Ayats Found (1)
Surah 23 : Ayat 71
وَلَوِ ٱتَّبَعَ ٱلْحَقُّ أَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ ٱلسَّمَـٰوَٲتُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّۚ بَلْ أَتَيْنَـٰهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ
اور حق اگر کہیں اِن کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہو جاتا نہیں1، بلکہ ہم ان کا اپنا ہی ذکر اُن کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منہ موڑ رہے ہیں2
2 | یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی صحیح بیٹھتے ہیں : 1 : ذکر بمعنی بیان فطرت۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کسی دوسرے عالم کی باتیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اپنی ہی حقیقت اور فطرت اور اس کے مقتضیات ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، تاکہ وہ اپنے اس بھولے ہوۓ سبق کو یاد کریں ، مگر وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے ہیں۔ ان کا یہ فرار کسی غیر متعلق چیز سے نہیں بلکہ اپنے ہی ذکر سے ہے۔ 2 : ذکر بمعنیٰ نصیحت۔ اس کی رو سے آیت کی تفسیر یہ ہو گی کہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے یہ ان ہی کے بھلے کے لیے ایک نصیحت ہے ، اور ان کا یہ فرار کسی اور چیز سے نہیں اپنی ہی بھلائی کی بات سے ہے۔ 3 : ذکر بمعنی شرف و اعزاز۔ اس معنی کو اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہم وہ چیز ان کے پاس لائے ہیں جسے یہ قبول کریں تو ان ہی کو عزت اور سرفرازی نصیب ہو گی۔ اس سے ان کی یہ رو گردانی کسی اور چیز سے نہیں ، اپنی ہی ترقی اور اپنے ہی اٹھان کے ایک رزین موقع سے رو گردانی ہے |
1 | اس مختصر سے جملے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ گویا ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو۔ حالانکہ حقیقت بہر حال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا ناپسند۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور کسی امر حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی ، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھلا کریں اور ہر آن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کے زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کو خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیر سایہ رہتے ہوۓ انسان کے لیے اس کے سوا کوئی ظاہر ہی نہیں ہے کہ اپنے خیالات ، خواہشات اور طرز عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے ، اور اس غرض کے لیے ہر وقت دلیل، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرز فکر و عمل اختیار کر سکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے ، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ ہو ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے ، اس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے |