Ayats Found (2)
Surah 10 : Ayat 15
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ءَايَاتُنَا بَيِّنَـٰتٍۙ قَالَ ٱلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَآءَنَا ٱئْتِ بِقُرْءَانٍ غَيْرِ هَـٰذَآ أَوْ بَدِّلْهُۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِىٓ أَنْ أُبَدِّلَهُۥ مِن تِلْقَآىِٕ نَفْسِىٓۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّۖ إِنِّىٓ أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّى عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سُنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ “اِس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو 1" اے محمدؐ، ان سے کہو “میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبّدل کر لوں میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے2"
2 | یہ اوپر کی دونوں باتوں کا جواب ہے۔ اس میں یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ وحی کے ذریعہ سے میرے پاس آئی ہے جس میں کسی ردوبدل کا مجھے اختیار نہیں ۔ اور یہ بھی کہ اس معاملہ میں مصالحت کا قطعًا کوئی امکان نہیں ہے ، قبول کرنا ہو تواس پورے دین کو جوں کا توں قبول کر و ورنہ پورے کو رد کر دو |
1 | اُن کا یہ قول اوّل تو اس مفروضے پر مبنی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے دماغ کی تصنیف ہے، اور اس کو خدا کی طرف منسوب کر کے انہوں نے صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ ان کی بات کا وزن بڑھ جائے۔ دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ تم نے توحید اورآخرت اور اخلاقی پابندیوں کی بحث کیا چھیڑ دی، اگر رہنمائی کے لیے اُٹھے ہو تو کوئی ایسی چیز پیش کرو جس سے قوم کا بھلا ہو اوراس کی دنیا بنتی نظرآئے۔ تاہم اگر تم اپنی اس دعوت کو بالکل نہیں بدلنا چاہتے تو کم ازکم اس میں اتنی لچک ہی پیدا کرو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کم و بیش پر مصالحت ہو سکے۔ کچھ ہم تمہاری مانیں، کچھ تم ہماری مان لو۔ تمہاری توحید میں کچھ ہمارے شرک کے لیے، تمہاری خدا پرستی میں کچھ ہماری نفس پرستی اور دنیا پرستی کے لیے اور تمہار ے عقیدۂ آخرت میں کچھ ہماری اِن امیدوں کے یے بھی گنجائش نکلنی چاہیے کہ دنیا میں ہم جو چاہیں کرتے رہیں، آخرت میں ہماری کسی نہ کسی طرح نجات ضرور ہو جائے۔ پھر تمہارے یہ قطعی اور حتمی اخلاقی اصول بھی ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں۔ ان میں کچھ ہمارے تعصبات کے لیے، کچھ ہمارے رسم و رواج کے لیے، کچھ ہماری شخصی اور قومی اغراض کے لیے، اور کچھ ہماری خواہشات نفس کے لیے بھی جگہ نکلنی چاہیے، کیوں نہ ایسا ہو کہ دین کے مطالبات کا ایک مناسب دائرہ ہماری اور تمہاری رضامندی سے طے ہو جائے اور اس میں ہم خدا کا حق ادا کر دیں۔ اس کے بعد ہمیں آزاد چھوڑ دیا جائے کہ جس جس طرح اپنی دنیا کے کام چلانا چاہتے ہیں چلائیں۔ مگر تم یہ غضب کر رہے ہو کہ پوری زندگی کو اور سارے معاملات کو توحید وآخرت کے عقیدے اور شریعت کے ضابطہ سے کس دینا چاہتے ہو۔ |
Surah 10 : Ayat 17
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِـَٔـايَـٰتِهِۦٓۚ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلْمُجْرِمُونَ
پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھُوٹا قرار دے1 یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے2 "
2 | بعض نادان لوگ”فلاح“ کو طویل عمر، یا دنیوی خوشحالی، یا دنیوی فروغ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کر کے جیتا رہے، یا دنیا میں پھلے پھولے، یا اس کی دعوت کو فروغ نصیب ہو، اُسے نبی برحق مان لینا چاہیے کیونکہ اس نے فلاح پائی۔ اگر وہ نبی برحق نہ ہوتا تو جھوٹا دعویٰ کرتے ہی مار ڈالا جاتا، یا بھوکوں مار دیا جاتا اور دنیا میں اس کی بات چلنے ہی نہ پاتی۔ لیکن یہ احمقانہ استدلال صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو نہ تو قرآنی اصطلاحِ ”فلاح“ کا مفہوم جانتا ہو، نہ اُس قانونِ اِمہال سے واقف ہو جو قرآن کے بیان کے مطابق اللہ تعالٰی نے مجرموں کے لیے مقرر فرمایا ہے، اور نہ یہی سمجھتا ہو کہ اس سلسلہ ٔ بیان میں یہ فقرہ کس معنی میں آیا ہے۔ اوّل تو یہ بات کہ”مجرم فلاح نہیں پا سکتے“ اس سیاق میں اس حیثیت سے فرمائی ہی نہیں گئی ہے کہ یہ کسی کے دعوائے نبوت کو پرکھنے کا معیار ہے جس سے عام لوگ جانچ کر خود فیصلہ کر لیں کہ جو مدعی نبوت ”فلاح“ پارہا ہو اس کے دعوے کو مانیں اور جو فلاح نہ پا رہا ہو اس کا انکار کر دیں۔ بلکہ یہاں تو یہ بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ”میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ مجرموں کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی، اس لیے میں خود تو یہ جرم نہیں کر سکتا کہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کروں، البتہ تمہارے متعلق مجھے یقین ہے کہ تم سچّے نبی کو جھٹلانے کا جرم کر رہے ہو اس لیے تمہیں فلاح نصیب نہیں ہو گی“۔ پھر فلاح کا لفظ بھی قرآن میں دنیوی فلاح کے محدود معنی میں نہیں آیا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ پائیدار کامیابی ہے جو کسی خسران پر منتج ہونے والی نہ ہو، قطع نظراس سے کہ دنیوی زندگی کے اِس ابتدائی مرحلہ میں اس کے اندر کامیابی کا کوئی پہلو ہو یا نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک داعی ضلالت دنیا میں مزے سے جیے، خوب پھلے پھولے اور اس کی گمراہی کو بڑا فروغ نصیب ہو، مگر یہ قرآن کی اصطلاح میں فلاح نہیں، عین خسران ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک داعیِ حق دنیا میں سخت مصیبتوں سے دوچار ہو، شدّتِ آلام سے نڈھال ہو کر یا ظالموں کی دست درازیوں کا شکار ہوکر دنیا سے جلدی رخصت ہو جائے، اور کوئی اسے مان کر نہ دے، مگر یہ قرآن کی زبان میں خسران نہیں، عین فلاح ہے۔ علاوہ بریں قرآن میں جگہ جگہ یہ بات پوری تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی مجرموں کو پکڑنے میں جلدی نہیں کیا کرتا بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، اور اگر وہ اس مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اور زیادہ بگڑتے ہیں تواللہ کی طرف سے ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور بسا اوقات ان کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی چھپی ہوئی تمام شرارتوں کو پوری طرح ظہور میں لے آئیں اور اپنے عمل کی بنا پر اُس سزا کے مستحق ہو جائیں جس کے وہ اپنی بری صفات کی وجہ سے فی الحقیقت مستحق ہیں۔ پس اگر کسی جھوٹے مدعی کی رسی دراز ہو رہی ہو اور اس پر دنیوی ”فلاح“ کی برسات برس رہی ہو تو سخت غلطی ہو گی اگر اس کی اس حالت کو اس کے برسر ہدایت ہونے کی دلیل سمجھا جائے۔ خدا کا قانونِ اِمہال و استدراج جس طرح تمام مجرموں کے لیے عام ہے اسی طرح جھوٹے مدعیان نبوت کے لیے بھی ہے اور ان کے اس مستثنیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر شیطان کو قیامت تک کے لیے جو مہلت اللہ تعالٰی نے دی ہے اس میں بھی یہ استثنا کہیں مذکور نہیں ہے کہ تیرے اور تو سارے فریب چلنے دیے جائیں گے لیکن اگر تُو اپنی طرف سے کوئی نبی کھڑا کرے گا تو یہ فریب نہ چلنے دیا جائے گا۔ ممکن ہے کوئی شخص ہماری اس بات کے جواب میں وہ آیت پیش کرے جو سورہ الحاقہ آیات ۴۴ – ۴۷ میں ارشاد ہوئی ہے کہ وَلَوْ تَقَوَّ لَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ o لَاَ خَذْنَا مِنْہُ بِا لْیَمِیْنِ o ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ ۔”یعنی اگر محمد ؐ نے خود گھڑ کر کوئی بات ہمارے نام سے کہی ہوتی تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ دل کاٹ ڈالتے“۔ لیکن اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تو یہ ہے کہ جو شخص فی الواقع خدا کی طرف سے نبی مقرر کیا گیا ہو وہ اگر جھوٹی بات گھڑ کر وحی کی حیثیت سے پیش کرے تو فورًا پکڑا جائے۔ اِس سے یہ استدلال کرنا کہ جو مدعی نبوت پکڑانہیں جا رہا ہے وہ ضرور سچا ہے۔ ایک منطقی مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خدا کے قانونِ اِمہال و استدراج میں جو استثناء اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے وہ صرف سچے نبی کے لیے ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے وہ بھی اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سرکاری ملازموں کے لیے حکومت نے جو قانون بنایا ہو اس کا اطلاق صرف انہی لوگوں پر ہو گا جو واقعی سرکاری ملازم ہوں۔ رہے وہ لوگ جو جعلی طور پر اپنے آپ کو ایک سرکاری عہدہ دار کی حیثیت سے پیش کریں، تو ان پر ضابطۂ ملازمت کا نفاذ نہ ہوگا بلکہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ضابطہ ٔ فوجداری کے تحت عام بدمعاشوں اور مجرموں کے ساتھ کیا جا تا ہے۔ علاوہ بریں سورۂ الحاقہ کی اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ بھی اِس غرض کے لیے نہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نبی کے پرکھنے کا یہ معیار بتایا جائے کہ اگر پردۂ غیب سے کوئی ہاتھ نمودار ہو کر اس کی رگِ دل اچانک کاٹ لے تو سمجھیں جھوٹا ہے ورنہ مان لیں کہ سچا ہے۔ نبی کے صادق یا کاذب ہونے کی جانچ اگر اس کی سیرت، اس کے کام، اور اُس چیز سے جو وہ پیش کر رہو ہو، ممکن نہ ہوتی تو ایسے غیر معقول معیار تجویز کرنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔ |
1 | یعنی اگر یہ آیات خدا کی نہیں ہیں اور میں انہیں خود تصنیف کر کے آیات الہٰی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اور اگر یہ واقعی اللہ کی آیات ہیں اور تم ان کو جھٹلا رہے ہو تو پھر تم سے بڑا بھی کوئی ظالم نہیں۔ |