Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 252
تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِٱلْحَقِّۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ
یہ اللہ کی آیات ہیں، جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنا رہے ہیں اور تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو، جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں
Surah 3 : Ayat 144
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُۚ أَفَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَـٰبِكُمْۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْــًٔاۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّـٰكِرِينَ
محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا
Surah 4 : Ayat 79
مَّآ أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ ٱللَّهِۖ وَمَآ أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَۚ وَأَرْسَلْنَـٰكَ لِلنَّاسِ رَسُولاًۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدًا
اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے اے محمدؐ! ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اوراس پر خدا کی گواہی کافی ہے
Surah 7 : Ayat 158
قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُۖ فَـَٔـامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِ ٱلنَّبِىِّ ٱلْأُمِّىِّ ٱلَّذِى يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَكَلِمَـٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اے محمدؐ، کہو کہ 1"اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے"
1 | اصل سلسلہ کلام بنی اسرائیل سے متعلق چل رہا تھا ۔ بیچ میں موقع کی مناسبت سے رسالت محمدی پر ایمان لانے کی دعوت بطور جملہ معترضہ آگئی۔ اب پھر تقریر کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو پچھلے کئی رکوعوں سے بیان ہورہا ہے |
Surah 33 : Ayat 40
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّــۧنَۗ وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمًا
(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے1
1 | اس ایک فقرے میں اُن تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اِس نکاح پر کر رہے تھے۔ اُن کا اوّلین اعتراض یہ تھا کہ آپؐ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپؐ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ ’’محمّدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں‘‘، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا، اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا’’مگر وہ اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصّبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔ پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا’’اور وہ خاتم النبیین ہیں‘‘، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح اُن کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے، لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسمِ جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں۔ اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘ یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں اِس رسمِ جاہلیّت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی۔ وہ جانتا ہے کہ اب اُس کی طرف سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اُس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دُنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دُنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اُس کی سُنت ہونا ہی لوگوں کے دِلوں سے کراہیت کے ہر تصوّر کا قلع قمع کر دے۔ افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں ایک گروہ نے اس آیت کی غلط تاویلات کر کے ایک بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس لیے ختمِ نبوت کے مسئلے کی پوری توضیح اور اس گروہ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کی تردید کے لیے ہم نے اِس سورہ کی تفسیر کے آخر میں ایک مفصل ضمیمہ شامل کر دیا ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 3
إِنَّكَ لَمِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ
کہ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو1
1 | اس طرح کلام کا آغاز کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی نبوت میں کوئی شک تھا اور آپ کو یقین دلانے کے لیے اللہ تعالٰی کو یہ بات فرمانے کی ضرورت پیش آئی۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کفار قریش پوری شدت کے ساتھ حضورؐ کی نبوت کا انکار کر رہے تھے،اس لیے اللہ تعالٰی نے کسی تمہید کے بغیر تقریر کا آغاز ہی اس فقرے سے فرمایا کہ’’تم یقیناً رسولوں میں سے ہو‘‘ یعنی وہ لوگ سخت غلط کار ہیں جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں۔پھر اس بات پر قرآن کی قسم کھائی گئی ہے،اور قرآن کی صفت میں لفظ’’حکیم‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ قرآن ہے جو سراسر حکمت سے لبریز ہے۔ یہ چیز خود شہادت دے رہی ہے کہ جو شخص ایسا حکیمانہ کلام پیش کر رہا ہے وہ یقیناً خدا کا رسول ہے۔کوئی انسان ایسا کلام تصنیف کر لینے پر قادِر نہیں ہے۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جو جانتے ہیں وہ ہرگز اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتے کہ یہ کلام آپ خود گھڑ گھڑ کر لا رہے ہیں، یا کسی دوسرے انسان سے سیکھ سیکھ کر سنا رہے ہیں۔ (اس مضمون کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحات 272 تا 274۔ 285 تا 286۔ 641 تا 643 جلد سوم، صفحات 317 تا 318۔ 476۔ 602۔ 639 تا 642۔ 665 تا 670۔ 711 تا 713۔ 724 تا 728۔ 730 تا 732)۔ |
Surah 48 : Ayat 29
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ ٱللَّهِۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْۖ تَرَٮٰهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٲنًاۖ سِيمَاهُمْ فِى وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ ٱلسُّجُودِۚ ذَٲلِكَ مَثَلُهُمْ فِى ٱلتَّوْرَٮٰةِۚ وَمَثَلُهُمْ فِى ٱلْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْــَٔهُۥ فَـَٔـازَرَهُۥ فَٱسْتَغْلَظَ فَٱسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِۦ يُعْجِبُ ٱلزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ ٱلْكُفَّارَۗ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمَۢا
محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت 1اور آپس میں رحیم ہیں2 تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں3 یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں4 اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی 5ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں اِس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا6 ہے
6 | ایک گروہ اس آیت میں مِنْھُمْ کی مِنْ کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ’’ان میںسےجو لوگ ایمان لاۓ اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ نے ان سےمغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ اس طرح یہ لوگ صحابہ پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ میں سے بہت سے لوگ مومن و صالح نہ تھے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی سورۃ کی آیات 4۔5۔18 اور 26 کے خلاف پڑتی ہے، اور خود اس آیت کے ابتدائی فقروں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ آیات 4۔5۔ میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام صحابہ کے دلوں میں سکنیت نازل کیے جانے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے جو حدیبیہ میں حضور کے ساتھ تھے، اور بالا استثناء ان سب کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے ۔ آیت 18 میں اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کے حق میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے حضور سے بیعت کی تھی، اور اس میں بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ آیت 26 میں بھی حضورؐ کے تمام ساتھیوں کے لیے مومنین کا لفظ استعمال کیا ہے، ان کے اوپر اپنی سکینت نازل کرنے کی خبر دی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ کلمہ تقویٰ کی پابندی کے زیادہ حق دار اور اسکے اہل ہیں۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے جو مومن ہیں صرف ان ہی کے حق میں یہ خبر دی جا رہی ہے۔ پھر خود اس آیت کے بھی ابتدائی فقروں میں جو تعریف بیان کی گی ہے وہ ان سب لوگوں کے لیے ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے۔ الفاظ یہ ہیں کہ جو لوگ بھی آپ کے ساتھمیں وہ ایسے اور ایسے ہیں۔ اس کے بعد یکایک آخری فقرے پر پہنچ کر یہ ارشاد فرمانے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ان میں سےکچھ لوگ مومن و صالح تھے اور کچھ نہ تھے۔ اس لیے یہاں منْ کو تبعیض کے معنی میں لینا نظم کلام کے خلاف ہے۔ در حقیقت یہاں مِنْ بیان کےلیےہےجس طرح آیت فَاجْتَنِبُو ا الرِّجْسَ مِنَ الْاوثَانِ (بتوں کی گندگی سےبچو) میں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ لازماً بیان ہی کے لیے ہے، ورنہ آیت کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ ’’ بتوں میں سےجا نا پاک ہیں ان سے پرہیز کرو، اور اس سےنتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی قرار پائیں گے جن کی پرستش سےپرہیز لازم نہ ہو گا |
5 | یہ تمثیل حضرت عیسیٰ علیہالسلام کے ایک وعظ میں بیان ہوئی ہے جسےبائیبل کے عہد نامہ جدید میں اس طرح نقل کیا گیا ہے۔ ’’اور اس نے کہا خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسےکوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوۓ اور ن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے۔ زمین آپ سےآپ پھل لاتی ہے۔ پتی،پھر بالیں ، پھر بالوں میں تیار دانے، پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رائی کے دانے کے مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہےتو زمین کےسب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر جب بو دیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندےاس کے ساۓ میں بسیر کرسکتےہیں۔‘‘ (مرقس،بابا4، آیات 26 تا 32۔ اس وعظ کا آخری حصہ انجیل متی ، باب13، آیات 31۔32 میں بھی ہے) |
4 | غالباً یہ اشارہ کتاب استثناء، باب 33 ، آیات 2۔3 کی ظرف ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد مبارک کا ذکر کرتے ہوۓ آپ کے صحابہ کے لیے’’ قدسیوں‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے سوا اگر صحابہ کرام کی کوئی صفت توراۃ میں بیان ہوئی تھی تو وہ اب موجود محرف توراۃ میں نہیں ملتی |
3 | اس سے مراد پیشانی کا وہ گٹہ نہیں ہے جو سجدے کرنے کی وجہ سے بعض نمازیوں کے چہرے پر پڑ جاتا ہے۔ بلکہ اس سےمراد خدا ترسی ، کریم النفسی، شرافت اور حسن اخلاق کے وہ آثار ہیں جو خدا کے آگے جھکنے کی وجہ سے فطرۃً آدمی کے چہرے پر نمایا ں ہو جاتے ہیں۔ انسان کا چہرہ ایک کھلی کتاب ہوتا ہے جس کے صفحات پر آدمی کے نفس کی کیفیات بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک متکبر انسان کا چہرہ ایک متواضع اور منکسرالمزاج آدمی کے چہرے سےمختلف ہوتا ہے۔ ایک بد اخلاق آدمی کا چہرہ ایک نیک نفس اور خوش خلق آدمی کے چہرے سے الگ پہچانا جاتا ہے۔ ایک لفنگے اور بد کار آدمی کی صورت اور ایک شریف پاک باز آدمی کی سورت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ساتھی تو ایسے ہیں کہان کو دیکھتے ہی ایک آدمی بیک نظر یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ خیر الخلائق ہیں، کیونکہ خدا پرستی کا تور ان کے چہروں پر چمک رہا ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام کی فوجیں شام کی سر زمین میں داخل ہوئیں تو شام کے عیسائی کہتے تھے کہ مسیح کے حواریوں کی جو شان ہم سنتے تھے یہ تو اسی شان کے لوگ نظر آتے ہیں |
2 | یعنی ان کی سختی جو کچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں ہے۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد و غمگسار ہیں۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و ساز گاری پیدا کر دی ہے |
1 | اصل الفاظ میں اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّار، ۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فُلانٌ شَدِیْدٌ عَلَیْہِ، فلاں شخص اس پر شدید ہے، یعنی اس کو رام کرنا اور اپنے مطلب پر لانا اس کے لیے مشکل ہے۔ کفار پر اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تند خوئی سے پیش آتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی، اصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔ وہ نرم نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انہیں کسی خوف سے دبا یا نہیں جاسکتا ۔ انہیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جاسکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیں اس مقصد عظیم سے ہٹ دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں |