Ayats Found (28)
Surah 2 : Ayat 119
إِنَّآ أَرْسَلْنَـٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًاۖ وَلَا تُسْــَٔلُ عَنْ أَصْحَـٰبِ ٱلْجَحِيمِ
(اس سے بڑھ کر نشانی کیا ہوگی کہ) ہم نے تم کو علم حق کے ساتھ خوش خبری دینے والا ور ڈرانے والا بنا کر بھیجا1 اب جو لوگ جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں، ان کی طرف سے تم ذمہ دار و جواب دہ نہیں ہو
1 | یعنی دُوسری نشانیوں کا کیا ذکر، نمایاں ترین نشانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی شخصیّت ہے۔ آپ ؐ کے نبوّت سے پہلے کے حالات، اور اُس قوم اور ملک کے حالات جس میں آپ ؐ پیدا ہوئے، اور وہ حالات جن میں آپ نے پرورش پائی اور ۴۰ برس زندگی بسر کی، اور پھر وہ عظیم الشان کارنامہ جو نبی ؐ ہونے کے بعد آپ نے انجام دیا ، یہ سب کچھ ایک ایسی روشن نشانی ہے جس کے بعد کسی اور نشانی کی حاجت نہیں رہتی |
Surah 5 : Ayat 19
يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ ٱلرُّسُلِ أَن تَقُولُواْ مَا جَآءَنَا مِنۢ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍۖ فَقَدْ جَآءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اے اہل کتاب! ہمارا یہ رسول ایسے وقت تمہارے پاس آیا ہے اور دین کی واضح تعلیم تمہیں دے رہا ہے جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا سو دیکھو! اب وہ بشارت دینے اور ڈرانے والا آ گیا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے1
1 | اِس موقع پر یہ فقرہ نہایت بلیغ و لطیف ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو خدا پہلے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بھیجنے پر قادر تھا اسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خد مت پر مامور کیا ہے اور وہ ایسا کرنے پر قادرتھا۔ دُوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے اس بشیر و نذیر کی بات نہ مانی تو یاد رکھو کہ اللہ قادر و توانا ہے۔ ہرسزا جو وہ تمہیں دینا چاہے بلا مزاحمت دے سکتا ہے |
Surah 7 : Ayat 188
قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُۚ إِنْ أَنَا۟ إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اے محمدؐ، ان سے کہو 1"میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہو تا ہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں"
1 | مطلب یہ ہے کہ قیامت کی ٹھیک تاریخ وہی بتا سکتا ہے جسے غیب کا علم ہو، اور میرا حال یہ ہے کہ میں کل کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ یا میرے بال بچوں کے ساتھ کیا کچھ پیش آنے والا ہے۔ تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اگر یہ علم مجھے حاصل ہوتا تو میں کتنے نقصانات سے قبل از وقت آگاہ ہو کر بچ جاتا اور کتنے فائدے محض پیشگی علم کی بدولت اپنی ذات کے لیے سمیٹ لیتا پھر یہ تمہاری کتنی بڑی نادانی ہے کہ تم مجھ سے پو چھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی |
Surah 11 : Ayat 2
أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّا ٱللَّهَۚ إِنَّنِى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ
کہ تم بندگی نہ کرو مگر صرف اللہ کی میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی
Surah 17 : Ayat 105
وَبِٱلْحَقِّ أَنزَلْنَـٰهُ وَبِٱلْحَقِّ نَزَلَۗ وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے، اور اے محمدؐ، تمہیں ہم نے اِس کے سوا اور کسی کام کے لیے نہیں بھیجا کہ (جو مان لے اسے) بشارت دے دو اور (جو نہ مانے اُسے) متنبہ کر دو1
1 | یعنی تمہارے ذمے یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جولوگ قرآن کی تعلیمات کو جانچ کر حق اور باطل کا فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اُن کو تم چشمے نکال کر اور باغ اُگا کر اور آسمان پھاڑ کر کسی نہ کسی طرح مومن بنانے کی کوشش کرو، بلکہ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے حق بات پیش کردو اور پھر انہیں صاف صاف بتادو کہ جو اسے مانے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو نہ مانے گا وہ بُرا انجام دیکھے گا۔ |
Surah 25 : Ayat 56
وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اے محمدؐ، تم کو تو ہم نے بس ایک مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے1
1 | یعنی تمہارا کام نہ کسی ایمان لانے والے کو جزا دینا ہے ، نہ کسی انکار کرنے والے کو سزا دینا ۔ تم کسی کو ایمان کی طرف کھینچ لانے اور انکار سے زبردستی روک دینے پر مامور نہیں کیے گۓ ہو۔ تمہاری ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ جو راہ راست قبول کرے اسے انجام نیک کی بشارت دے دو، اور جو اپنی بد راہی پر جما رہے اس کو اللہ کی پکڑ سے ڈرا دو۔ اس طرح کے ارشادات قرآن مجید میں جہاں بھی آئے ہیں ان کا اصل روئے سخن کفار کی طرف ہے ، اور مقصد در اصل ان کی یہ بتانا ہے کہ نبی ایک بےغرض مصلح ہے جو خلق خدا کی بھلائی کے لیے خدا کا پیغام پہنچاتا ہے اور انہیں ان کے انجام کا نیک و بد بتا دیتا ہے ۔ وہ تمہیں زبر دستی تو اس پیغام کے قبول کرنے پر مجور نہیں کرتا کہ تم خواہ مخواہ اس پر بگڑنے اور لڑنے پر تل جاتے ہو۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ، اس کچھ نہ دے دو گے ۔ نہ مانو گے تو اپنا نقصان کرو گے ، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے ۔ وہ پیغام پہنچا کر سبکدوش ہو چکا ، اب تمہارا معاملہ ہم سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بسا اوقات لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں بھی نبی کا کام بس خدا کا پیغام پہنچا دینے اور انجام نیک کا مژدہ سنا دینے تک محدود ہے ۔ حالانکہ قرآن جگہ جگہ اور بار بار تصریح کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے نبی صرف مبشر ہی نہیں ہے بلکہ معلم اور مزکّی اور نمونہ عمل بھی ہے ، حاکم اور قاضی اور امیر مطاع بھی ہے ، اور اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر فرمان ان کے حق میں قانون کا حکم رکھتا ہے جس کے آگے ان کو دل کی پوری رضا مندی سے سر تسلیم خم کرنا چاہیے ۔ لہٰذا سخت غلطی کرتا ہے وہ شخص جو : مَاعَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغ ۔ اور۔ مَٓا اَرْسَلْنٰکَ اَلَّا مُبَشِّراً وَّ نَذِیْراً ، اور اسی مضمون کی دوسری آیات کو نبی اور اہل ایمان کے باہمی تعلق پر چسپاں کرتا ہے |
Surah 33 : Ayat 45
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِنَّآ أَرْسَلْنَـٰكَ شَـٰهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اے نبیؐ1، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر2، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر3
3 | یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عملِ صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر بُرے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالٰی کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات۔جو شخص اللہ تعالٰی کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے اِنذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بناپر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحقِ اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے، لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا۔ اور اس کا کسی کام کے بُرے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ |
2 | نبی کو’’گواہ‘‘ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں ایک قولی شہادت، یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اُصولوں پر مبنی ہے، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید، ملائکہ کا سجود، وحی کا نزول، حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دُنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دُنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اُڑائے یا اسے دیوانہ کہے، مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اُٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں،انہیں اگر ساری دُنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور اُن تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دُنیا میں رائج ہوں۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حرام سمجھتی ہو، اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو۔ دوسرے عملی شہادت، یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اُس مسلک کا عملاً مظاہرہ کرے جسے دُنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اُٹھا ہے۔ جس چیز کو وہ بُرائی کہتا ہے اُس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے، اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابر ی نہ کر سکے۔ جس قانونِ حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کر لے کہ جس دین کی طرف وہ دُنیا کو بُلا رہا ہے وہ کِس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے، کیا کِردار اُس میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اور کیا نظامِ زندگی اُس سے برپا کرانا چاہتا ہے۔ تیسرے اُخروی شہادت، یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کر دینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اِسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے، اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعا لٰی نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جواس مقامِ بلند پر کھڑی ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دینِ حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے، تبھی تو آخرت میں آپؐ یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کر دیا تھا، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گی۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں اُن پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرینِ کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنا نے کی کو شش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخرت میں لوگوں کے اعمال پر شہادت دیں گے، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضورؐ تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں، ورنہ بے دیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے اعمال پر قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالٰی نے ایک دوسرا ہی انتظام فرما یا ہے۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں (ملاحظہ ہو ق ٓ، آیات ۱۷۔۱۸اور الکہف۔ آیت ۱۴۹)اور اس کے لیے وہ لوگوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا (یٰسٓ۶۵۔حم السجدہ ۲۰۔