Ayats Found (9)
Surah 37 : Ayat 45
يُطَافُ عَلَيْهِم بِكَأْسٍ مِّن مَّعِينِۭ
شراب1 کے چشموں2 سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے3
3 | یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ شراب کے یہ ساغر لے کر جنّتیوں کے درمیان گردش کون کرے گا۔ اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر ارشاد ہوئی ہے : وَ یَطُوْ فُ عَلَیْھِمْ غِلْمَانٌ لَّھُمْ کَاَنَّھُمْ لُو ءْ لُوءٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ان کے خادم لڑکے،ایسے خوبصورت جیسے صدف میں چھُپے ہوئے موتی‘‘ (الطور، آیت 24)۔ وَیَطُوْ فُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَارَ أَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُوْء لُؤًا مَّنْشُوْراً۔ ’’اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہنے والے ہیں۔تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی بکھیر دیے گئے ہیں‘‘ (الدہر، آیت 19)۔ پھر اس کی مزید تفصیل حضرت اَنَس اور حضرت سَمُرَہ بن جُندُب کی ان روایات میں ملتی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ ولیہ و سلم سے نقل کی ہیں۔ان میں بتایا گیا ہے کہ ’’مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے‘‘(ابو داؤد طَیالِسی، طبرانی، بزَّار) ۔ یہ روایات اگرچہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن متعدد دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے سنّ رشد کو نہیں پہنچے ہیں وہ جنت میں جائیں گے۔پھر یہ بھی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن بچوں کے والدین جنتی ہو ں گے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہیں گے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔اس کے بعد لامحالہ وہ بچے رہ جاتے ہیں جن کے ماں باپ جنّتی نہ ہوں گے ۔ سو ان کے متعلق یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ وہ اہل جنت کے خادم بنا دیے جائیں ۔ (اس کے متعلق تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری اور عمدۃالقاری، کتاب الجنائز، باب ماقیل فی اولاد المشرکین رسائل و مسائل، جلد سوم، ص 177 تا 187)۔ |
2 | یعنی وہ شراب اس قوم کی نہ ہو گی جو دنیا میں پھلوں اور غلّوں کو سڑا کر کشید کی جاتی ہے۔بلکہ وہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور نہروں کی شکل میں بہے گی۔سورہ محمدؐ میں اسی مضمون کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : وَاَنْھٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّشَّارِبِیْنَ۔ ’’اور شراب کی نہریں جو پینے والوں کے لیے لذت ہوں گی۔‘‘ |
1 | اصل میں یہاں شراب کی تصریح نہیں ہے بلکہ صرف کاًس(ساغر)کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔لیکن عربی زبان کی کاًس کا لفظ بول کر ہمیشہ شراب ہی مراد لی جاتی ہے۔جس پیالے میں شراب کے بجائے دودھ یا پانی ہو،یا جس پیالے میں کچھ نہ ہو اسے کاًس نہیں کہتے کاًس کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب اس میں شراب ہو۔ |
Surah 12 : Ayat 72
قَالُواْ نَفْقِدُ صُوَاعَ ٱلْمَلِكِ وَلِمَن جَآءَ بِهِۦ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا۟ بِهِۦ زَعِيمٌ
سرکاری ملازموں نے کہا "بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا" (اور ان کے جمعدار نے کہا) "جو شخص لا کر دے گا اُس کے لیے ایک بارشتر انعام ہے، اس کا میں ذمہ لیتا ہوں"
Surah 52 : Ayat 23
يَتَنَـٰزَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ
وہاں وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ یاوہ گوئی ہوگی نہ بد کرداری1
1 | یعنی وہ شراب نشہ پیدا کرنے والی نہ ہوگی کہ اسے پی کر وہ بد مست ہوں اور بیہودہ بکواس کرنے لگیں ، یا گالم گلوچ اور دَھول دھپے پر اُتر آئیں ، یا اس طرح کی فحش حرکات کرنے لگیں جیسی دنیا کی شراب پینے والے کرتے ہیں ۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 27)۔ |
Surah 56 : Ayat 17
يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَٲنٌ مُّخَلَّدُونَ
اُن کی مجلسوں میں ابدی لڑکے1 شراب چشمہ جاری سے
1 | اِس سے مراد ہیں ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، انکی عمر ہمیشہ ایک ہی حالت پر ٹھہری رہے گی۔ حضرت علیؓ اور حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ یہ اہل دنیا کے وہ بچے ہیں جو بالغ ہونے سے پہلے مر گۓ، اس لیے نہ ان کی کچھ نیکیاں ہونگی کہ ان کی جزا پائیں اور نہ بدیاں ہونگی کہ ان کی سزا پائیں۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد صرف وہی اہل دنیا ہو سکتے ہیں جن کو جنت نصیب نہ ہوئی ہو۔ رہے مومنین صالحین، تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں یہ ضمانت دی ہے کہ ان کی ذریت ان کے ساتھ جنت میں لا ملائی جاۓ گی (الطور،آیت 21)۔ اسی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابو داؤد طیالسی، طبرانی اور بزار نے حضرت انسؓ اور حضرت سمرہ بنؓ جندب سے نقل کی ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہونے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 26۔ جلد پنجم، الطور، حاشیہ 19) |
Surah 56 : Ayat 19
لَّا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنزِفُونَ
جسے پی کر نہ اُن کا سر چکرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 27۔ جلد پنجم،، سورہ محمد، حاشیہ 22۔ الطور، حاشیہ 18 |
Surah 76 : Ayat 5
إِنَّ ٱلْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا
نیک لوگ1 (جنت میں) شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی
1 | اصل میں لفظ ابرار استعمال ہوا ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی اطاعت کا حق ادا کیا ہو، اس کے عائد کیے ہوئے فرائض بجا لائے ہوں، اور اس کے منع کیے ہوئےافعال سےاجتناب کیا ہو |
Surah 76 : Ayat 17
وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلاً
ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی
Surah 78 : Ayat 31
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا
یقیناً متقیوں1 کے لیے کامرانی کا ایک مقام ہے
1 | یہاں متقیوں کا لفظ ان لوگوں کے مقابلے میں استعمال کیا گیا ہے جو کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا۔ اس لیے لامحالہ اس لفظ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی آیات کو مانا اور دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ انہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے |
Surah 78 : Ayat 34
وَكَأْسًا دِهَاقًا
اور چھلکتے ہوئے جام