Ayats Found (6)
Surah 7 : Ayat 184
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُواْۗ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور کیا اِن لوگوں نے کبھی سوچا نہیں؟ اِن کے رفیق پر جنون کا کوئی اثر نہیں ہے وہ تو ایک خبردار ہے جو (برا انجام سامنے آنے سے پہلے) صاف صاف متنبہ کر رہا ہے
Surah 34 : Ayat 46
۞ قُلْ إِنَّمَآ أَعِظُكُم بِوَٲحِدَةٍۖ أَن تَقُومُواْ لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَٲدَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُواْۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ
اے نبیؐ، اِن سے کہو کہ 1"میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو، تمہارے صاحب میں آخر ایسی کونسی بات ہے جو جنون کی ہو؟ وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے2"
2 | یعنی کیا یہی وہ قصور ہے جس کی بنا پر تم اسے جنون کا مریض ٹھیراتے ہو؟ کیا تمہارے نزدیک عقلمند وہ ہے جو تمہیں تباہی کے راستے پر جاتے دیکھ کر کہے کہ شاباش، بہت اچھے جا رہے ہو، اور مجنون وہ ہے جو تمہیں برا وقت آنے سے پہلے خبردار کرے اور فساد کی جگہ صَلاح کی راہ بتائے |
1 | یعنی اغراض اور خواہشات سے پاک ہو کر خالصتہً لِللہ غور کرو۔ ہر شخص الگ الگ بھی نیک بیتی کے ساتھ سوچے اور دو دو چار چار آدمی سر جوڑ کر بھی بے لاگ طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ بحث کر کے تحقیق کریں کہ آخر وہ کیا بات ہے جس کی بنا پر آج تم اس شخص کو مجنون ٹھیرا رہے ہو جسے کل تک تم اپنے درمیان نہایت دانا آدمی سمجھتے تھے۔ آخر نبوت سے تھوڑی ہی مدت پہلے کا تو واقعہ تھا کہ تعمیر کعبہ کے بعد حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر جب قبائل قریش باہم لڑ پڑے تھے تو تم ہی لوگوں نے بالاتفاق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم تسلیم کیا تھا اور انہوں نے ایسے طریقے سے اس جھگڑے کو چکایا تھا جس پر تم سب مطمئن ہو گئے تھے۔ جس شخص کی عقل و دانش کا یہ تجربہ تمہاری ساری قوم کو ہو چکا ہے، اب کیا بات ایسی ہو گئی کہ تم اسے مجنون کہنے لگے؟ہٹ دھرمی کی تو بات ہی دوسری ہے، مگر کیا واقعی تم اپنے دلوں میں بھی وہی کچھ سمجھتے ہو جو اپنی زبانوں سے کہتے ہو؟ |
Surah 52 : Ayat 29
فَذَكِّرْ فَمَآ أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ
پس اے نبیؐ، تم نصیحت کیے جاؤ، اپنے رب کے فضل سے نہ تم کاہن ہو اور نہ مجنون1
1 | اوپر آخرت کی تصویر پیش کرنے کے بعد اب تقریر کا رخ کفار مکہ کی ان ہٹ دھرمیوں کی طرف پھر رہا ہے جس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ یہاں خطاب بظاہر تو آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر دراصل آپ کے واسطے سے یہ باتیں کفار مکہ کو سنائی مقصود ہیں ۔ ان کے سامنے جب آپ قیامت، اور حش و نشر، اور حساب و کتاب، اور جزا و سزاء اور جنت و جہنم کی باتیں کرتے تھے ، اور ان مضامین پر مشتمل قرآن مجید کی آیات اس دعوے کے ساتھ ان کو سناتے تھے کہ یہ خبریں اللہ کی طرف سے میرے پاس آئی ہیں اور یہ اللہ کا کلام ہے جو مجھ پر وحی کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے ، تو ان کے سردار اور مذہبی پیشوا اور اَوباش لوگ آپ کی ان باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ نہ خود غور کرتے تھے ، نہ یہ چاہتے تھے کہ عوام ان کی طرف توجہ کریں ۔ اس لیے وہ آپ کے اوپر کبھی یہ فقرہ کستے تھے کہ آپ کاہن ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ مجنون ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ شاعر ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ خود اپنے دل سے یہ نرالی باتیں گھڑتے ہیں اور محض اپنا رنگ جمانے کے لیے انہیں خدا کی نازل کردہ وحی کہہ کر پیش کرتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح کے فقرے کس کر وہ لوگوں کو آپ کی طرف سے بدگمان کر دیں گے اور آپ کی ساری باتیں ہوا میں اڑ جائیں گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی، واقعی حقیقت تو وہی کچھ ہے جو سورۃ کے آغاز سے یہاں تک بیان کی گئی ہے ۔ اب اگر یہ لوگ ان باتوں پر تمہیں کاہن اور مجنون کہتے ہیں تو پروا نہ کرو اور بندگان خدا کو غفلت سے چونکانے اور حقیقت سے خبردار کرنے کا کام کرتے چلے جاؤ، کیونکہ خدا کے فضل سے نہ تم کاہن ہو نہ مجنون۔ ’’کاہن‘‘ عربی زبان میں جوتشی، غیب گو اور سیانے کے معنی میں بولا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا۔ کاہنوں کا دعویٰ تھا، اس ان کے بارے میں ضعیف الاعتقاد لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ وہ ستارہ شناس ہیں ، یا ارواح اور شیاطین اور جنوں سے ان کا خاص تعلق ہے جس کی بدولت وہ غیب کی خبریں معلوم کر سکتے ہیں ۔کوئی چیز کھوئی جاۓ تو وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں پڑی ہوئی ہے ۔ کسی کے ہاں چوری ہو جاۓ تو وہ بتا سکتے ہیں کہ چور کون ہے ۔ کوئی اپنی قسمت پوچھے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے ۔ انہی اغراض کے لیے لوگ ان کے پاس جاتے تھے ۔اور وہ کچھ نذر نیاز لے کر انہیں غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے ۔ وہ خود بھی بسا اوقات بستیوں میں آواز لگاتے پھرتے تھے تاکہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں ان کی ایک خاص وضع قطع ہوتی تھی جس سے وہ الگ پہچانے جاتے تھے ۔ ان کی زبان بھی عام بول چال سے مختلف ہوتی تھی وہ مقفّیٰ اور مسجّع فقرے خاص لہجے میں ذرا ترنم کے ساتھ بولتے تھے اور بالعموم ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن سے ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے ۔ قریش کے سرداروں نے عوام کو فریب دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کاہن ہونے کا الزام صرف اس بنا پر لگا دیا کہ آپ ان حقائق کی خبر دے رہے تھے جو لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں ، اور آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا کی طرف سے ایک فرشتہ آ کر آپ پر وحی نازل کرتا ہے ، اور خدا کا جو کلام آپ پیش کر رہے تھے وہ بھی مقفّیٰ تھا۔ لیکن عرب میں کوئی شخص بھی ان کے اس الزام سے دھوکا نہ کھا سکتا تھا۔ اس لیے کہ کاہنوں کے پیشے اور ان کی وضع قطع اور ان کی زبان اور ان کے کاروبار سے کوئی بھی نا واقف نہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں ، اور کن مضامین پر وہ مشتمل ہوتے ہیں ۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی کاہن کا سرے سے یہ کام ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ قوم کے رائج الوقت عقائد کے خلاف ایک عقیدہ لے کر اٹھتا اور شب و روز اس کی تبلیغ میں اپنی جان کھپاتا اور اس کی خاطر سری قوم کی دشمنی مول لیتا۔ اس لیے رسل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کہانت کا یہ الزام براۓ نام بھی کوئی مناسبت نہ رکھتا تھا کہ یہ پھبتی آپ پر چسپاں ہو سکتی اور عرب کا کوئی کند ذہن سے کند ذہن آدمی بھی اس سے دھوکا کھا جاتا۔ اسی طرح آپ پر جنون کا الزام بھی کفار مکہ محض اپنے دل کی تسلی کے لیے لگاتے تھے جیسے موجودہ زمانے کے بعض بے شرم مغربی مصنفین اسلام کے خلاف اپنے بغض کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے یہ دعوے کرتے ہیں کہ معاذ اللہ حضور پر صرع (Epilepsy) کے دورے پڑتے تھے اور انہی دوروں کی حالت میں جو کچھ آپ کی زبان سے نکلتا تھا اسے لوگ وحی سمجھتے تھے ۔ ایسے بیہودہ الزامات کو کسی صاحب عقل آدمی نے نہ اس زمانے میں قابل اعتنا سمجھا تھا، نہ آج کوئی شخص قرآن کو پڑھ کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت و رہنمائی کے حیرت انگیز کارنامے دیکھ کر یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرع کے دوروں کا کرشمہ ہے |
