Ayats Found (8)
Surah 22 : Ayat 67
لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُۖ فَلَا يُنَـٰزِعُنَّكَ فِى ٱلْأَمْرِۚ وَٱدْعُ إِلَىٰ رَبِّكَۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ
ہر امت کے لیے1 ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے2 جس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے محمدؐ، وہ اِس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں3 تم اپنے رب کی طرف دعوت دو، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو4
4 | یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں |
3 | یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دور کی امتوں کے لیے ایک ’’منسک‘‘ لائے تھے ، اسی طرح اس دور کی امت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ، کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک حق ہے۔ سورہ جاثیہ میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : ثَمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَالْاَمْرِفَاتَّبِعْھا وَلَاتَتَّبِعْ اَھْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (آیت 18) ’’ پھر(انبیاء بنی اسرائیل کے بعد ) اسے محمد ہم نے تم کو دین کے معملے میں ایک شریعت (طریقے ) پر قائم کیا ، پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ‘‘۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ 20) |
2 | یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظام عبادت کے معنی میں ہے۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ’’ قربانی کا قاعدہ‘‘ کیا گیا تھا، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ ’’ تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں ‘‘ اس کے وسیع معانی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کے تصریح کر رہا تھا۔ لیکن یہاں اسے محض’’ قربانی‘‘ کے معنی میں لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔بلکہ عبادت کو بھی اگر’’ پستش‘‘ کے بجاۓ ’’ بندگی‘‘ کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہو گا۔اس طرح منسک (طریق بندگی ) کے وہی معنی ہو جائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں ، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہو گا جو سورہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَاجاً، ’’ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی‘‘ (آیت 48) |
Surah 22 : Ayat 68
وَإِن جَـٰدَلُوكَ فَقُلِ ٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ
اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ "جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کو خوب معلوم ہے
Surah 23 : Ayat 73
وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
تُو تو ان کوسیدھے راستے کی طرف بلا رہا ہے
Surah 36 : Ayat 4
عَلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
سیدھے راستے پر ہو
Surah 42 : Ayat 52
وَكَذَٲلِكَ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَاۚ مَا كُنتَ تَدْرِى مَا ٱلْكِتَـٰبُ وَلَا ٱلْإِيمَـٰنُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَـٰهُ نُورًا نَّهْدِى بِهِۦ مَن نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَاۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِىٓ إِلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور اِسی طرح (اے محمدؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے1 تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے2، مگر اُس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو
2 | یعنی نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کبھی حضورؐ کے ذہن میں یہ تصور تک نہ آیا تھا کہ آپ کو کوئی کتاب ملنے والی ہے ، یا ملنی چاہیے ، بلکہ آپ سرے سے کتب آسمانی اور ان کے مضامین کے متعلق کچھ جانتے ہی نہ تھے۔ اسی طرح آپ کو اللہ پر ایمان تو ضرو حاصل تھا۔ مگر آپ نہ شعوری طور پر اس تفصیل سے واقف تھے کہ انسان کو اللہ کے متعلق کیا کیا باتیں ماننی چاہییں ، اور نہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ اس کے ساتھ ملائکہ اور نبوت اور کتب الہٰی اور آخرت کے متعلق بھی بہت سے باتوں کا ماننا ضروری ہے۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جو خود کفار مکہ سے بھی چھپی ہوئی نہ تھیں۔ مکہ معظمہ کا کوئی شخص یہ شہادت نہ دے سکتا تھا کہ اس نے نبوت کے اچانک اعلان سے پہلے کسی حضورؐ کی زبان سے کتاب الہٰی کا کوئی ذکر سنا ہو، یا آپ سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہو کہ لوگوں کو فلاں فلاں چیزوں پر ایمان لانا چاہیے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے سے خود نبی بن بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہو تو اسکی یہ حالت تو کبھی نہیں ہو سکتی کہ چالیس سال تک اس کے ساتھ شب و روز کا میل جول رکھنے والے اس کی زبان سے کتاب اور ایمان کا لفظ تک نہ سنیں ، اور چالیس سال کے بعد یکایک وہ انہی موضوعات پر دھواں دھار تقریریں کرنے لگے |
