Ayats Found (4)
Surah 43 : Ayat 71
يُطَافُ عَلَيْهِم بِصِحَافٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍۖ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ ٱلْأَنفُسُ وَتَلَذُّ ٱلْأَعْيُنُۖ وَأَنتُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اُن کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہو گی ان سے کہا جائے گا، "تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے
Surah 76 : Ayat 15
وَيُطَافُ عَلَيْهِم بِـَٔـانِيَةٍ مِّن فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا۟
اُن کے آگے چاندی کے برتن1 اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جا رہے ہونگے
1 | سورہ زخرف آیت 71 میں ارشاد ہوا ہے کہ ان کے آگے سونے کے برتن گردش کرائے جا رہے ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کبھی وہاں سونے کے برتن استعمال ہوں گے اور کبھی چاندی گے |
Surah 88 : Ayat 14
وَأَكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌ
ساغر رکھے ہوئے ہوں گے1
1 | یعنی ساغر بھرے ہوئے ہر وقت ان کے سامنے موجود ہوں گے۔ اس کی حاجت ہی نہ ہو گی کہ وہ طلب کر کے انہیں منگوائیں |
Surah 12 : Ayat 70
فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ ٱلسِّقَايَةَ فِى رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا ٱلْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَـٰرِقُونَ
جب یوسفؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا1 پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا 2"اے قافلے والو، تم لو گ چور ہو"
2 | اس آیت میں، اور بعد والی آیات میں بھی کہیں ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ حضرت یوسفؑ نے اپنے ملازموں کو اس راز میں شریک کیا تھا اور انہیں خود یہ سکھایا تھا کہ قافلے والوں پر جھوٹا الزام لگاؤ۔ واقعہ کی سادہ صورت جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیالہ خاموشی کے ساتھ رکھ دیا گیا ہو گا، بعد میں جب سرکاری ملازموں نے اسے نہ پایا ہوگا تو قیاس کیا ہو گا کہ ہو نہ ہو، یہ کام انہی قافلے والوں میں سے کسی کا ہے جو یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ |
1 | پیالہ رکھنے کا فعل غالباً حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائی کی رضامندی سے اور اس کے علم میں کیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے والی آیت اشارہ کر رہی ہے۔ حضرت یوسفؑ اپنے مدتوں کے بچھڑے ہوئے بھائی کو ان ظالم سوتیلے بھائیوں کے پنجے سے چھڑانا چاہتے ہوں گے۔ بھائی خود بھی ان طالموں کے ساتھ واپس نہ جانا چاہتا ہو گا۔ مگر علانیہ آپ کا اسے روکنا ااور اس کا رک جانا بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ حضرت یوسفؑ اپنی شخصیت کو ظاہر کرتے۔ اور اس کا اظہار اس موقع پر مصلحت کے خلاف تھا۔ اس لیے دونوں بھائیوں میں مشورہ ہوا ہوگا کہ اسے روکنے کی یہ تدبیر کی جائے۔ اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے اس میں بھائی کی سبکی تھی، کہ اس پر چوری کا دھبہ لگتا تھا، لیکن بعد میں یہ دھبہ اس طرح باآسانی دھل سکتا تھا کہ دونوں بھائی اصل معاملہ کو دنیا پر ظاہر کر دیں۔ |