Ayats Found (6)
Surah 27 : Ayat 24
وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ ٱلشَّيْطَـٰنُ أَعْمَـٰلَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ ٱلسَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ
میں نے دیکھا ہے کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ1 کرتی ہے2" شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے3 اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے
3 | یعنی دنیا کی دولت کمانے اوراپنی زندگی کوزیادہ سے زیادہ شاندار بنانے کے جس کام میں وہ منہمک تھے۔ شیطان نے اُن کو سجھادیا کہ بس یہی عقل وفکر کاایک مصرف اورقوائے زہنی وجسمانی کا ایک استعمال ہے، اس سے زیادہ کسی چیز پرسنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی حاجت ہی نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ اس فکر میں پڑو کہ اس ظاہر حیات ودنیا کے پیچھے حقیقت واقعیہ کیا ہے اورتمہارے مزہب، اخلاق ،تہزیب اورنظام حیات کی بنیادیں اس حقیقت سے مطابقت رکھتی ہیں سراسر اس کے خلاف جارہی ہیں۔ شیطان نے ان کومطمئن کردیاکہ جب تم دنیا میں دولت اورطاقت اورشان وشوکت کے لحاظ سے بڑھتے ہی چلے جارہے ہوتو پھر تمہیں یہ سوچ کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہمارے یہ عقائد اورفلسفے اورنظریے تھیک ہیں یانہیں۔ ان کے تھیک ہونے کی تو یہی ایک دلیل کافی ہے کہ تم مزے سے دولت کمارہے ہو اور عیش اُڑارہے ہو۔ |
2 | انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر پیراگراف تک کی عبارت ہدہد کے کلام کاجز نہیں ہے بلکہ ’’سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے‘‘ پر اس کی بات ختم ہوگئی اوراس کے بعد اب یہ ارشاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بطور اضافہ ہے۔ اس قیاس کوجوچیز تقویت دیتی ہے وہ یہ فقرہ ہے یعلم ماتخفون وماتعلینون،’’ اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو اورظاہر کرتے‘‘۔ ان الفاظ سے یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ متکلم ہدہد مخاطب حضرت سلیمان اور ان کے اہل دربارنہیں ہیں، بلکہ متکلم اللہ تعالیٰ اور مخاطب مشرکین مکہ ہیں جن کو نصیحت کرنے ہی کےلیے یہ قصّہ سنایا جارہا ہے۔ مفسرین میں سے علامہ آلوسی، صاحب روح اامعانی بھی اسی قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔ |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اس زمانہ میں آفتاب پرستی کے مزہب کی پیروتھی۔ عرب کی قدیم روایات سے بھی اس کایہی مزہب معلوم ہوتا ہے چنانچہ ابن اسحاق علمائے انساب کایہ قول نقل کرتاہے کہ سبا کی قوم دراصل ایک مورث اعلیٰ کی طرف منسوب ہے جس کانام عبدِشمس(بندہ آفتاب یاسورج کاپرستار) اورلقب سباتھا۔ بنی اسرئیل کی روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔ ان میں بیان کیاگیا ہے کہ ہدہد جب حضرت سلیمانؑ کاخط لے کرپہنچا تو ملکہء سباسورج دیوتا کی پرستش لےلیے جارہی تھی۔ ہد ہد نے راستےہی میں وہ خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا۔ |
Surah 37 : Ayat 125
أَتَدْعُونَ بَعْلاً وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ ٱلْخَـٰلِقِينَ
کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو
Surah 53 : Ayat 49
وَأَنَّهُۥ هُوَ رَبُّ ٱلشِّعْرَىٰ
اور یہ کہ وہی شعریٰ کا رب ہے1
