Ayats Found (6)
Surah 18 : Ayat 31
أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ جَنَّـٰتُ عَدْنٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهِمُ ٱلْأَنْهَـٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِــِٔينَ فِيهَا عَلَى ٱلْأَرَآئِكِۚ نِعْمَ ٱلثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا
ان کے لیے سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے1، باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اونچی مسندوں2 پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے بہترین اجر اور اعلیٰ درجے کی جائے قیام!
2 | ارائک جمع ہے اریکہ کی۔ اریکہ عربی زبان میں ایسے تخت کو کہتے ہیں جس پر چتر لگا ہوا ہو۔ اس سے بھی یہی تصور دلانا مقصود ہے کہ وہاں ہر جنتی تخت شاہی پر متمکن ہوگا |
1 | قدیم زمانے میں بادشاہ سونے کے کنگن پہنتے تھے۔ اہل جنت کے لباس میں اس چیز کا ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ وہاں ان کو شاہانہ لباس پہنائے جائیں گے۔ایک کافرو فاسق بادشاہ وہاں ذلیل و خوار ہوگا اور ایک مومن و صالحا مزدوروہاں بادشاہوں کی سی شان و شوکت سے رہے گا۔ |
Surah 22 : Ayat 23
إِنَّ ٱللَّهَ يُدْخِلُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًاۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
(دوسری طرف) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اُن کو اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے1 اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے
1 | اس سے یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ ان کو شاہانہ لباس پہنانے جائیں گے۔ نزول قرآن کے زمانے میں بادشاہ اور بڑے بڑے رئیس سونے اور جواہر کے زیور پہنتے تھے ، اور خود ہمارے زمانے میں بھی ہندوستان کے راجہ اور نواب ایسے زیور پہنتے رہے ہیں |
Surah 35 : Ayat 33
جَنَّـٰتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًاۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے1 وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں ان کا لباس ریشم ہوگا
1 | مفسرین میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس فقرے کا تعلق قریب ترین دونوں فقروں سے ہے، یعنی نیکیوں پر سبقت کرنے والے ہی بڑی فضیلت رکھتے ہیں اور وہی ان جنتوں میں داخل ہوں گے۔ رہے پہلے دو گروہ، تو ان کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے انجام کے معاملہ میں فکر مند ہوں اور اپنی موجودہ حالت سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اس رائے کو علامہ مخشری نے بڑے زور کے ساتھ بیان کیا ہے اور امام رازی نے اس کی تائید کی ہے۔ لیکن مفسرین کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے یہ تینوں گروہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے، خواہ محاسبہ کے بغیر یا محاسبہ کے بعد، خواہ ہر مواخذہ سے محفوظ رہ کر یا کوئی سزا پانے کے بعد۔ اسی تفسیر کی تائید قرآن کا سیاق کرتا ہے، کیونکہ آگے چل کر وارثین کتاب کے بالمقابل دوسرے گروہ متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اس کتاب کو مان لیا ہے ان کے لیے جنت ہے اور جنہوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کیا ہے ان کے لیے جہنم۔ پھر اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوالدارواء نے روایت کیا ہے اور امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طَبَرانی، بہقی اور بعض دوسرے محدثین نے اسے نقل کیا ہے اس میں حضورؐ فرماتے ہیں: فامّا الذین سبقو ا فاولٰئِک الذین ید خلو ن الجنۃ بغیر حساب، وامّا الذین اقتصد وا فاولٰئِک الذین ظلمو اا نفسہم فا ولٰئِک یُحبَسوْن طول المحشر ثم ھم الذین تتلقّا ھم اللہ برحمتہ فھم الذین یقولون الحمد لِلہ الذی اذھب عنا الحزن۔ جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے گئے ہیں وہ جنت میں کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے۔ اور جو بیچ کی راس رہے ہیں ان سے محاسبہ ہوگا مگر ہلکا محاسبہ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو وہ محشر کے پورے طویل عرصہ میں روک رکھے جائیں گے، پھر انہی کو اللہ اپنی رحمت میں لے لیگا اور یہی لوگ ہیں جو کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔ اس حدیث میں حضورؐ نے اس آیت کی پوری تفسیر خود بیان فرمادی ہے اور اہل ایمان کے تینوں طبقوں کا انجام الگ الگ بتا دیا ہے۔ بیچ کی راس والوں سے ’’ہلکا محاسبہ‘‘ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کو تو ان کے کفر کے علاوہ ان کے ہر ہر جرم اور گناہ کی جداگانہ سزا بھی دی جائے گی،مگر اس کے برعکس اہل ایمان میں جو لوگ اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال لے کر پہنچیں گے ان کی نیکیوں اور ان کے گناہوں کا مجموعی محا سبہ ہو گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ ہر نیکی کی الگ جزا اور ہر قصور کی الگ سزا دی جائے۔ اور یہ جو فرمایا کہ اہل ایمان میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہوگا وہ محشر کے پورے عرصے میں روک رکھے جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ ان کو ’’تا برخاستِ عدالت‘‘ کی سزا دی جائے گی، یعنی روز حشر کی پوری طویل مدت (جو نہ معلوم کتنی صدیوں طویل ہوگی) ان پر اپنی ساری سختیوں کے ساتھ گزر جائے گی، یہاں تک کہ آخر کاراللہ ان پر رحم فرمائے گا اور خاتمہ عدالت کے وقت حکم دے گا کہ اچھا، انہیں بھی جنت میں داخل کر دو۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال محدثین نے بہت سے صحابہ، مثلاً حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عائشہ، حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت بَراء ابن عارب سے نقل کیے ہیں، اور ظاہر ہے کہ صحابہ ایسے معاملات میں کوئی بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتے تھے جب تک انہوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کو نہ سنا ہو۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ’’اپنے نفس پر ظلم کیا ہے‘‘ ان کے لیے صرف ’’تا برخاست عدالت‘‘ ہی کی سزا ہے اور ان میں سے کوئی جہنم میں جائے گا ہی نہیں۔ قرآن اور حدیث میں متعدد ایسے جرائم کا ذکر ہے جن کے مرتکب ایمان کو بھی جہنم میں جانے وے نہیں بچا سکتا۔ مثلاً جو مومن کو عمداً قتل کر دے اس کے لیے جہنم کی سزا کا اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرما دیا ہے۔ اسی طرح قانون وراثت کی خداوندی خدود کو توڑنے والوں کے لیے بھی قرآن مجید میں جہنم کی وعید فرمائی گئی ہے۔ سُود کی حرمت کا حکم آ جانے کے بعد پھر سود خواری کرنے والوں کے لیے بھی صاف صاف اعلان فرمایا گیا ہے کہ ہو اصحاب النار ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اور کبائر کے مرتکبین کے لیے بھی احادیث میں تصریح ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔ |
Surah 44 : Ayat 53
يَلْبَسُونَ مِن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَقَـٰبِلِينَ
حریر و دیبا کے لباس پہنے1، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے
1 | اصل میں سُنْدُس اور اِسْتَبْرَق کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں ۔ سُندس عربی زبان میں باریک ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں ۔ اور استبرَق فارسی لفظ ستبر کا معرب ہے، اور یہ وبیز ریشمی کپڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے |
Surah 76 : Ayat 12
وَجَزَٮٰهُم بِمَا صَبَرُواْ جَنَّةً وَحَرِيرًا
اور اُن کے صبر کے بدلے میں1 اُنہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کریگا
1 | یہاں صبر بڑے وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے، بلکہ در حقیقت صالح اہل ایمان کی پوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے۔ ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی ناجائز خواہشوں کو دبانا، اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی پابندی کرنا، اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجا لانا، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت، اپنا مال، اپنی محنتیں، اپنی قوتیں اورقابلتیں، حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کردینا ، ہراس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرا دینا جو ا للہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے ، ہر اس خطرے اور تکلیف کو برداشت کر لینا جوراہ راست پرچلنے میں پیش آئے، ہراس فائدے اور لذت سے دست بردار ہو جانا جو حرام طریقوں سے حاصل ہو، ہر اس نقصان اور رنج اوراذیت کوانگیزکرجانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالی کےاس وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کر ناکہ اس نیک رویے کے ثمرات اس دنیا میں نہیں بلکہ مرنےکے بعد دوسری زندگی میں ملیں گے، ایک ایسا طرز عمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے۔ یہ ہروقت کا صبر ہے، دائمی صبر ہے۔ ہمہ گیرصبر ہے اور عمر بھرکا صبر ہے۔ (مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول، البقرہ حاشیہ 60۔ آل عمرا، حواشی 13، 107، 131۔ الانعام، حاشیہ 23۔ جلد دوم، الانفال، حواشی 37، 47، یونس ، حاشیہ 9۔ ہود، حاشیہ 11۔ الرعد، حاشیہ 39۔ النحل، حاشیہ 98۔ جلد سوم، مریم، حاشیہ 40۔ الفرقان، حاشیہ 94۔ القصص، حواشی 75، 100، العنکبوت، 97۔ جلد چہارم، لقمان، حواشی 29، 56۔ السجدہ، حاشیہ 37۔ الاحزاب، حاشیہ 58۔ الزمر، حاشیہ 32۔ حم السجدہ، حاشیہ 38 ۔ الشوری، حاشیہ 53) |
Surah 76 : Ayat 21
عَـٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌۖ وَحُلُّوٓاْ أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ وَسَقَـٰهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا
اُن کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں1 گے، ان کو چاندی کے کنگن پہنا ئے جائیں گے2، اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا3
3 | پہلے دو شرابوں کا ذکر گزر چکا ہے۔ ایک وہ جس میں آبِِ چشمئہ کافور کی آمیزش ہو گی۔ دوسری وہ جس میں آبِِ چشمئہ زنجیل کی آمیزش ہو گی۔ ان دونوں شرابوں کے بعد اب پھر ایک شراب کا ذکرکرنا اور یہ فرمانا کہ ان کا رب انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ کوئی اور بہترین نوعیت کی شراب ہو گی جو اللہ تعالی کی طرف سے فضلِ خاص کے طور پر انہیں پلائی جائے گی |
2 | سورہ کہف آیت 31 میں فرمایا گیا ہے یحلون فیھا من اساور من ذھب ’’ وہ وہاں سونے کے گنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے‘‘۔ یہی مضمون سورہ حج آیت 23، اور سورہ فاطر آیت 33 میں بھی ارشاد ہوا ہے۔ ان سب آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو تین صورتیں ممکن محسوس ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کبھی وہ چاہیں گے تو سونے کے کنگن پہنیں گےاور کبھی چاہیں گے تو چاندی کے کنگن پہن لیں گے۔ دونوں چیزیں ان کے حسب خواہش موجود ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ سونےاورچاندی کے کنگن وہ بیک وقت پہنیں گے، کیونکہ دونوں کو ملا دینے سے حسن دو بالا ہو جاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جس کا جی چاہیےگا سونےکے کنگن پہنےگا اورجو چاہے گا چاندی کے کنگن استعمال کرے گا۔رہا یہ سوال کہ زیور توعورتیں پہنتی ہیں، مردوں کو زیور پہنانے کا کیا موقع ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں بادشاہوں اوررئیسوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہاتھوں اور گلے اور سر کے تاجوں میں طرح طرح کے زیورات استعمال کرتے تھے، بلکہ ہمارے زمانے میں برطانوی ہند کے راجاؤں اور نوابوں تک میں یہ دستور رائج رہا ہے۔ سورہ زخرف میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسی جب اپنے سادہ لباس میں بس ایک لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچے اوراس سے کہا کہ میں اللہ رب ا لعالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ اچھا سفیر ہے جو اس حالت میں میرے سامنے آیا ہے، فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب اوجاء معہ الملئکۃ مقترنین۔ (آیت 53)۔ یعنی اگر یہ زمین و آسمان کے بادشا ہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوتا تو کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا ملائکہ کا کوئی لشکر اس کی اردلی میں آتا |
1 | یہی مضمون سورہ کہف آیت 31 میں گزر چکا ہے کہ ویلبسون ثیابا خضرا من سندس و استبرق متکئین فیھا علی الارائک۔ ’’وہ (اہل جنت) باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے‘‘۔اس بنا پر ان مفسرین ک ی رائے صحیح نہیں معلوم ہوتی جنہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے مراد وہ کپڑے ہیں جو ان کی مسندوں یا مسہریوں کے اوپر لٹکے ہوئے ہوں گے، یا یہ ان لڑکوں کا لباس ہو گا جو ان ک یخدمت میں دوڑے پھر رہے ہوں گے |