1 | ’’ اسی طرح‘‘ سے مراد محض آخری طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ تینوں طریقے ہیں جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوۓ ہیں۔ اور ’’ روح‘‘ سے مراد وحی ، یا وہ تعلیم ہے جو وحی کے ذریعہ سے حضورؐ کو دی گئی۔ یہ بات قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان تینوں طریقوں سے ہدایات دی گئی ہیں : 1)۔ حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آنے کی ابتداء ہی سچے خوابوں سے ہوئی تھی (بخاری و مسلم)۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا ہے ، چنانچہ احادیث میں آپ کے بہت سے خوابوں کا ذکر ملتا ہے جن میں آپ کو کوئی تعلیم دی گئی ہے یا کسی بات پر مطلع کیا گیا ہے ، اور قرآن مجید میں بھی آپ کے ایک خواب کا صراحت کے ساتھ ذکر آیا ہے (الفتح، آیت 27)۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، فلاں بات میرے دل میں ڈالی گئی ہے ، یا مجھے یہ بتایا گیا ہے ، یا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے ، یا مجھے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسی تمام چیزیں وحی کی پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ، اور احادیث قدسیہ بھی زیادہ تر اسی قبیل سے ہیں۔ 2)۔ معراج کے موقع پر حضورؐ کو وحی کی دوسری قسم سے بھی مشرف فرمایا گیا۔ متعدد صحیح احادیث میں حضورؐ کو پنج وقتہ نماز کو حکم دیے جانے ، اور حضورؐ کے اُس پر بار بار عرض معروض کرنے کا ذکر جس طرح آیا ہے اُس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت اللہ اور اُس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان ویسا ہی مکالمہ ہو تھا جیسا دامن طور میں حضرت موسیٰؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوا۔ 3)۔ رہی تیسری قسم، تو اُس کے متعلق قرآن خود ہی شہادت دیتا ہے کہ اسے جبریل امین کے ذریعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا گیا ہے (البقرہ ، 97۔ الشعراء، 192 تا 195) |
Surah 43 : Ayat 43
فَٱسْتَمْسِكْ بِٱلَّذِىٓ أُوحِىَ إِلَيْكَۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
تم بہر حال اُس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعہ سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو1
1 | یعنی تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ظلم اور بے ایمانی کے ساتھ حق کی مخالفت کرنے والے اپنے کیے کی کیا اور کب سزا پاتے ہیں، نہ اس بات کی فکر کرو کہ اسلام کو تمہاری زندگی میں فروغ حاصل ہوتا ہے یا نہیں ۔ تمہارے لیے بس یہ اطمینان کافی ہے کہ تم حق پر ہو۔ لہٰذا نتائج کی فکر کیے بغیر اپنا فرض انجام دیتے چلے جاؤ اور یہ اللہ پر چھوڑ دو کہ وہ باطل کا سر تمہارے سامنے نیچا کرتا ہے یا تمہارے پیچھے |
Surah 48 : Ayat 2
لِّيَغْفِرَ لَكَ ٱللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَٲطًا مُّسْتَقِيمًا
تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے1 اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے2 اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے3
3 | اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپؐ کے لیے وہ راہ ہموار کر دی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کر لیں |
2 | نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں ، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہو جاۓ کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کر سکیں۔ کفر و فسقو کا غلبہ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلاۓ کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن ’’فتنہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آ جاۓ جس میں اللہ کا پورا دین نے کم و کاست نافذ ہو، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان و تقویٰ کا سکہ رواں کر سکیں، تو یہ ان پر اللہ نعمت کا اتمام ہے ۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دینا چاہتے تھے، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کر دی |
