Ayats Found (8)
Surah 3 : Ayat 20
فَإِنْ حَآجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِىَ لِلَّهِ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِۗ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْأُمِّيِّــۧنَ ءَأَسْلَمْتُمْۚ فَإِنْ أَسْلَمُواْ فَقَدِ ٱهْتَدَواْۖ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ ٱلْبَلَـٰغُۗ وَٱللَّهُ بَصِيرُۢ بِٱلْعِبَادِ
اب اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں، توا ن سے کہو: 1"میں نے اور میرے پیروؤں نے تو اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ہے" پھر اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں سے پوچھو: "کیا تم نے بھی اس کی اطاعت و بندگی قبول کی؟" اگر کی تو وہ راہ راست پا گئے، اور اگر اس سے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی آگے اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والا ہے
1 | دُوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھیے کہ”میں اور میرے پیرو تو اس ٹھیٹھ اسلام کے قائل ہو چکے ہیں جو خدا کا اصل دین ہے۔ اب تم بتا ؤ کہ کیا تم اپنے اور اپنے اسلاف کے بڑھائے ہوئے حاشیوں کو چھوڑ کر اس اصلی و حقیقی دین کی طرف آتے ہو |
Surah 5 : Ayat 92
وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَٱحْذَرُواْۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ
اللہ اور اُس کے رسول کی بات مانو اور باز آ جاؤ، لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی
Surah 13 : Ayat 40
وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ ٱلَّذِى نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ ٱلْبَلَـٰغُ وَعَلَيْنَا ٱلْحِسَابُ
اور اے نبیؐ، جس برے انجام کی دھمکی ہم اِن لوگوں کو دے رہے ہیں اُس کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں، بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے1
1 | مطلب یہ ہے کہ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ جن لوگوں نے تمہاری اِس دعوتِ حق کو جھٹلا دیا ہے ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور کب وہ ظہور میں آتا ہے۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے اُسے پوری یکسوئی کے ساتھ کیے چلے جاؤ اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دو۔ یہاں بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر دراصل بات اُن مخالفین کو سنانی مقصود ہے جو چیلنج کے انداز میں بار بار حضور سے کہتے تھے کہ ہماری جس شامت کی دھمکیاں تم ہمیں دیا کرتے ہو آخر وہ آکیوں نہیں جاتی |
Surah 16 : Ayat 82
فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ
اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے محمدؐ، تم پر صاف صاف پیغام حق پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے
Surah 16 : Ayat 83
يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ ٱللَّهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ
یہ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں، پھر اس کا انکار کرتے ہیں 1اور اِن میں بیش تر لوگ ایسے ہیں جو حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں
1 | انکار سے مراد وہی طرزِعمل ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ کفار ِمکہ اس بات کے منکر نہ تھے کہ یہ سارے احسانات اللہ نے اُن پر کیے ہیں، مگران کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ نے یہ احسانات اُن کے بزرگوں اور دیوتاؤں کی مداخلت سے کیے ہیں، اوراسی بنا پر وہ ان احسانات کا شکریہ اللہ کے ساتھ، بلکہ کچھ اللہ سے بڑھ کر اُن متوسط ہستیوں کو ادا کرتے تھے۔ اِسی حرکت کو اللہ تعالٰی انکارِنعمت اور احسان فراموشی اور کفران سے تعبیر کرتا ہے۔ |
Surah 42 : Ayat 48
فَإِنْ أَعْرَضُواْ فَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًاۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا ٱلْبَلَـٰغُۗ وَإِنَّآ إِذَآ أَذَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَاۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةُۢ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ كَفُورٌ
اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبیؐ، ہم نے تم کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے1 تم پر تو صرف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اُس پر پھول جاتا ہے، اور اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اُس پر الٹ پڑتا ہے تو سخت ناشکرا بن جاتا ہے2
2 | انسان سے مراد یہاں وہ چھچورے کم ظرف لوگ ہیں جن کا اوپر سے ذکر چلا آ رہا ہے۔ جنہیں دنیا کا کچھ رزق مل گیا ہے تو اس پر پھولے نہیں سماتے اور سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کشش کی جاتی ہے تو سن کر نہیں دیتے لیکن اگر کسی وقت اپنے ہی کرتوتوں کی بدولت ان کی شامت آ جاتی ہے تو قسمت کو رونا شروع کر دیتے ہیں ، اور ان ساری نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دی ہیں اور کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جس حالت میں وہ مبتلا ہوۓ ہیں اس میں انکا اپنا کیا قصور ہے۔ اس طرح نہ خوشحالی ان کی اصلاح میں مدد گار ہوتی ہے نہ بد حالی ہی انہیں سبق دے کر راہ راست پر لا سکتی ہے۔ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھا جاۓ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ در اصل یہ ان لوگوں کے رویۓ پر طنز ہے جو اوپر کی تقریر کے مخاطب تھے۔ مگر ان کو خطاب کر کے یہ نہیں کہا گیا کہ تمہارا حال یہ ہے ، بلکہ بات یوں کہی گئی کہ انسان میں عام طور پر یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور یہی اس کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس سے حکمت تبلیغ کا یہ نکتہ ہاتھ آتا ہے کہ مخاطب کی کمزوریوں پر براہ راست چوٹ نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ عمومی انداز میں ان کا ذکر کرنا چاہیے ، تاکہ وہ چڑ نہ جاۓ، اور اس کے ضمیر میں اگر کچھ بھی زندگی باقی ہے تو ٹھنڈے دل سے اپنے عیب کو سمجھنے کی کوشش کرے |
1 | یعنی تمہارے اوپر یہ ذمہ داری تو نہیں ڈالی گئی ہے کہ تم انہیں ضرور راہ راست ہی پر لاکے رہو اور نہ اس بات کی تم سے کوئی باز پرس ہونی ہے کہ یہ لوگ کیوں راہ راست پر نہ آۓ |
Surah 64 : Ayat 12
وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ
اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی طاعت کرو لیکن اگر تم اطاعت سے منہ موڑتے ہو تو ہمارے رسول پر صاف صاف حق پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے1
1 | سلسلہ کلام کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اچھے حالات ہوں یا برے حالات، ہر حال میں اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو۔ لیکن اگر مصائب کے ہجوم سے گھبرا کر تم اطاعت سے منہ موڑ گۓ تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری تھی کہ راہ راست تم کو ٹھیک ٹھیک بتا دے، سو اس کا حق رسول نے ادا کر دیا ہے |
Surah 72 : Ayat 23
إِلَّا بَلَـٰغًا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِسَـٰلَـٰتِهِۦۚ وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَإِنَّ لَهُۥ نَارَ جَهَنَّمَ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا
میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں1 اب جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے2"
2 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر گناہ اور معصیت کی سزا ابدی جہنم ہے ، بلکہ جس سلسلہ کلام میں یہ بات فرمائی گئی ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے توحید کی جو دعوت دی گئی ہے اس کو جو شخص نہ مانے اور شرک سے باز نہ آئے اس کے لیے ابدی جہنم کی سزا ہے |
1 | یعنی میرا یہ دعویٰ ہر گز نہیں ہے کہ خدا کی خدائی میں میرا کوئی دخل ہے ، یا لوگوں کی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا کوئی اختیار مجھے حاصل ہے۔ میں تو صرف ایک رسول ہوں اور جو خدمت میرے سپرد کی گئی ہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالی کے پیغامات تمہیں پہنچا دوں۔ باقی رہے خدائی کے اختیارات ، تو وہ سارے کے سارے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ کسی دوسرے کو نفع یا نقصان پہنچانا تو درکنار ، مجھے تو خود اپنے نفع و نقصان کا اختیار بھی حاصل نہیں۔ اللہ کی نافرمانی کروں تو اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں پناہ نہیں لے سکتا، اور اللہ کے دامن کے سوا کوئی ملجا و ماویٰ میرے لیے نہیں ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الشوریٰ ، حاشیہ7) |