Ayats Found (3)
Surah 7 : Ayat 163
وَسْــَٔلْهُمْ عَنِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِى كَانَتْ حَاضِرَةَ ٱلْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِى ٱلسَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَۙ لَا تَأْتِيهِمْۚ كَذَٲلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ
اور ذرا اِن سے اُ س بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی1 اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر اُن کے سامنے آتی تھیں2 اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے3
3 | اللہ تعالیٰ بندوں کی آزمائش کے لیے جو طریقے اختیار فرماتا ہے ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی شخص یا گروہ کے اندر فرماں برداری سے انحراف اور نا فرمانی کی جانب میلان بڑھنے لگتا ہے تو اس کے سامنے نا فرمانی کے مواقع کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے تاکہ اس کے وہ میلانات جو اندر چھپے ہوئے ہیں کھل کر پوری طرح نمایاں ہو جائیں اور جن جرائم سے وہ اپنے دامن کو خود داغ دار کرنا چاہتا ہے ان سے وہ صرف اس لیے باز نہ رہ جائے کہ ان کے ارتکاب کے مواقع اُسے نہ مل رہے ہوں |
2 | ”سبت“ ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں۔ یہ دن بنی اسرائیل کے لیے مقدس قرار دیاگیا تھا اور اللہ تعالیٰ نےاسے اپنے اور اولادِ اسرائیل کے درمیان پشت در پشت تک دائمی عہد کا نشان قرار دیتے ہوئے تاکید کی تھی کہ اس روز کوئی دنیاوی کام نہ کیا جائے، گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے، جانوروں اور لونڈی غلاموں تک سے کوئی خدمت نہ لی جائے اور یہ کہ جو شخص اس ضابطہ کی خلاف ورزی کرے اسے قتل کر دیا جائے۔ لیکن بنی اسرائیل نے آگے چل کر اس قانون کی علانیہ خلاف ورزی شروع کر دی۔ یرمیاہ نبی کے زمانہ میں (جو ٦۲۸ ء اور ۵۸٦ء قبل مسیح کے درمیان گزرے ہیں) خاص یر وشلم کے پھاٹکوں سے لوگ سبت کے دن مال اسباب لے لے کر گزرتے تھے۔ اس پر نبی موصوف نے خدا کی طرف سے یہودیوں کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ شریعت کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی سے باز نہ آئے تو یردشلم نذر ِ آتش کردیا جائے گا(یرمیاہ ١۷:۲١۔۲۷)۔ اسی کی شکایت حزقی ایل نبی بھی کرتے ہیں جن کا دور۵۹۵ء اور۵۳٦ ء قبل مسیح کے درمیان گزرا ہے، چنانچہ ان کی کتاب میں سبت کی بے حرمتی کو یہودیوں کے قومی جرائم میں سے ایک بڑا جرم قرار دیا گیا ہے(حزقی ایل۲۰:١۲۔۲۴)۔ ان حوالوں سے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں جس واقعہ کا ذکر کر رہا ہے وہ بھی غالباً اسی دور کا واقعہ ہو گا |
1 | محققین کا غلاب میلان اس طرف ہے کہ یہ مقام اَیلہ یا اَیلات یا اَیلوت تھا جہاں اب اسرائیل کی یہودی ریاست نے اسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے اور جس کے قریب ہی اُردن کی مشہور بندرگاہ عَقَبہ واقع ہے۔ اس کی جائے وقوع بحرِ قلزم کی اُس شاخ کے انتہائی سرے پر ہے جو جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی اور عرب کے مغربی ساحل کے درمیان ایک لمبی خلیج کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ بنی اسرائیل کے زمانہ عروج میں یہ بڑا اہم تجارتی مرکز تھا۔ حضرت سلیمان نے اپنے بحرِ قلزم کے جنگی و تجارتی بیڑے کا صدر مقام اِسی شہر کو بنایا تھا۔ جس واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اس کے متعلق یہودیوں کی کتب ِ مقدسہ میں کوئی ذکر ہمیں نہیں ملتا اور ان کی تاریخیں بھی اس باب میں خاموش ہیں، مگر قرآن مجید میں جس انداز سے اس واقعہ کو یہاں اور سورہ بقرہ میں بیان کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نزولِ قرآن کے دور میں بنی اسرائیل بالعموم اس واقعہ سے خوب واقف تھے، اور یہ حقیقت ہے کہ مدینہ کے یہودیوں نے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، قرآن کے اس بیان پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں کیا |
Surah 18 : Ayat 60
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَـٰهُ لَآ أَبْرَحُ حَتَّىٰٓ أَبْلُغَ مَجْمَعَ ٱلْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِىَ حُقُبًا
(ذرا اِن کو وہ قصہ سناؤ جو موسیٰؑ کو پیش آیا تھا) جبکہ موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ 1"میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانہ دراز تک چلتا ہی رہوں گا"