1 | جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جاۓ تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوۓ اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں پچھلے 19 سال سے مسلمان کر رہے تھے۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سےاس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنے جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصۂ دراز کار تھا، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے در گزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کر دی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہوسکتی تھی۔ اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں۔ در اصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں۔ تاہم چونکہ روۓ سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا ، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں (جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں) بخش دی گئیں ۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضورؐ کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوۓ دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہو چکے ہیں، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں؟ اور آپؐ جواب میں فرماتے تھے : افلا اکون عبداً ا شکوراً۔‘‘کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ (احمد، بخاری، مسلم ، ابوداؤد) |
Surah 93 : Ayat 7
وَوَجَدَكَ ضَآلاًّ فَهَدَىٰ
اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی1
1 | اصل میں لفظ ضالاً استعمال ہوا ہے جو ضلالت سے ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ایک معنی گمراہی کے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص راستہ نہ جانتا ہو اور ایک جگہ حیران کھڑا ہو کہ مختلف راستے جو سامنے ہیں ان میں سے کدھر جاؤں۔ ایک اور معنی کھوئے ہوئے کے ہیں، چنانچہ عربی محاورے میں کہتے ہیں ضل الماء فی اللبن ، پانی دودھ میں گم ہو گیا۔ اس درخت کو بھی عربی میں ضالہ کہتے ہیں جو صحرا میں اکیلا کھڑا ہو اور آس پاس کوئی دوسرا درخت نہ ہو۔ ضائع ہونے کے لیے بھی لفظ ضلال کا لفظ بولا جا تا ہے ، مثلاً کوئی چیز ناموافق اور نا ساز گار حالات میں ضائع ہو رہی ہو، غفلت کے لیے بھی ضلال کالفظ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کی مثال موجود ہے کہ ’’ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ‘‘ (طہ ۔ 52) ’’میرا رب نہ غافل ہوتا ہے نہ بھولتا ہے‘‘۔ ان مختلف معنوں میں سے پہلے معنی یہاں چسپاں نہیں ہوتے، کیونکہ بچپن سے قبل نبوت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جو حالات تاریخ میں موجود ہیں ان میں کہیں اس بات کاشائبہ تک نہیں پایا جاتا کہ آپ کبھی بت پرستی ، شرک یا دہریت میں مبتلا ہوئے ہوں، یا جاہلیت کے جو اعمال ، رسوم اور طور طریقے آپ کی قوم میں پائے جاتے تھے ان میں سے کسی میں آپ ملوث ہوئے ہوں۔ اس لیے لا محالہ ووجدک ضالاً کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ اللہ تعالی نے آپ کو عقیدے یا عمل کے لحاظ سے گمراہ پایا تھا۔ البتہ باقی معنی کسی نہ کسی طور پر یہاں مراد ہو سکتے ہیں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایک اعتبار سے سب مراد ہوں۔ نبوت سےپہلے حضورؐ اللہ کی ہستی اور اس کی وحدانیت کے قائل تو ضرور تھے، اور آپ کی زندگی گناہوں سے پاک اور فضائل اخلاق سے آراستہ بھی تھی، لیکن آپ کو دین حق اور اس کے اصول اور احکام کا علم نہ تھا، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ’’ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ‘‘ (الشوریٰ ، آیت 52) ’’تم نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ ایمان کی تمہیں کوئی خبر تھی‘‘۔ یہ معنی بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں کہ حضور ایک جاہلی معاشرے میں گم ہو کر رہ گئے تھے اور ا یک ھادی و رہبر ہونے کی حیثیت سے آپ کی شخصیت نبوت سے پہلے نمایا نہیں ہو رہتی تھی۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جاہلیت کے صحراء میں آپ ایک اکیلے درخت کی حیثیت سے کھڑے تھے جس میں پھل لانے اور ا یک پورا باغ کا باغ پیدا کر دینے کی صلاحیت تھی مگر نبوت سے پہلے یہ صلاحیت کام نہیں آ رہی تھی۔ یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے جو غیر معمولی قوتیں آپ کو عطا کی تھیں وہ جاہلیت کے ناساز گار ماحول میں ضائع ہو رہی تھیں۔ ضلال کو عفلت کے معنی میں بھی لیا جا سکتا ہے، یعنی آپ ان حقائق اور علوم سے غافل تھے جن سے نبوت کے بعد ا للہ تعالی نے آپ کو آگاہ فرمایا۔ یہ بات خود قرآن میں بھی ایک جگہ ارشاد ہوئی ہے: ’’ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ‘‘ (یوسف 3)۔ ’’اور اگرچہ تم اس سے پہلے ان باتوں سے غافل تھے‘‘ (نیز ملاحظہ ہو البقرہ آیت 282، اور الشعراء آیت 20) |