے اور وہ تمام بندشیں توڑ کر زندگی کو آزاد کر دیتا ہے |
3 | یعنی جن پاک چیزوں کو انہوں نے حرام کر رکھا ہے، وہ انہیں حلال قرار دیتا ہے اور جن ناپاک چیزوں کو یہ لوگ حلال کیے بیٹھے ہیں انہیں وہ حرام قرار دیتا ہے |
2 | مثال کے طور پر توراة اور انجیل کے حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں جہاں محمد صلی اللہل علیہ وسلم کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں: استشناء، باب ١۸، آیت ١۵ تا١۹۔ متی، باب۲١ تا۴٦۔ یوحنا، باب١، آیت١۹تا ۲١۔ یوحنا باب١۴، آیت١۵تا١۷ و آیت ۲۵تا۳۰ یوحنا، باب١۵، آیت ۲۵۔۲٦ یوحنا، باب١٦، آیت۷تا١۵ |
1 | حضرت موسیٰ کی دعا کا جواب اوپر کے فقرے پر ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اب موقع کی مناسبت سے فورًا بنی اسرائیل کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے ۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ تم پر خدا کی رحمت نازل ہونے کے لیے جو شرائط موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں عائد کی گئی تھیں وہی آج تک قائم ہیں اور دراصل یہ اُنہی شرائط کا تقاضا ہے کہ تم اِس پیغمبر پر ایمان لاؤ۔ تم سے کہا گیا تھا کہ خدا کی رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے جو نافرمانی سے پر ہیز کریں۔ تو آج سب سے بڑی بنیادی نا فرمانی یہ ہے کہ جس پیغمبر کو خدا نے مامور کیا ہے اس کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے۔ لہٰذا جب تک اِس نافرمانی سے پرہیز نہ کر و گےتقویٰ کی جڑ ہی سرے سے قائم نہ ہوگی خواہ جزئیات و فروعات میں تم کتنا ہی تقویٰ بگھارتے رہو۔ تم سے کہا گیا تھا کہ رحمت ِ الہٰی سے حِصہ پانے کے لیے زکوٰة بھی ایک شرط ہے۔ تو آج کسی انفاق مال پر اُس وقت تک زکوٰة کی تعریف صادق نہیں آسکتی جب تک اقامتِ دینِ حق کی اُس جدوجہد کا ساتھ نہ دیا جائے جو اِس پیغمبر کی قیادت میں ہو رہی ہے۔ لہٰذا جب تک اِس راہ میں مال صرف نہ کرو گے زکوٰة کی بنیاد ہی استوار نہ ہو گی چاہے تم کتنی ہی خیرات اور نذرونیاز کرتے ہو۔ تم سے کہاگیا تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت صرف اُن لوگوں کے لیے لکھی ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں۔ تو آج جو آیات اس پیغمبر پر نازل ہو رہی ہیں ان کا انکار کرکے تم کسی طرح بھی آیات ِ الہٰی کے ماننے والے قرار نہیں پا سکتے۔ لہٰذا جب تک اِن پر ایمان نہ لاؤ گے یہ آخری شرط بھی پوری نہ ہو گی خواہ توراة پر ایمان رکھنے کا تم کتنا ہی دعوٰی کرتے رہو۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے”اُمّی“ کا لفظ بہت معنی خیز استعمال ہوا ہے۔ بنی اسرائیل اپنے سوا دوسری قوموں کی اُمّی (Gentiles ) کہتے تھے اور ان کا قومی فخر و غرور کسی اُمّی کی پیشوائی تسلیم کرنا تو درکنار، اِس پر بھی تیار نہ تھا کہ اُمّیوں کے لیے اپنے برابر انسانی حقوق ہی تسلیم کر لیں۔ چناچہ قرآن ہی میں آتا ہے کہ وہ کہتے تھے لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ(آل عمران آیت۷۵)”اُمیوں کے مال مار کھانے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہی کی اصطلاح استعمال کر کے فرماتا ہے کہ اب تو اسی اُمّی کے ساتھ تمہاری قسمت وابستہ ہے، اس کی پیروی قبول کر وگے تو میری رحمت سےحصہ پاؤ گے ورنہ وہی غضب تمہارے لیے مقرر ہے جس میں صدیوں سے گرفتار چلے آرہے ہو |
Surah 7 : Ayat 158
قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُۖ فَـَٔـامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِ ٱلنَّبِىِّ ٱلْأُمِّىِّ ٱلَّذِى يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَكَلِمَـٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اے محمدؐ، کہو کہ 1"اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے"
1 | اصل سلسلہ کلام بنی اسرائیل سے متعلق چل رہا تھا ۔ بیچ میں موقع کی مناسبت سے رسالت محمدی پر ایمان لانے کی دعوت بطور جملہ معترضہ آگئی۔ اب پھر تقریر کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو پچھلے کئی رکوعوں سے بیان ہورہا ہے |
Surah 62 : Ayat 2
هُوَ ٱلَّذِى بَعَثَ فِى ٱلْأُمِّيِّــۧنَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
وہی ہے جس نے امیوں1 کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے2 حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے3
3 | یہ حضورؐ کی رسالت کا ایک اور ثبوت ہے جو یہودیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے عرب کی سر زمین میں آباد تھے اور اہل عرب کی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، اور تمدنی زندگی کا کوئی گوشہ ان سے چھپا ہوا نہ تھا۔ ان کی اس سابق حالت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ چند سال کے اندر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت و رہنمائی میں اس قوم کی جیسی کایا پلٹ گئی ہے اس کے تم عینی شاہد ہو۔ تمہارے سامنے وہ حالت بھی ہے جس میں یہ لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے مبتلا تھے۔ وہ حالت بھی ہے جو اسلام لانے کے بعد ان کی ہو گئی، اور اسی قوم کے ان لوگوں کی حالت بھی تم دیکھ رہے ہو جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ کیا یہ کھلا کھلا فرق، جسے ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے ، تمہیں یہ یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کے سوا کسی کا کارنامہ نہیں ہو سکتا؟ بلکہ اس کے سامنے تو پچھلے انبیاء تک کے کارنامے ماند پڑ گۓ ہیں |
