Ayats Found (2)
Surah 35 : Ayat 32
ثُمَّ أَوْرَثْنَا ٱلْكِتَـٰبَ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَاۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِۦ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقُۢ بِٱلْخَيْرَٲتِ بِإِذْنِ ٱللَّهِۚ ذَٲلِكَ هُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْكَبِيرُ
پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن لیا1 اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے2
2 | یعنی یہ مسلمان سب کے سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں، بلکہ یہ تین طبقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں: 1)۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے۔یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سچے دل سے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ایمانداری کے ساتھ اللہ کا رسول تو مانتے ہیں، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرتے۔ مومن ہیں مگر گناہ گار ہیں۔ مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں۔ ضعیف الایمان ہیں مگر منافق اور دل و دماغ سے کافر نہیں ہیں۔ اسی لیے ان کو ظالمُ لِنفسہ ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چُنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ باغیوں اور منافقوں اور قلب و ذہن کے کافروں پر ان اوصاف کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ تینوں درجات میں سے اس درجہ کے اہل ایمان کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امت میں کثرت انہی کی ہے۔ 2)۔ بیچ کی راس۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وراثت کا حق کم و بیش ادا تو کرتے ہیں مگر پوری طرح نہیں کرتے۔ فرماں بردار بھی ہیں اور خطا کار بھی۔ اپنے نفس کو بالکل بے لگام تو انہوں نے نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے خدا کا مطیع بنانے کی اپنی حد تک کوشش کرتے ہیں، لیکن کبھی یہ اس کی باگیں ڈھیلی بھی چھوڑ دیتے ہیں اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس طرح انکی زندگی اچھے اور برے، دونوں طرح کے اعمال کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ یہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور تیسرے گروہ سے زیادہ ہیں اس لیے ان کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ 3)۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے۔ یہ وارثین کتاب میں صفِ اول کے لوگ ہیں۔ یہی دراصل اس وراثت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ یہ اتباع کتاب و سنت میں بھی پیش پیش ہیں، خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش، دین حق کی خاطر قربانیاں کرنے میں بھی پیش پیش، اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش۔ یہ دانستہ معصیت کرنے والے نہیں ہیں، اور نا دانستہ کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر متنبہ ہوتے ہی ان کی پیشانیاں شرم سے عرق آلود ہو جاتی ہیں۔ ان کی تعداد امت میں پہلے دونوں گروہوں سے کم ہے اس لیے ان کا آخر میں ذکر کیا گیا ہے اگرچہ وراثت کا حق ادا کرنے کے معاملہ میں ان کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔ ’’یہی بہت بڑا فضل ہے‘‘۔ اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیکیوں میں سبقت کرنا ہی بڑا فضل ہے اور جو لوگ ایسے ہیں وہ امت مسلمہ میں سب سے افضل ہیں۔ اور اس فقرے کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کتاب اللہ کا وارث ہونا اور اس وراثت کے لیے چن لیا جانا بڑا فضل ہے، اور خدا کے تمام بندوں میں وہ بندے سب سے افضل ہیں جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاکر اس انتخاب میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ |
1 | مراد ہیں مسلمان جو پوری نوعِ انسانی میں سے چھانٹ کر نکالے گئے ہیں تاکہ وہ کتاب اللہ کے وارث ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اسے لے کر اٹھیں۔ اگرچہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارے انسانوں کے سامنے۔ مگر جنہوں نے آگے پڑھ کر اسے قبول کر لیا وہی اس شرف کے لیے منتخب کر لیے گئے کہ قرآن جیسی کتاب عظیم کے وارث اور محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم جیسے رسول عظیم کی تعلیم و ہدایت کے امین بنیں۔ |
Surah 35 : Ayat 35
ٱلَّذِىٓ أَحَلَّنَا دَارَ ٱلْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِۦ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ
جس نے ہمیں اپنے فضل سے ابدی قیام کی جگہ ٹھیرا دیا1، اب یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی ہے اور نہ تکان لاحق ہوتی ہے2
2 | بالفاظ دیگر ہماری تمام محنتوں اور تکلیفوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب یہاں ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا پڑتا جس کے انجام دینے میں ہم کو مشقت پیش آتی ہو اور جس سے فارغ ہو کر ہم تھک جاتے ہوں |
1 | یعنی دنیا ہماری سفر حیات کی ایک منزل تھی جس سے ہم گزر آئے ہیں، اور میدان حشر بھی اس سفر کا ایک مرحلہ تھا جس سےہم گزر لیے ہیں، اب ہم اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے نکل کر پھر کہیں جانا نہیں ہے۔ |