1 | اس مرحلے پر یہ قصہ سنانے سے مقصود کفار اور مومنین دونوں کو ایک اہم حقیقت پر متنبہ کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ظاہر بین نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ ہوتے دیکھتی ہے اس سے بالکل غلط نتائج اخذ کر لیتی ہے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالٰی کی وہ مصلحتیں نہیں ہوتیں جنہیں ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے۔ ظالموں کا پھلنا پھولنا اور بے گناہوں کا تکلیفوں میں مبتلا ہونا۔ نافرمانوں پر انعامات کی بارش اور فرمانبرداروں پر مصائب کا ہجوم، بد کاروں کا عیش اور نیکو کاروں کی خستہ حالی، یہ وہ مناظر ہیں جو آئے دن انسانوں کے سامنے آتے رہتے ہیں، اور محض اس لیے کہ لوگ ان کے کنَہ کو نہیں سمجھتے، ان سے عام طور پر ذہنوں میں اُلجھنیں، بلکہ غلط فہمیاں تک پیدا ہو جاتی ہیں۔ کافر اور ظالم ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے، کوئی اس کا راجہ نہیں، اور ہے تو چوپٹ ہے۔ یہاں جن کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات سخت آزمائشوں کے مواقع پر ان کے ایمان تک متزلزل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کار خانہ مشیت کا پردہ اُٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہاں شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے کیسے اور کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟ اس کی کوئی تصریح قرآن نے نہیں کی ہے۔ حدیث میں عوفی کی ایک روایت ہمیں ضرور ملتی ہے جس میں وہ ابن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے مصر میں اپنی قوم کو آباد کیا تھا۔ لیکن ابن عباس سے جو قومی تر روایات بخاری اور دوسری کتب حدیث میں منقول ہیں وہ اس بیان کی تائید نہیں کرتیں، اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ کبھی مصر میں رہے تھے۔ بلکہ قرآن اس کی تصریح کرتا ہے کہ مصر سے خروج کے بعد ان کا سارا زمانہ سینا اور تَیہ میں گزرا۔ اس لیے یہ روایت تو قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ جب ہم خود اس قصے کی تفصیلات پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مشاہدات حضرت موسیٰؑ کو ان کی نبوت کے ابتدائی دور میں کرائے گئے ہوں گے، کیونکہ آغاز نبوت ہی میں انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی تعلیم و تربیت درکار ہوا کرتی ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰؑ کوان مشاہدات کی ضرورت اس زمانے میں پیش آئی ہوگی جبکہ بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آ رہا تھا جن سے مسلمان مکہ معظمہ میں دو چار تھے۔ ان دو وجوہ سے ہمارا قیاس یہ ہے (والعلم عند اللہ) کہ اس واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جبکہ مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا اور سرداران قریش کی طرح فرعون اور اس کے درباری بھی عذاب میں تاخیر دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اوپر کوئی نہیں ہے جو اس سے باز پرس کرنے والا ہو، اور مکے کے مظلوم مسلمانوں کی طرح مصر کے مظلوم مسلمان بھی بے چین ہو ہو کر پوچھ رہے تھے کہ خدا یا ان ظالموں پر انعامات کی اور ہم پر مصائب کی یہ بارش کب تک؟ حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ یہ پکار اٹھے تھے کہ رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْ عَوء نَ وَ مَلَاَہٗ زِیْنَۃً وَّ اَمْوَالاً فِی الْحَیٰوۃِ الدُّ نْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ ’’اے پروردگار، تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں بڑی شان و شوکت اور مال و دولت دے رکھی ہے، اے پروردگار، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ دنیا کو تیرے راستے سے بھٹکا دیں؟‘‘ (تفہیم القرآن، ج 2 ص 308)۔ اگر ہمارا یہ قیاس درست ہو تو پھر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالباً حضرت موسیٰؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانت تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریاۓ نیل کی دو بڑی شاخیں البحرلابیض ور البحر الْاَزْرَق آ کر ملتی ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر 1 صفحہ 34) حضرت موسیٰ نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے ان میں اس ایک مقام کے سوا اور کوئی مجمع البحرین نہیں پایا جاتا۔ بائیبل اس واقعے کے باب میں بالکل خاموش ہے۔ البتہ تَلْمُود میں اس کا ذکر موجود ہے، مگر وہ اسے حضرت موسیٰؑ کے بجاۓ ربی یہوحا نان بن لادی کی طرف منسوب کرتی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس کے ساتھ پیش آیا تھا جو دنیا سے زندہ اٹھاۓ جانے کے بعد فرشتوں میں شامل کر لیے گۓ ہیں اور دنیا کے انتظام پر مامور ہیں۔ (The Talmud Selections By H Polano, pp. 313 .16 ) ممکن ہے کہ خروج سے پہلے کے بہت سے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے ہاں اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رہا ہو اور صدیوں بعد انہوں نے قصے کی کڑیاں کہیں سے کہیں لے جا کر جوڑ دی ہوں۔ تلمود کی اسی روایت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ قرآن میں اس مقام پر موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ہیں۔ لیکن نہ تو تلمود کی ہر روایت لازماً صحیح تاریخ قرار دی جا سکتی ہے، نہ ہمارے لیے یہ گمان کرنے کی کوئی معقول وجہ ہے کہ قرآن میں کسی اور مجہول الحال موسیٰ کا ذکر اس طریقہ سے کیا گیا ہو گا، اور پھر جب کہ معتبر احادیث میں حضرت اُبَیّ بن کعب کی یہ روایت موجود ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قصے کی تشریح فرماتے ہوۓ موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بتایا ہے تو کسی مسلمان کے لیے تلمود کا بیان لائق التفات نہیں رہتا۔ مستشرقین مغرب نے اپنے معمول کے مطابق قرآن مجید کے اس قصے کے بھی مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے، اور تین قصوں پر انگلی رکھ دی ہے کہ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) نے نقل کر کے یہ قصہ بنا لیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے۔ ایک داستان گل گامیش، دوسرے سکندر نامۂسرُیانی، اور تیسرے وہ یہودی روایت جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بد طینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں اس میں پہلے اپنی جگہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ قرآن کو بہر حال منزل مِن اللہ تو نہیں ماننا ہے، اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس میں پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں مقامات سے چراۓ ہوۓ مضامین اور معلومات ہیں۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کرزمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر اور اس تحقیق پر۔ ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہو جاۓ اگر کوئی طالب علم ان سے صرف چار باتوں کا جواب طلب کرے : اول یہ کہ آپ کے پاس وہ کیا دلیل ہے جس کی بنا پر آپ دو چار قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے ماخوذ ہے؟ دوسرے یہ کہ مختلف زبانوں کی جتنی کتابیں آپ لوگوں نے قرآن مجید کے قصوں اور دوسرے بیانات کی ماخذ قرار دی ہیں اگر ان کی فہرست بنائی جاۓ تو اچھے خاصے ایک کتب خانے کہ فہرست بن جاۓ۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکے میں اس وقت موجود تھا اور مختلف زبانوں کے مترجمین بیٹھے ہوۓ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مواد فراہم کر رہے تھے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کا سارا انحصار ان دو تین سفروں پر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر کیے تھے، تو سوال یہ ہے کہ آخر ان تجارتی سفروں میں آنحضرت کتنے کتب خانے نقل یا حفظ کر لائے تھے؟ اور اعلان معقول وجہ ہے؟ تیسرے یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی، سب آپ ہی لوگوں کی طرح اس تلاش میں تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آنحضرت کے معاصرین کو اس سرقے کا پتہ نہ چلنے کی کیا وجہ ہے؟ انہیں تو بار بار تحدّی کی جا رہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے، وحی کے سوا اس کا کوئی ماخذ نہیں ہے، اگر تم اسے بشر کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے۔ اس چیلنج نے آنحضرت کے معاصر دشمنان اسلام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشان دہی نہ کر سکے جس سے قرآن کے ماخوذ ہونے کا کوئی معقول آدمی یقین تو درکنار، شک ہی کر سکتا۔ سوال یہ ہے کہ معاصرین اس سراغ رسانی میں ناکام کیوں ہوۓ اور ہزار بارہ سو برس کے بعد آج معاندین کو اس میں کیسے کامیابی نصیب ہو رہی ہے؟ آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا امکان تو بہرحال ہے نا کہ قرآن منزّل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایات سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں۔ اس امکان کو کس معقل دلیل کی بنا پر بالکل ہی خارج از بحث کر دیا گیا اور کیوں صرف اسی ایک امکان کو باۓ بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہوا جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے؟ کیا مذہبی تعصب اور عناد کے سوا اس ترجیح کی کوئی دوسری وجہ بیان کی جا سکتی ہے؟ ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے ’’علم‘‘ کے نام سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ در حقیقت کسی سنجیدہ طالب علم کے لیے قابل التفات نہیں ہے۔ |
Surah 18 : Ayat 61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَٱتَّخَذَ سَبِيلَهُۥ فِى ٱلْبَحْرِ سَرَبًا
پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ لگی ہو