۲۱) رہے انبیاء علیم السلام، تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا۔ قرآن صاف فرماتا ہے : ’’یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْالَاعِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔(المائدہ۔۱۰۹)جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا، کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہو گا تو وہ عرض کریں گے : وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداًمَّادُمْتُ فَیْھِمْ فَلَمَّا تَوَ فَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ (المائدہ۔۱۱۷) میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے۔ یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام اعمالِ خلق کے گواہ نہیں ہوں گے۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہ دیتا ہے : وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰٰکُمْ اُمَّتہً وَّ سَطاً لِّتَکُوْنُوْا شھَُدَآئَ عَلیَ النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔۱۴۳) اور اَے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امّت وَسَط بنا یا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔ وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآئِ۔ (النحل۔ ۸۹) اور جس روز ہم ہر اُمّت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُن پر گواہی دے گا اور (اے محمدؐ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت اپنی نوعیت میں اُس شہادت سے مختلف نہ ہو گی جسے ادا کرنے کے لیے حضورؐ کی اُمّت کو اور ہر اُمّت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناضر ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضورؐ بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے۔ اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم۔ ترمذی، ابن ماجہ امام احمد وغیرہ ہم نے عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، ابو اللہ وا ء، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں، مگر وہ آپؐ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رُخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ حضورؐ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ اس پر اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اُمّت کے ایک ایک شخص اور اُس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضورؐ کے سامنے آپؐ کی اُمّت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، تو وہ کسی طرح بھی اِس مضمون سے متعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالٰی حضورؐ کو اُمت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضورؐ ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ |
1 | مسلمانوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب اللہ تعالٰی اپنے نبی کو خطاب کر کے چند کلمات تسکین ارشاد فرماتا ہے۔ مقصود کلام یہ ہے کہ آپ کو ہم نے یہ کچھ مراتب عالیہ بخشے ہیں، آپ کی شخصیت اس سے بہت بلند ہے کہ یہ مخالفین اپنے بہتان و افترا کے طوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ سکیں۔ لہٰذا آپ نہ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ ہوں اور نہ ان کے پروپیگینڈے کو پرکاہ کے برابر بھی کوئی وقعت دیں۔ اپنے فرائض منصبی ادا کیے جائیے اور انہیں جو کچھ ان کا جی چاہے بکنے دیجیے۔ ان کے ساتھ ضمناً تمام خلق کو، جس میں مومن و کافر سب شامل ہیں، یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا سابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی شخصیت سے ہے جس کا اللہ تعالٰی نے بلند ترین مقام پر سرفراز فرمایا ہے۔ |
Surah 34 : Ayat 28
وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور (اے نبیؐ،) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں1
1 | یعنی تم صرف اسی شہر، یا اسی ملک، یا اسی زمانے کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہو۔ مگر یہ تمہارے ہم عصر اہل وطن تمہاری قدر و منزلت کو نہیں سمجھتے اور ان کو احساس نہیں ہے کہ کیسی عظیم ہستی کی بعثت سے ان کو نوازا گیا ہے۔ یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اپنے ملک یا اپنے زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک پوری نوع بشری کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں،قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ مثلاً: وَاُحِیَ اِلَیَّ ھٰذَاالقرآنُ لِاُنْذِرَ کُم بِہ وَمَنْ بَلَغَ (الانعام 197) اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو متنبہ کروں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے۔ قُلْ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً (الاعراف۔ 158) اے نبی کہہ دو اے انسانوں، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃلِّلعٰلَمِیْنَ(الانبیاء۔107) اور اے نبی، ہم نے نہیں بھیجا تم کو مگر تمام ایمان والوں کے لیے رحمت کے طور پر۔ تَبٰرَ کَ الَّذِیْ نَذَّلَالْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہ لِیَکُنَ لِلْعَا لَمِیْنَ نَذِیْراً۔(الفرقان۔1) بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لیے متنبہ کرنے والا ہو۔ یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی بہت سے احادیث میں مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے۔ مثلاً: بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْمَرِوَلْاَسْوَدِ (مسند احمد، مرویات ابو موسیٰ اشعریؓ) میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ امّا انا فا رسلتُ الی الناس کلھم عامۃ وکان من قبلی انما یُرْسَلُ الیٰ قومہ(مسند احمد، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص) میں عمومیت کے ساتھ تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ حالانکہ مجھ سے پہلے جو نبی بھی گزرا ہے وہ اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا۔ وکان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ(بخاری و مسلم، من حدیث جابر بن عبداللہ) پہلے ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ بعثت انا والساعۃ کھتین یعنی اصبعین۔(بخاری و مسلم) میری بعثت اور قیامت اس طرح ہیں، یہ فرماتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دو انگلیاں اٹھائیں۔ مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی تیسری انگلی حائل نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان بھی کوئی نبوت نہیں ہے۔ میرے بعد بس قیامت ہی ہے اور قیامت تک میں ہی نبی رہنے والا ہوں۔ |
Surah 35 : Ayat 24
إِنَّآ أَرْسَلْنَـٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًاۚ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ
ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو1
1 | یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے کہ دنیا میں کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالٰی نے نبی مبعوث نہ فرمائے ہوں۔ سورہ رعد میں فرمایا وَلِکُلِّ قَوْم ھَاد (آیت7)۔ سورہ حجر میں فرمایا وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ اَبْلِکَ فَیْ شِیَعِ الْاَ وَّ لِیْنَ (آیت 10)۔سورہ نحل میں فرمایا وَلَقَدْ بَعَثْنَا فَیْ کُلِّ اُمَّۃ رَّ سُوْلاً (آیت 36)۔ سورہ شعراء میں فرمایا وَمَا اَھْلکْنَا مِنْ قَرْیَۃ اِلَّا لَھَا مُنْذِرُوْنَ (آیت 208)۔ مگر اس سلسلے میں دو باتیں سمجھ لینی چاہییں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اول یہ کہ ایک نبی کی تبلیغ جہاں جہاں تک پہنچ سکتی ہو وہاں کے لیے وہی نبی کافی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر بستی اور ہر ہر قوم میں الگ الگ ہی انبیاء بھیجے جائیں۔ دوم یہ کہ ایک نبی کی دعوت و ہدایت کے آثار اور اس کی رہنمائی کے نقوش قدم جب تک محفوظ نہیں اس وقت تک کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لازم نہیں کہ ہر نسل اور ہر پشت کے لیے الگ نبی بھیجا جائے۔ |
Surah 33 : Ayat 45
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِنَّآ أَرْسَلْنَـٰكَ شَـٰهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اے نبیؐ1، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر2، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر3
3 | یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عملِ صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر بُرے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالٰی کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات۔جو شخص اللہ تعالٰی کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے اِنذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بناپر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحقِ اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے، لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا۔ اور اس کا کسی کام کے بُرے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ |
2 | نبی کو’’گواہ‘‘ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں ایک قولی شہادت، یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اُصولوں پر مبنی ہے، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید، ملائکہ کا سجود، وحی کا نزول، حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دُنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دُنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اُڑائے یا اسے دیوانہ کہے، مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اُٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں،انہیں اگر ساری دُنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور اُن تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دُنیا میں رائج ہوں۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حرام سمجھتی ہو، اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو۔ دوسرے عملی شہادت، یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اُس مسلک کا عملاً مظاہرہ کرے جسے دُنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اُٹھا ہے۔ جس چیز کو وہ بُرائی کہتا ہے اُس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے، اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابر ی نہ کر سکے۔ جس قانونِ حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کر لے کہ جس دین کی طرف وہ دُنیا کو بُلا رہا ہے وہ کِس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے، کیا کِردار اُس میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اور کیا نظامِ زندگی اُس سے برپا کرانا چاہتا ہے۔ تیسرے اُخروی شہادت، یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کر دینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اِسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے، اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعا لٰی نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جواس مقامِ بلند پر کھڑی ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دینِ حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے، تبھی تو آخرت میں آپؐ یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کر دیا تھا، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گی۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں اُن پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرینِ کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنا نے کی کو شش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخرت میں لوگوں کے اعمال پر شہادت دیں گے، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضورؐ تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں، ورنہ بے دیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے اعمال پر قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالٰی نے ایک دوسرا ہی انتظام فرما یا ہے۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں (ملاحظہ ہو ق ٓ، آیات ۱۷۔۱۸اور الکہف۔ آیت ۱۴۹)اور اس کے لیے وہ لوگوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا (یٰسٓ۶۵۔حم السجدہ ۲۰۔۲۱) رہے انبیاء علیم السلام، تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا۔ قرآن صاف فرماتا ہے : ’’یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْالَاعِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔(المائدہ۔۱۰۹)جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا، کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہو گا تو وہ عرض کریں گے : وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداًمَّادُمْتُ فَیْھِمْ فَلَمَّا تَوَ فَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ (المائدہ۔۱۱۷) میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے۔ یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام اعمالِ خلق کے گواہ نہیں ہوں گے۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہ دیتا ہے : وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰٰکُمْ اُمَّتہً وَّ سَطاً لِّتَکُوْنُوْا شھَُدَآئَ عَلیَ النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔۱۴۳) اور اَے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امّت وَسَط بنا یا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔ وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآئِ۔ (النحل۔ ۸۹) اور جس روز ہم ہر اُمّت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُن پر گواہی دے گا اور (اے محمدؐ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت اپنی نوعیت میں اُس شہادت سے مختلف نہ ہو گی جسے ادا کرنے کے لیے حضورؐ کی اُمّت کو اور ہر اُمّت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناضر ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضورؐ بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے۔ اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم۔ ترمذی، ابن ماجہ امام احمد وغیرہ ہم نے عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، ابو اللہ وا ء، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں، مگر وہ آپؐ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رُخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ حضورؐ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ اس پر اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اُمّت کے ایک ایک شخص اور اُس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضورؐ کے سامنے آپؐ کی اُمّت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، تو وہ کسی طرح بھی اِس مضمون سے متعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالٰی حضورؐ کو اُمت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضورؐ ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ |
1 | مسلمانوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب اللہ تعالٰی اپنے نبی کو خطاب کر کے چند کلمات تسکین ارشاد فرماتا ہے۔ مقصود کلام یہ ہے کہ آپ کو ہم نے یہ کچھ مراتب عالیہ بخشے ہیں، آپ کی شخصیت اس سے بہت بلند ہے کہ یہ مخالفین اپنے بہتان و افترا کے طوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ سکیں۔ لہٰذا آپ نہ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ ہوں اور نہ ان کے پروپیگینڈے کو پرکاہ کے برابر بھی کوئی وقعت دیں۔ اپنے فرائض منصبی ادا کیے جائیے اور انہیں جو کچھ ان کا جی چاہے بکنے دیجیے۔ ان کے ساتھ ضمناً تمام خلق کو، جس میں مومن و کافر سب شامل ہیں، یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا سابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی شخصیت سے ہے جس کا اللہ تعالٰی نے بلند ترین مقام پر سرفراز فرمایا ہے۔ |