2 | قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ صفات چار مقامات پر بیان کی گئی ہیں، اور ہر جگہ ان کے بیان کی غرض مختلف ہے۔ البقرہ آیت 129 میں ان کا ذکر اہل عرب کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ آنحضورؐ کی بعثت، جسے وہ اپنے لیے زحمت و مصیبت سمجھ رہے تھے ، در حقیقت ایک بڑی نعمت ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کر تے تھے۔ البقرہ آیت 151 میں انہیں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان حضورؐ کی قدر پہچانیں اور اس نعمت سے پورا پورا فیض حاصل کریں جو حضورؐ کی بعثت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے۔ آل عمران آیت 164 میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لیے ان کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ کتنا بڑا احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان اپنا رسول بھیج کر کیا ہے اور یہ لوگ کتنے نادان ہیں کہ اس کی قدر نہیں کرتے۔ اب چوتھی مرتبہ انہیں اس سورہ میں دہرایا گیا ہے جس سے مقصود یہودیوں کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کر رہے ہیں وہ صریحاً ایک رسول کا کام ہے۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان، مضامین، انداز بیان، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں، ان کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں، اور ان کو اعلیٰ درجے کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتاب الٰہی منشا سمجھا رہے ہیں اور ان کو اس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی ہے۔ یہی سیرت اور کردار اور کام ہی تو انبیاء کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ پھر یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ جس کا رسول بر حق ہونا اس کے کارناموں سے علانیہ ثابت ہو رہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اللہ نے اسے تمہاری قوم کے بجاۓ اس قوم میں سے اٹھایا جسے تم امی کہتے ہو |
1 | یہاں امی کا لفظ یہودی اصطلاح کے طور پر آیا ہے ، اور اس میں ایک لطیف طنز پوشیدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کو یہودی حقارت کے ساتھ امی کہتے اور اپنے مقابلہ میں ذلیل سمجھتے ہیں، انہیں میں اللہ غالب و دانا نے ایک رسول اٹھایا ہے۔ وہ خود نہیں اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس کا اٹھانے والا وہ ہے جو کائنات کا بادشاہ ہے ، زبردست اور حکیم ہے ، جس کی قوت سے لڑ کر یہ لوگ اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے ، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید میں ’’اُمی‘‘ کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے اور سب جگہ اس کے معنی ایک ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں وہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جس کی پیروی وہ کرتے ہوں۔ مثلاً فرمایا : قَلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ وَا لْاُمِّیِّنَءَ اَسْلَمْتُمْ (آل عمران۔ 20)۔ ’’ اہل کتاب اور امیوں سے پوچھو کیا تم نے اسلام قبول کیا؟’’ یہاں امیوں سے مراد مشرکین عرب ہیں، اور ان کو اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ سے الگ ایک گروہ قرار دیا گیا ہے۔ کسی جگہ یہ لفظ خود اہل کتاب کے اَن پڑھ اور کتاب اللہ سے نا واقف لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا : وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَا نِیَّ (البقرہ۔ 78)۔’’ اِن یہودیوں میں کچھ لوگ امی ہیں، کتاب کا کوئی علم نہیں رکھتے ، بس اپنی آرزوؤں ہی کو جانتے ہیں ‘‘۔ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے مراد دنیا کے تمام غیر یہودی ہیں۔ مثلاً فرمایا: ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْ ا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ (آل عمران۔ 75 )۔ یعنی ’’ ان کے اندر یہ بد دیانتی پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں کا مال مار کھانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے ’’۔ یہی تیسرے معنی ہیں جو آیت زیر بحث میں مراد لیے گۓ ہیں۔ یہ لفظ عبرانی زبان کے لفظ گوئیم کا ہم معنی ہے ، جس کا ترجمہ انگریزی بائیبل میں Gentiles کیا گیا ہے ، اور اس سے مراد تمام غیر یہودی یا غیر اسرائیلی لوگ ہیں۔ لیکن اس یہودی اصطلاح کی اصل معنویت محض اس کی اس تشریح سے سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ در اصل عبرانی زبان کا لفظ گوئیم ابتداءً محض اقوام کے معنی میں بولا جاتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہودیوں نے اسے پہلے تو اپنے سوا دوسری قوموں کے لیے مخصوص کر دیا، پھر اس کے اندر یہ معنی پیدا کر دیے کہ یہودیوں کے سوا باقی تمام اقوام نا شائستہ، بد مذہب، ناپاک اور ذلیل ہیں، حتیٰ کہ حقارت اور نفرت میں یہ لفظ یونانیوں کی اصطلاح Barbarian سے بھی بازی لے گیا جسے وہ تمام غیر یونانیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ربیوں کے لٹریچر میں گوئیم اس قدر قابل نفرت لوگ ہیں کہ ان کو انسانی بھائی نہیں سمجھا جا سکتا، ان کے ساتھ سفر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان میں سے کوئی شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آنے والا مسیح تمام گوئیم کو ہلاک کر دے گا اور جلا کر خاکستر کر ڈالے گا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ 64 ) |