Ayats Found (2)
Surah 43 : Ayat 31
وَقَالُواْ لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ ٱلْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ
کہتے ہیں، یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟1
1 | دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں۔ کفار کا یہ کہنا تھا کہ اگر واقعی خدا کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور وہ اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو ہمارے ان مرکزی شہروں میںسے کسی بڑے آدمی کو اس غرض کے لیے منتخب کرتا ۔ رسول بنانے کے لیے اللہ میاں کو ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا، جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی ، س نے بکریاں چرا کر جوانی گزار دی ، جواب گزرا اوقات بھی کرتا ہے تو بیوی کے مال سے تجارت کر کے ،اور جو کسی قبیلے کا شیخ یا کسی خانوادے کا سربراہ نہیں ہے ۔ کیا مکہ میں ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ جیسے نامی گرامی سردار موجود نہ تھے ؟ کیا طائف میں عروہ بن مسعود،حبیب بن عمرہ، کنانہ بن عبد عمرو ، اور ابن عبد یالیل جیسے رئیس موجود نہ تھے ؟ یہ تھا ان لوگوں کا استدلال ۔ پہلے تو وہ یہی ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کوئی بشر بھی رسول ہو سکتا ہے۔ مگر جب قرآن مجید میں پے در پے دلائل دے کر ان کے اس خیال کا پوری طرح ابطال کر دیا گیا، اور ان سے کہا گیا کہ اس سے پہلے ہمیشہ بشر ہی رسول ہو کر آتے رہے ہیں ، اور انسانوں کی ہدایت کے لیے بشر ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کہ غیر بشر ، اور جو رسول بھی دنیا میں آۓ ہیں وہ یکایک آسمان سے نہیں اتر آۓ تھے بلکہ انہی انسانی بستیوں میں پیدا ہوۓ تھے ، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ، بال بچوں والے تھے اور کھانے پیتے سے مبرا نہ تھے (ملاحظہ ہو الجحل، آیت ، 43۔ بنی اسرائیل ، 94۔95۔ یوسف ، 109۔ الفرقان، 7۔20۔الانبیا، 7۔8۔الرعد، 38)، تو انہوں نے یہ دوسری پیترا بدلا کہ اچھا ، بشر ہی رسول سہی، مگر وہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے ۔ مالدار ہو، با اثر ہو، بڑے جتھے والا ہو، لوگوں میں اس کی شخصیت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہو۔ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس مرتبے کے لیے کیسے موزوں ہو سکتے ہیں ؟ |
Surah 43 : Ayat 32
أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَـٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّاۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں1 اور تیرے رب کی رحمت اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (اِن کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں2
2 | یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت خاص ، یعنی نبوت ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے جن رئیسوں کو ان کی دولت و وجاہت اور مشیخت کی وجہ سے بڑی چیز سمجھ رہے ہو، وہ اس دولت کے قابل نہیں ہیں جو محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو دی گئی ہے ۔ یہ دولت اس دولت سے بدرجہا زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے اور اس کے لیے موزونیت کا معیار کچھ اور ہے ۔ تم نے اگر یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہارا ہر چودھری اور سیٹھ نبی بننے کا اہل ہے تو یہ تمہارے اپنے ہی ذہن کی پستی ہے ۔ اللہ سے اس نادانی کی توقع کیوں رکھتے ہو ؟ |
1 | یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے جس کے اندر چند مختصر الفاظ میں بہت سی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں: پلی بات یہ کہ تیرے رب کی رحمت تقوم کرنا ان کے سپرد کب سے ہو گیا ؟ کیا یہ طے کرنا نا کا کام ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے ؟ (یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت عام ہے جس میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے )۔ دوسرے بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے ، دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں ، ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہو ہاتھ میں رکھی اور کے حوالے نہیں کر دی ۔ ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز، کسی کو قوی ہیکل اور کسی کو کمزور کسی کو ذہن اور کسی کو کند ذہن ، کسی قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج یا اندھا یا گونگا بہرا، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا ۔ جس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے ۔ اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی کی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے ۔ پھر انسانوں کے درمیان رزق ، طاقت ، عزت ، شہرت ، دولت، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں ۔ جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے اسے کوئی گرا نہیں سکتا، اور جس پر ہماری طرف سے اِدبار آ جاتا ہے اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بناۓ اور کسے نہ بناۓ۔ تیسری بات کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو، یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جاۓ۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آۓ گا ۔ کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسرے کسی چیز سے اس کو محروم کر دیا ہے ، اور وہ کسی اور کو عطا کردی ہے ، یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسروں سے بے نیاز نہ ہو، بلکہ ہر ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے ۔ اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے اسی کو نبوت بھی دے دی جاۓ ؟ کیا اسی طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل، علم، دولت ، حسن ، طاقت ، اقتدار، اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کر دیے جائیں، اور جس کو ایک چیز نہیں ملی ہے اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جاۓ ؟ |