Ayats Found (3)
Surah 23 : Ayat 72
أَمْ تَسْــَٔلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌۖ وَهُوَ خَيْرُ ٱلرَّٲزِقِينَ
کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے رب کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے1
1 | یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بے لوث ہیں۔ کوئی شخص ایمانداری کا ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ کوئی نفسانی غرض اپ کے پیش نظر ہے۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی ، اب افلاس میں مبتلا ہو گئے۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ اب گالیں اور پتھر کھا رہے ہیں ،بلکہ جان تک کے لالے پڑے ہیں۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑ گۓ ہیں جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن ہو گیا ہے ، حتّیٰ کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے ؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش کرتا، نہ کہ وہ بات لے کر اٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے ، بلکہ سرے سے اس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکین عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم ہے۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ، بلکہ بالعموم تمام انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیت 90۔ یونس 72۔ ہود 29۔ 51۔ یوسف 104۔ افرقان57۔ الشعراء ، 109۔ 127۔145۔ 164۔ 180۔ سباء 47۔ یٰسین 21۔ ص، 86 الشوریٰ 23 ، النجم 40 مع حواشی |
Surah 23 : Ayat 75
۞ وَلَوْ رَحِمْنَـٰهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِم مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّواْ فِى طُغْيَـٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ
اگر ہم اِن پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں آج کل یہ مبتلا ہیں دُور کر دیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے
1 | اشارہ ہے اس تکلف و مصیبت کی طرف جس میں وہ قحط کی بدولت پڑے ہوئے تھے۔ اس قحط کے متعلق روایات نقل کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دو قحطوں کے قصوں کو خلط ملط کر دیا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں اہل مکہ کو دو مرتبہ قحط سے سابقہ پیش آیا ہے۔ ایک نبوت کے آغاز سے کچھ مدت بعد۔ دوسرا، ہجرت کے کئی سال بعد جب کہ ثُمامہ بن اُثال نے یمامہ سے مکے کے طرف غلے کی بر آمد روک دی تھی۔ یہاں ذکر دوسرے قحط کا نہیں بلکہ پہلے قحط کا ہے۔ اس کے متعلق صحیحین میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا اور سخت مزاحمت شروع کر دی تو حضورؐ نے دعا کی کہ : اللھم اعنی علیہم نسبع کسبع یوسف، ’’ خدایا ، ان کے مقابلے میں میری مدد یوسف کے ہفت سالہ قحط جیسے سات برسوں سے کر ‘‘۔ چنانچہ ایسا سخت قحط شروع ہوا کہ مردار تک کھانے کی نوبت آ گئی۔ اس قحط کی طرف مکی سورتوں میں بکثرت اشارات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعم ، 42 تا 44۔ الاعراف 94 تا 99۔یونس ، 11۔12۔21۔ النحل ، 112۔113۔ الدخان 10۔16 مع حواشی |
Surah 23 : Ayat 83
لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَءَابَآؤُنَا هَـٰذَا مِن قَبْلُ إِنْ هَـٰذَآ إِلَّآ أَسَـٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ
ہم نے بھی یہ وعدے بہت سنے ہیں اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سنتے رہے ہیں یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں1"
1 | خیال رہے کہ انکا آخرت کو مستبعد سمجھنا صرف آخرت ہی کا انکار نہ تھا، خدا کی قدرت اور حکمت کا بھی انکار تھا |