Surah 68 : Ayat 1
نٓۚ وَٱلْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ
ن، قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں1
1 | امام تفسیر مجاہد کہتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر، یعنی قرآن لکھا جا رہا تھا۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ چیز جو لکھی جا رہی تھی اس سے مراد قرآن مجید ہے |
Surah 68 : Ayat 2
مَآ أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ
تم اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں ہو1
1 | یہ ہے وہ بات جس پر قلم ا ور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جو کاتبین وحی کے ہاتھوں سے ثبت ہو رہا ہے، بجائے خود کفار کے اس بہتان کی تردید کے لیے کافی ہے کہ معاذ اللہ رسول اللہ ﷺ مجنون ہیں۔ حضورؐ کے دعوائے نبوت سے پہلے تو اہل مکہ آپ کو اپنی قوم کا بہترین آدمی مانتے تھے اور آپ کی دیانت و امانت اور عقل و فراست پر اعتماد رکھتے تھے۔ مگر جب آپ نے ان کے سامنے قرآن پیش کرنا شروع کیا تو وہ آپ کو دیوانہ قرار دینے لگے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ کہ قرآن ہی ان کے نزدیک وہ سبب تھا جس کی بنا پر انہوں نے آپ پر دیوانگی کی تہمت لگائی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قرآن ہی اس تہمت کی تردید کے لیے کافی ثبوت ہے۔ یہ اعلی درجہ کا فصیح و بلیغ کلام ، جو ایسے بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے، اس کا پیش کرنا تو اس بات کی دلیل ہے کہ محمد ﷺ پر اللہ کا خاص فضل ہوا ہے، کجا کہ اس امر کی دلیل بنایا جائے کہ آپ معاذ اللہ دیوانے ہو گئے ہیں۔ اسی مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں خطاب تو بظاہر نبی ﷺ سے ہے، لیکن اصل مقصود کفار کو ان کی تہمت کا جواب دینا ہے۔ لہذا کسی شخص کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ آیت حضورؐ کو یہ اطمینان دلانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضورؐ کو اپنے متعلق تو ایسا کو شبہ نہ تھا کہ اسے دور کرنے کے لیے آپ کو یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی۔ مدعا کفار سے یہ کہنا ہے کہ تم جس قرآن کی وجہ سے اس کے پیش کرنے والے کو مجنون کہہ رہے ہو وہی تمہارے اس الزام کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے (مزید تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم تفسیر سور ۃ طور، حاشیہ 22) |
Surah 81 : Ayat 22
وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ
اور (اے اہل مکہ) تمہارا رفیق1 مجنون نہیں ہے
1 | رفیق سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں، اور آپ کو اہل مکہ کا رفیق کہہ کر دراصل انہیں اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ آپ ؐ ان کے لیے کوئی ا جنبی شخص نہیں ہیں بلکہ انہی کے ہم قوم اور ہم قبیلہ ہیں۔ انہی کے دریان آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی ہے، اور ان کا شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آپ کس قدر دانا اور ہوشمند انسان ہیں۔ ایسے شخص کو جانتے بوجھتے مجنون کہتے ہوئے انہیں کچھ تو شرم آنی چاہیے (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآ ن، جلد پنجم، النجم، حواشی 2۔3) |