1 | شَعْیٰ آسمان کا روشن ترین تارا ہے جسے مِرْزم الجرزاء، الکلب الاکبر، الکلب الجبار، الشعری العبور وغیرہ ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ انگریزی میں اس کو Sirius اور Dog Star اورCanis Majoris کہتے ہیں۔ یہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے ، مگر زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ سال نوری سے بھی زیادہ ہے اس لیے یہ سورج سے چھوٹا اور کم روشن نظر آتا ہے ۔ اہل مصر اس کی پرستش کرتے تھے ،کیونکہ اس کے طلوع کے زمانے میں نیل کا فَیضان شروع ہوتا تھا، اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ یہ اسی کے طلوع کا فَیضان ہے ۔ جاہلیت میں اہل عرب کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ یہ ستارہ لوگوں کی قسمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر یہ عرب کے معبودوں میں شامل تھا، اور خاص طور پر قریش کا ہمسایہ قبیلہ خُزَاعَہ اس کی پرستش کے لیے مشہور تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشا کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری قسمتیں شعریٰ نہیں بناتا بلکہ اس کا رب بناتا ہے |
Surah 53 : Ayat 19
أَفَرَءَيْتُمُ ٱللَّـٰتَ وَٱلْعُزَّىٰ
اب ذرا بتاؤ، تم نے کبھی اِس لات، اور اِس عزیٰ
Surah 53 : Ayat 20
وَمَنَوٲةَ ٱلثَّالِثَةَ ٱلْأُخْرَىٰٓ
اور تیسری ایک اور دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور بھی کیا؟1
1 | مطلب یہ ہے کہ جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو دے رہے ہیں اس کو تو تم لوگ گمرہی اور بد راہی قرار دیتے ہو، حالانکہ یہ علم ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جا رہا ہے اور اللہ ان کو آنکھوں سے وہ حقائق دکھا چکا ہے جن کی شہادت وہ تمہارے سامنے دے رہے ہیں۔ اب ذرا تم خود دیکھو کہ جن عقائد کی پیروی پر تم اصرار خیے چلے جا رہے ہو وہ کس قدر غیر معقول ہیں، اور ان کی مقابلے میں جو شخص تمہیں سیدھا راستہ بتا رہا ہے اس کی مخالفت کر کے آخر تم کس کا نقصان کر رہے ہو۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ان تین دیویوں کو بطور مثال لیا گیا ہے جن کو مکہ، طائف، مدینہ، اور نواحی حجاز کے لوگ سب سے زیادہ پوجتے تھے ۔ ان کے بارے میں سوال کیا گیا ہے کہ کبھی تم نے عقل سے کام لے کر سوچا بھی کہ زمین و آسمان کی خدائی کے معاملات میں ان کا کوئی ادنیٰ سا دخل بھی ہو سکتا ہے ؟ یا خداوند عالم سے واقعی ان کا کوئی رشتہ ہو سکتا ہے ؟ لات کا استھان طائف میں تھا اور بنی ثقیبف اس کے اس حد تک معتقد تھے کہ جب ابرہہ ہاتھیوں کی فوج لے کر خانہ کعبہ کو توڑنے کے لیے مکہ پر چڑھائی کرنے جا رہا تھا اس وقت ان لوگوں نے محض اپنے اِس معبود کے آستانے کو بچانے کی خاطر اس ظالم کو مکے کا راستہ بتانے کے لیے بَدْرَقے فراہم کیے تا کہ وہ لات کو ہاتھ نہ لگاۓ۔ حالانکہ تمام اہل عرب کی طرح ثقیف کے لوگ بھی یہ مانتے تھے کہ کعبہ اللہ کا گھر ہے ۔ لات کے معنی میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے ۔ ابن جریر طبری کی تحقیق یہ ہے کہ یہ اللہ کی تانیث ہے ، یعنی اصل میں یہ لفظ اللّٰلہۃٌ تھا جسے اللّٰات کر دیا گیا۔ زَمخشری کے نزدیک یہ لَویٰیَلْوی سے مشتق ہے ، جس کے معنی مڑنے اور کسی کی طرف جھکنے کے ہیں۔ چونکہ مشرکین عبادت کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے اور اس کے آ گئے جھکتے اور اس کا طواف کرتے تھے اس لیے اس کو لات کہا جانے لگا۔ ابن عباسؓ اس کو لات بتشدید تاء پڑھتے ہیں اور اسے لَت یلتُّ سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی متھنے اور لتھیڑنے کے ہیں۔ ان کا اور مجاہد کا بیان ہے کہ یہ دراصل ایک شخص تھا جو طائف کے قریب ایک چٹان پر رہتا تھا اور حج کے لیے جانے والوں کو سَتُّو پلاتا اور کھانے کھلاتا تھا۔ جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اسی چٹان پر اس کا استھان بنا لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے ۔ مگر لات کی یہ تشریح ابن عباس اور مجاہد جیسے بزرگوں سے مروی ہونے کے باوجود دو وجوہ سے قابل قبول نہیں ہے ۔ ایک یہ کہ قرآن میں اسے لات کہا گیا ہے نہ کہ لاتّ۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید ان تینوں کو دیویاں بتا رہا ہے ، اور اس روایت کی رو سے لات مرد تھا نہ عورت۔ عزیٰ عزت سے ہے اور اس کے معنی عزت والی کے ہیں۔ یہ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان مکہ اور طائف کے درمیان وادیِ نخلہ میں حُراض کے مقام پر واقع تھا (نخلہ کی جاۓ وقوع کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحقاف، حاشیہ 23)۔ بنی ہاشم کے حلیف قبیلہ بنی شیبان کے لوگ اس کے مجاور تھے ۔ قریش اور دوسرے قبائل کے لوگ اس کی زیارت کرتے اور اس پر نذریں چڑھاتے اور اس کے لیے قربانیاں کرتے تھے ۔ کعبہ کی طرح اس کی طرف بھی بدی کے جانور لے جاۓ جاتے اور تمام بتوں سے بڑھ کر اس کی عزت کی جاتی تھی۔ ابن ہشام کی روایت ہے کہ ابو اُحیحہ جب مرنے لگا تو ابولہب اس کی عیادت کے لیے گیا۔ دیکھا کہ وہ رو رہا ہے ۔ ابولہب نے کہا کیوں روتے ہو ابو اُلحیحہ؟ کیا موت سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ وہ سب ہی کو آنی ہے ۔ اس نے کہا خدا کی قسم میں موت سے ڈر کر نہیں توتا، بلکہ مجھے یہ غم کھاۓ جا رہا ہے کہ میرے بعد عزیٰ کی پوجا کیسے ہو گی۔ابو لہب بولا۔ اس کی پوجا نہ تمہاری زندگی میں تمہاری خاطر ہوتی تھی اور نہ تمہارے بعد اسے چھوڑا جاۓ گا۔ ابو الُحیحہ نے کہا اب مجھے اطمینان ہو گیا کہ میرے بعد کوئی میری جگہ سنبھالنے والا ہے ۔ مَناۃ کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے قدید کے مقام پر تھا اور خاص طور پر خزاعہ اور اوس اور خزرج کے لوگ اس کے بہت معتقد تھے ۔ اس کا حج اور طواف کیا جاتا اور اس پر نذر کی قربانیاں چڑھائی جاتی تھیں۔ زمانہ حج میں جب حجاج طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہو جاتے تو وہیں سے مناۃ کی زیارت کے لیے لبیک لبیک کی صدائیں بلند کر دی جاتیں اور جو لوگ اس دوسرے ’’حج‘‘ کی نیت کر لیتے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے تھے |
Surah 71 : Ayat 23
وَقَالُواْ لَا تَذَرُنَّ ءَالِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا
اِنہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو، اور نہ چھوڑو وَدّ اور سُواع کو، اور نہ یَغُوث اور یَعُوق اور نَسر کو1
1 | قوم نوحؑ کے معبودوں میں سے یہاں ان معبودوں کے نام لیے گئے ہیں جنہیں بعد میں اہل عرب نے بھی پوجنا شروع کر دیا تھا اور آغاز اسلام کے وقت عرب میں جگہ جگہ ان کے مندر بنے ہوئے تھے۔ بعید نہیں کہ طوفان میں جو لوگ بچ گئے تھے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں نے قوم نوحؑ کے قدیم معبودوں کا ذکر سنا ہو گا اور جب از سر نو ان کی اولاد میں جاہلیت پھیلی ہو گی تو انہی معبودوں کے بت بنا کر انہوں نے پھر ا نہیں پوجنا شروع کر دیا ہو گا۔ وَدّ قبیلہ قضاعہ کی شاخ بنی کلب بن وبرہ کا معبود تھا جس کا استھان انہوں نے دومتہ الجندل میں بنا رکھا تھا۔ عرب کے قدیم کتبات میں ان کا نام ودم ابم (ود باپو) لکھا ہوا ملتا ہے۔ کلبی کا بیان ہے کہ اس کا بُت ایک نہایت عظیم الجثہ مرد کی شکل کا بنا ہوا تھا۔ قریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں ود تھا۔ اسی کے نام پر تاریخ میں ایک شخص کا نام عبد ود ملتا ہے۔ سواع قبیلہ ہذیل کی دیوی تھی اور اس کا بت عورت کی شکل کا بنایا گیا تھا۔ ینبوع کے قریب رہاط کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا۔ یغوث قبیلہ طے کی شاخ انعم اور قبیلہ مذحج کی بعض شاخوں کا معبود تھا۔ مذحج والوں نے یمن اور حجاز کے درمیان جرش کے مقام پر اس کا بت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی۔ قریش کے لوگوں میں بھی بعض کا نام عبد یغوث ملتا ہے۔ یعوق یمن کے علاہ ہمدان میں قبیلہ ہمدان کی شاخ خیوان کا معبود تھا اور اس کا بت گھوڑے کی شکل کا تھا۔ نسر حمیر کے علاقے میں قبیلہ حمیر کی شاخ آل ذوالکلاع کا معبود تھا اور بلخع کے مقام پر اس کا بت نصب تھا جس کی شکل گدھ کی تھی۔ سبا کے قدیم کتبوں میں اس کا نام نسور لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس کے مندر کو وہ لوگ بیت نسور ۔ اور اس کے پُجاریوں کو ا ہل نسور کہتے تھے۔ قدیم مندروں کے جو آثار عرب اور اس کے متصل علاقوں میں پائے جاتے ہیں ان میں سے بہت سے مندروں کے دروازوں پر گدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے |