Ayats Found (2)
Surah 6 : Ayat 146
وَعَلَى ٱلَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا كُلَّ ذِى ظُفُرٍۖ وَمِنَ ٱلْبَقَرِ وَٱلْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَآ إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَآ أَوِ ٱلْحَوَايَآ أَوْ مَا ٱخْتَلَطَ بِعَظْمٍۚ ذَٲلِكَ جَزَيْنَـٰهُم بِبَغْيِهِمْۖ وَإِنَّا لَصَـٰدِقُونَ
اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے، اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اُس کے جو اُن کی پیٹھ یا اُن کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا اُنہیں دی تھی1 اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں
1 | یہ مضمون قرآن مجید میں تین مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ سُورۂ آلِ عمران میں فرمایا”کھانے کی یہ ساری چیزیں (جو شریعت محمدی میں حلال ہیں)بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنھیں توراۃ کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ ان سے کہو لاؤ توراۃ اور پیش کروا س کی کوئی عبارت اگر تم(اپنے اعتراض میں) سچے ہو“۔(آیت ۹۳)۔ پھر سُورہ ٔ نساء میں فرمایا کہ بنی اسرائیل کے جرائم کی بنا پر ”ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں“۔(آیت ۱۶۰)۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ ان کی سرکشیوں کی پاداش میں ہم نے ان پر تمام ناخن والے جانور حرام کیے اور بکری اور گائے کی چربی بھی ان کے لیے حرام ٹھیرا دی۔ اِن تینون آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی ؐ اور یہُودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حِلّت و حُرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مَبنی ہے : ایک یہ کہ نزولِ توراۃ سے صدیوں پہلے حضرت یعقوب ؑ (اسرائیل) علیہ السّلام نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی، حتٰی کہ یہُودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حُرمت توراۃ میں لکھ لی۔ اِن اشیاء میں اُونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں۔ آج بائیبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں اُن میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے(احبار ۴:۱۱ – ۶ – استثناء ۷:۱۴ )۔ لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو جو چیلنج دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے۔ دُوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سے پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انھیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا۔ ان اشیاء میں ایت تو ناخن والے جانور شامل ہیں ، یعنی شتر مُرغ ، قاز، بط وغیرہ۔ دُوسرے گائے اور بکری کی چربی۔ بائیبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکامِ توراۃ میں داخل کر دیا گیا ہے۔ (احبار ۱۶:۱۱ – ۱۸ – استثناء ۱۴:۱۴ – ۱۵ – ۱۶ – احبار ۱۷:۳ و ۲۲:۷ - ۲۳)۔ لیکن سُورہ ٔ نساء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں حرام نہ تھیں بلکہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد حرام ہوئی ہیں ، اور تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دُوسری صدی عیسوی کے آخر میں رَبّی یہوداہ کے ہاتھوں مکمل ہوئی ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سُورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا (ہم نے حرام کیا) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صُورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلّط کر دے اور وہ ان پر طیّبات کو حرام کر دیں۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دُوسری قسم کی تحریم اس کی پھِٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے |
Surah 112 : Ayat 2
ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ
اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں1
1 | اصل میں لفظ صَمَد استعمال کیا گیا ہے جس کا مادّہ ص، م ، د ہے۔ عربی زبان میں اِس مادّے سے جو الفاظ نکلے ہیں اُن پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے معانی کی وسعت کس قدر ہے: 1۔ اَلصَّمْدُ۔ ‘‘قصد کرنا، بلند مقام جو بڑی ضخامت رکھتا ہو، سطح مُر تَفَع ، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو، وہ سردار جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو۔ 2۔ اَلصَّمَدُ۔ ‘‘ہر چیز کا بلند حصّہ ، وہ شخص جسے سے بالاتر کوئی دوسرا شخص نہ ہو، وہ سردار جس کی اطاعت کی جاتی ہو اور اُس کے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کیا جاتا ہو، وہ سردار جس کی طرف حاجتمند لوگ رجوع کرتے ہوں، دائم، بلند مرتبہ، ٹھوس جس میں کوئی خول یا جھول نہ ہو اور جس سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو نہ اس میں داخل ہو سکتی ہو، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو۔ 3۔ اَلمُصْمَدُ۔ ‘‘ٹھوس چیز جس کا کوئی جَوف نہ ہو۔ 4۔ المُصَمَّدُ۔ ‘‘مقصود جس کی طرف جانے کا قصد کیا جائے، سخت چیز جس میں کوئی کمزوری نہ ہو۔ 5۔ بَیْتٌ مُّصَمَّدٌ ۔ ‘‘وہ گھر جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو۔ 6۔ بِنَآ ءٌ مُّصْمَدٌ ۔ ‘‘بلند عمارت۔ 7۔ صَمَدَہٗ وَصَمَدَ اِلَیْہِ صَمْدًا۔ ‘‘اُس شخص کی طرف جانے کا قصد کیا۔ 8۔ اَصْمَدَ اِلَیْہِ الْاَمْرَ ۔ ‘‘اُس کے سپرد معاملہ کر دیا، اُس کے آگے معاملہ پیش کر دیا، اُس کے اوپر معاملہ میں اعتماد کیا۔ (صِحاح، قامُوس، لِسان العرب)۔ اِن لُغوی معنوں کی بنا پر آیت اَللہُ الصَّمَدُ ‘‘میں لفظ اَصَّمَد ‘‘ کی جو تفسیر صحابہ و تابعین اور بعدکے اہلِ علم سے منقو ل ہیں اُنہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں: 1۔حضرت علیؓ، عِکْرِمَہ اور کَعْب ِ اَحْبار: ”صَمَد وہ ہے جس سے بالاتر کوئی نہ ہو۔“ 2۔حضرت عبد اللہ ؓ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور ابو وائل شَقِیق بن سَلَمَہ: ”وہ سردار جس کی سیادت کامل ہو اور انتہا کو پہنچی ہوئی ہو۔“ 3۔ابن عباسؓ کا دوسرا قول: ”صَمَد وہ ہے جس کی طرف لوگ کسی بلا یا مصیبت کے نازل ہونے پر مدد کے لیے رجوع کریں۔“ اُن کا ایک اور قول : ”وہ سردار جو اپنی سیادت میں، اپنے شرف میں، اپنی عظمت میں ، اپنے حلم اور بردباری میں، اپنے علم میں اور اپنی حکمت میں کامل ہو۔“ 4۔ حضرت ابو ہریرہؓ: ”وہ جو سب سے بے نیاز ہو اور سب اُس کے محتاج ہوں۔“ 5۔عِکْرِمَہ کے دوسرا اقوال: ”وہ جس میں سے نہ کوئی چیز کبھی نکلی ہو نہ نکلتی ہو۔“، ”جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو۔“ اِسی کے ہم معنی اقوال شَعبی اور محمد بن کَعْب القُرَظی سے بھی منقول ہیں۔ 6۔ سُدِّی: ”مطلوب چیزیں حاصل کرنے کے لیے لوگ جس کا قصد کریں اور مصائب میں مدد کے لیے جس کی طرف رجوع کریں۔“ 7۔ سعید بن جُبَیر: ”وہ جو اپنی تمام صفات اور اعمال میں کامل ہو۔“ 8۔ ربیع بن اَنَس: ”وہ جس پر کوئی آفت نہ آتی ہو۔“ 9۔ مُقاتل بن حَیّان: ”وہ جو بے عیب ہو۔“ 10۔ ابن کَیْسان: ”وہ جس کی صفت سے کوئی دوسرا مُتّصِف نہ ہو۔“ 11۔حسن بصری اور قَتادہ: ”جو باقی رہنے والا اور لازوال ہو۔“ اِسی سے ملتے جلتے اقوال مجاہد اور مَعْمَر اور مُرَّۃ الہَمدانی سے بھی منقول ہیں۔“ 12۔مُرّۃ الہمدانی کا ایک اور قول یہ ہے کہ: ”وہ جو اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے فیصلہ کرے اور جو کام چاہے کرے، اس کے حکم اور فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا کوئی نہ ہو۔“ 13۔ ابراہیم نَخَعی: ”وہ جس کی طرف لوگ اپنی حاجتوں کے لیے رجوع کریں۔“ 14۔ابو بکر الاَنْباری: ” اہلِ لغت کے درمیان اِس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صَمَد اُس سردار کو کہتے ہیں جس سے بالاتر کوئی اور سردار نہ ہو، اور جس کی طرف لوگ اپنی حاجات اور اپنے معاملات میں رجوع کریں۔“ اِسی کے قریب الزَّ جّاج کا قول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”صَمَد وہ ہے جس پر سرداری ختم ہو گئی ہو اور ہر ایک اپنی حاجات کے لیے جس کی طرف رجوع کرے۔“ اَب غور کیجیے کے پہلے فقرے میں اَللہُ اَحَدٌ کیوں کہا گیا، اور اِ س فقرے میں اَللہ ُ الصَّمَدُ ۔ ‘‘کہنے کی کیا وجہ ہے۔ لفظ اَحَدٌ کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالٰی کے لیے مخصوص ہے، کسی اور کے لیے سرے سے مستعمل ہی نہیں ہے، اس لیے اُسے اَحَدٌ ، یعنی نکرہ کی صورت میں استعال کیا گیا ہے۔ لیکن صَمَد کا لفظ چونکہ مخلوقات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے اَللہُ صَمَدٌ کہنے کے بجائے اَللہُ صَمَدُ کہا گیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ اصلی اور حقیقی صَمَد اللہ تعالٰی ہی ہے۔ مخلوق اگر کسی حیثیت سے صمد ہو بھی تو کسی دوسری حیثیت سے وہ صمد نہیں ہے، کیونکہ وہ فانی ہے، لازوال نہیں ہے، قابلِ تجزیہ و تقسیم ہے، مرکّب ہے، کسی وقت اُس کے اجزا بِکھر سکتے ہیں، بعض مخلوقات اُس کی محتاج ہیں تو بعض کا وہ خود محتاج ہے، اُس کی سیادت اضافی ہے نہ کہ مطلق، کسی کے مقابلے میں وہ برتر ہے تو اس کے مقابلے میں کوئی اور برتر ہے، بعض مخلوقات کی بعض حاجات کو وہ پورا کرسکتا ہے مگر سب کی تمام حاجات کو پورا کرنا کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہے۔ بخلاف اِس کے اللہ تعالٰی کی صَمَدیّت ہر حیثیت سے کامل ہے۔ ساری دنیا اُس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا کی ہر چیز اپنے وجود و بقا اور اپنی حاجات و ضروریات کے لیے شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اُسی کی طرف رجوع کرتی ہے اور سب کی تمام حاجات پوری کرنے والا وہی ہے۔ وہ غیر فانی اور لازوال ہے۔ رزق دیتا ہے ، لیتا نہیں ہے۔ مُفرد ہے، مرکّب نہیں ہے کہ قابل تجزیہ و تقسیم ہو۔ ساری کائنات پر اس کی سیادت قائم ہے اور وہ سب سے برتر ہے۔ اس لیے وہ محض صَمَد نہیں ہے بلکہ الصَّمَد ہے، یعنی ایک ہی ایسی ہستی جو حقیقت میں صَمَدیّت سے بتمام و کمال مُتَّصِف ہے۔
پھر چونکہ وہ الصمد ہے اس لیے لازم آتا ہے کہ وہ یکتا اور یگانہ ہو کیونکہ ایسی ہستی ایک ہی ہو سکتی ہے جو کسی کی حاجتمند نہ ہو اور سب جس کے محتاج ہوں۔ دو یا دو سے زائد ہستیاں سب سے بے نیاز اور سب کی حاجت روا نہیں ہو سکتیں۔ نیز اُس کے الصمد ہونے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہی ایک معبود ہو، کیونکہ انسان عبادت اُسی کی کرتا ہے جس کا وہ محتاج ہو۔ اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہ ہو، کیونکہ جو حاجت روائی کی طاقت اور اختیارات ہی نہ رکھتا ہو اُس کی بندگی وعبادت کوئی ہوشمند آدمی نہیں کر سکتا |