Ayats Found (3)
Surah 31 : Ayat 27
وَلَوْ أَنَّمَا فِى ٱلْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَـٰمٌ وَٱلْبَحْرُ يَمُدُّهُۥ مِنۢ بَعْدِهِۦ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَـٰتُ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی1 بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے
1 | اللہ کی باتوں سے مراد ہیں اس کے تخلیقی کام اوراس کی قدرت و حکمت کے کرشمے۔ یہ مضمون اس سے ذرا مختلف الفاظ میں سورہ کہف آیت ۱۰۹ میں بھی بیان ہوا ہے۔ بظاہر ایک شخص یہ گمان کر ے گا شاید اس قو ل میں مبالغہ کیا۔ لیکن اگر آدمی تھوڑا سا غور کرے تو محسوس ہو گا کہ درحقیقت اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے۔ جتنے قلم اس زمین کے درختوں سے بن سکتے ہیں اور جتنی روشنائی زمین کے موجودہ سمندر اور ویسے ہی سات مزید سمندر فراہم کر سکتے ہیں، اب سے اللہ کی قدرت و حکمت اور اس کی تخلیق کے سارے کرشمے تو درکنار، شائد موجودات عالَم کی مکمل فہرست بھی نہیں لکھی جا سکتی ۔ تنہا اس زمین پر جتنی کو جو دات پائی جاتی ہیں انہی کا شمار مشکل ہے، کجا کہ اس اتھاہ کائنات کی ساری موجودات ضبطِ تحریر میں لائی جا سکیں۔ اس بیان سے دراصل یہ تصوّر دلانا مقصُود ہے کہ جو خدا اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لایا ہے اور ازل سے ابد تک اس کا سارا نظم و نسق چلا رہا ہے اس کی خدائی میں اُن چھوٹی چھوٹی ہستیوں کی حیثیت ہی کیا ہے جنہیں تم معبود بنائے بیٹھے ہو۔ اس عظیم الشان سلطنت کے چلانے میں دخیل ہونا تو درکنار، اس کے کسی اقل قلیل جُز سے پوری واقفیت اور محض واقفیت تک کسی مخلوق کے بس کی چیز نہیں ہے۔ پھر بھلا یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مخلوقات میں سے کسی کو یہاں خداوندانہ اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ بھی مل سکے جس کی بنا پر وہ دعائیں سننے اور قسمتیں بنانے اور بگاڑنے پر قادر ہو۔ |
Surah 68 : Ayat 1
نٓۚ وَٱلْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ
ن، قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں1
1 | امام تفسیر مجاہد کہتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر، یعنی قرآن لکھا جا رہا تھا۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ چیز جو لکھی جا رہی تھی اس سے مراد قرآن مجید ہے |
Surah 96 : Ayat 4
ٱلَّذِى عَلَّمَ بِٱلْقَلَمِ
جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا1
1 | یعنی یہ اس کا انتہائی کرم ہے کہ اس حقیر ترین حالت سے ابتدا کر کے اس نے انسان کو صاحب علم بنایا جو مخلوقات کی بلند ترین صفت ہے، اور صاحب علم ہی نہیں بتایا، بلکہ اس کو قلم کے ا ستعمال سے لکھنے کا فن سکھایا جو بڑے پیمانے پر علم کی اشاعت، ترقی اور نسلاً بعد نسل اس کے بقا اور تحفظ کا ذریعہ بنا۔ اگر وہ الہامی طور پر انسان کو قلم اور کتابت کے فن کا یہ علم نہ دیتا تو انسان کی علمی قابلیت ٹھٹھر کر رہ جاتی اور اسے نشو نما پانے، پھیلنے اور ایک نسل کے علوم دوسری نسل تک پہنچنے اور آگے مزید ترقی کرتے چلے جانے کا موقع ہی نہ ملتا |