Ayats Found (2)
Surah 16 : Ayat 101
وَإِذَا بَدَّلْنَآ ءَايَةً مَّكَانَ ءَايَةٍۙ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوٓاْ إِنَّمَآ أَنتَ مُفْتَرِۭۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خو د گھڑ تے ہو 1اصل بات یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں
1 | ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے سے مراد ایک حکم کے بعد دوسرا حکم بھیجنا بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کے احکام بتدریج نازل ہوئے ہیں اور بارہا ایک ہی معاملہ میں چند سال کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے دو دو، تین تین حکم بھیجے گئے ہیں۔ مثلًا شراب کا معاملہ، یا زنا کی سزا کا معاملہ۔ لیکن ہم کو یہ معنی لینے میں اس بنا پر تامل ہے کہ سورۂ نحل کی یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی ہے، اورجہاں تک ہمیں معلوم ہے اس دَور میں تدریج فی الاحکام کی کوئی مثال پیش نہ آئی تھی۔ اس لیے ہم یہاں ”ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے“ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کبھی ایک مضمون کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے اور کبھی وہی مضمون سمجھانے کے لیے دوسری مثال سے کام لیا گیا ہے۔ ایک ہی قصہ بار بار آیا ہے اور ہر مرتبہ اسے دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک معاملہ کا کبھی ایک پہلو پیش کیا گیا ہے اور کبھی اُسی معاملے کا دوسرا پہلو سامنے لایا گیا ہے۔ ایک بات کے لیے کبھی ایک دلیل پیش کی گئی ہے اور کبھی دوسری دلیل۔ ایک بات ایک وقت میں مجمل طور پر کہی گئی ہے اور دوسرے وقت میں مفصل۔ یہی چیز تھی جسے کفارِمکّہ اس بات کی دلیل ٹھیراتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، معاذ اللہ، یہ قرآن خود تصنیف کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر اس کلام کا منبع علمِ الہٰی ہوتا تو پوری بات بیک وقت کہہ دی جاتی۔اللہ کوئی انسان کی طرح ناقص العلم تھوڑا ہی ہے کہ سوچ سوچ کر بات کرے، رفتہ رفتہ معلومات حاصل کرتا رہے، اور ایک بات ٹھیک بیٹھتی نظر نہ آئے تو دوسرے طریقہ سے بات کرے یہ تو انسانی علم کی کمزوریاں ہیں جو تمہارے اس کلام میں نظر آرہی ہیں۔ |
Surah 16 : Ayat 102
قُلْ نَزَّلَهُۥ رُوحُ ٱلْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِٱلْحَقِّ لِيُثَبِّتَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے1 تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے 2اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے3 اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے4
4 | یہ اُس کی تیسری مصلحت ہے۔یعنی یہ کہ فرماں برداروں کو جن مزاحمتوں اورمخالفتوں سے سابقہ پیش آرہا ہےاور جس جس طرح انہیں ستایااور تنگ کیا جارہا ہے،اور دعوتِ اسلامی کے کام میں مشکلات کےجو پہاڑ سدّ راہ ہورہے ہیں،ان کی وجہ سےوہ باربار اس کے محتاج ہوتے ہیں کہ بشارتوں سے ان کی ہمت بندھائی جاتی رہے اور ان کوآخری نتائج کی کامیابی کا یقین دلایا جاتارہے تاکہ وہ پُرامید رہیں اوردل شکستہ نہ ہونے پائیں۔ |
3 | یہ اس تدریج کی دوسری مصلحت ہے۔یعنی یہ کہ جو لوگ ایمان لا کر فرمانبرداری کی راہ چل رہے ہیں ان کو دعوتِ اسلامی کے کام میں اور زندگی کےپیش آمدہ مسائل میں جس موقع پرجس قسم کی ہدایات درکار ہوں وہ بروقت دے دی جائیں۔ظاہر ہےکہ نہ انہیں قبل ازوقت بھیجنا مناسب ہو سکتاہے،اورنہ بیک وقت ساری ہدایات دے دینا مفید ہے۔ |
2 | یعنی اُس کے بتدریج اِس کلام کو لے کر آنے اور بیک وقت سب کچھ نہ لے آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علم و دانش میں کوئی نقص ہے، جیسا کہ تم نے اپنی نادانی سے سمجھا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوتِ فہم اور قوتِ اخذ میں نقص ہے جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری بات کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ایک وقت کی سمجھی ہوئی بات میں پختہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی کی حکمت اِس بات کی مقتضی ہوئی کہ روح القدس اِس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے لائے، کبھی اجمال سے کام لے اور کبھی اسی بات کی تفصیل بتائے، کبھی ایک طریقہ سے بات سمجھائے اور کبھی دوسرے طریقے سے، کبھی ایک پیرایۂ بیان اختیار کرے اور کبھی دوسرا، اور ایک ہی بات کو بار بار طریقے طریقے سےذہن نشینن کرنے کی کوشش کرے، تاکہ مختلف قابلیتوں اور استعدادوں کے طالبینِ حق ایمان لا سکیں اور ایمان لانے کے بعد علم و یقین اور فہم و ادراک میں پختہ ہو سکیں۔ |
1 | روح القدس“ کا لفظی ترجمہ ہے”پاک رُوح“ یا ”پاکیزگی“۔ اور اصطلاحًا یہ لقب حضرت جبریلؑ کو دیا گیا ہے۔ یہاں وحی لانے والے فرشتے کا نام لینے کے بجائے اس کا لقب استعمال کرنے سے مقصود سامعین کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ اِس کلام کو ایک ایسی روح لے کر آرہی ہے جو بشری کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے۔ وہ نہ خائن ہے کہ اللہ کچھ بھیجے اور وہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے کچھ اور بنادے۔ نہ کذّاب و مفتری ہے کہ خود کوئی بات گھڑ کے اللہ کے نام سے بیان کر دے۔ نہ بدنیت ہے کہ اپنی کسی نفسانی غرض کی بنا پر دھوکے اور فریب سے کام لے۔ وہ سراسر ایک مقدس و مطہر روح ہے جو اللہ کا کلام پوری امانت کے ساتھ لا کر پہنچاتی ہے۔ |