Ayats Found (12)
Surah 2 : Ayat 118
وَقَالَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا ٱللَّهُ أَوْ تَأْتِينَآ ءَايَةٌۗ كَذَٲلِكَ قَالَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْۘ تَشَـٰبَهَتْ قُلُوبُهُمْۗ قَدْ بَيَّنَّا ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی1؟ ایسی ہی باتیں اِن سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے اِن سب (اگلے پچھلے گمراہوں) کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں 2یقین لانے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں3
3 | یہ بات کہ خدا خود آکر ہم سے بات کیوں نہیں کرتا، اس قدر مہمل تھی کہ اس کا جواب دینے کی حاجت نہ تھی۔ جواب صرف اس بات کا دیا گیا ہے کہ ہمیں نشانی کیوں نہیں دکھائی جاتی۔ اور جواب یہ ہے کہ نشانیاں تو بے شمار موجود ہیں ، مگر جو جاننا چاہتا ہی نہ ہو ، اسے آخر کونسی نشانی دکھائی جا سکتی ہے |
2 | یعنی آج کے گمراہوں نے کو ئی اعتراض اور کوئی مطالبہ ایسا نہیں گھڑا ہے، جو ان سے پہلے کے گمراہ پیش نہ کر چکے ہوں۔ قدیم زمانے سے آج تک گمراہی کا ایک ہی مزاج ہے اور وہ بار بار ایک ہی قسم کے شہبات اور اعتراضات اور سوالات دُہراتی رہتی ہے |
1 | اُن کا مطلب یہ تھا کہ خدا، یا تو خود ہمارے سامنے آکر کہے کہ یہ میری کتاب ہے اور یہ میرے احکام ہیں، تم لوگ ان کی پیروی کرو ، یا پھر ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائی جائے ، جس سے ہمیں یقین آجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہے |
Surah 6 : Ayat 37
وَقَالُواْ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ ءَايَةٌ مِّن رَّبِّهِۦۚ قُلْ إِنَّ ٱللَّهَ قَادِرٌ عَلَىٰٓ أَن يُنَزِّلَ ءَايَةً وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ کہو، اللہ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں1
1 | نشانی سے مراد محسوس معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ معجزہ نہ دکھائے جانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اس کو دکھانے سے عاجز ہیں بلکہ اس کی وجہ کچھ اَور ہے جسے یہ لوگ محض اپنی نادانی سے نہیں سمجھتے |
Surah 7 : Ayat 203
وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِـَٔـايَةٍ قَالُواْ لَوْلَا ٱجْتَبَيْتَهَاۚ قُلْ إِنَّمَآ أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ مِن رَّبِّىۚ هَـٰذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اے نبیؐ، جب تم اِن لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کر لی؟1 ان سے کہو 2"میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے قبول کریں
2 | یعنی میرا منصب یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی مانگ ہو یا جس کی میں خود ضرورت محسوس کروں اسے خود ایجاد یا تصنیف کر کے پیش کردوں۔ میں تو ایک رسول ہوں اور میرا منصب صرف یہ ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے اس کی ہدایت پر عمل کروں۔ معجزے کے بجائے میرے بھیجنے والے نے جو چیز میرے پاس بھیجی ہے وہ یہ قرآن ہے ۔ اس کے اندر بصیرت افروز روشنیاں موجود ہیں اور اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ جو لوگ اس کو مان لیتے ہیں ان کو زندگی کا سیدھا راستہ مل جاتا ہے اوران کے اخلاقِ حسنہ میں رحمت ِ الہٰی کے آثار صاف ہو یدا ہونے لگتے ہیں |
1 | کفار کےاس سوال میں ایک صریح طعن کا انداز پایا جاتا تھا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میاں جس طرح تم نبی بن بیٹھے ہو اسی طرح کوئی معجزہ بھی چھانٹ کر اپنے لیے بنا لائے ہوتے۔ لیکن آگے ملاحظہ ہو کہ اس طعن کا جواب کس شان سے دیا جاتا ہے |
Surah 7 : Ayat 204
وَإِذَا قُرِئَ ٱلْقُرْءَانُ فَٱسْتَمِعُواْ لَهُۥ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے1"
1 | یعنی یہ جو تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تم لوگ قرآن کی آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو اور شور و غل برپا کرتے ہو تا کہ نہ خود سنو اور نہ کوئی دوسرا سن سکے، اس روش کو چھوڑ دو اور غور سے سنو تو سہی کہ اس میں تعلیم کیا دی گئی ہے ۔ کیا عجب کہ اس کی تعلیم سے واقف ہو جانے کے بعد تم خود بھی اُسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہو چکی ہے۔ مخالفین کی طعن آمیز بات کے جواب میں یہ ایسا لطیف و شیریں اور ایسا دلوں کو مسخر کرنے والا انداز تبلیغ ہے کہ اس کی خوبی کسی طرح بیان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جو شخص حکمتِ تبلیغ سیکھنا چاہتا ہو وہ اگر غور کرے تو اس جواب میں بڑے سبق پاسکتا ہے۔ اس آیت کا اصل مقصود تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے لیکن ضمناً اس سے یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ جب خدا کا کلام پڑھا جا رہا ہو تو لوگوں کو ادب سے خاموش ہو جانا چاہیے اور توجہ کے ساتھ اسے سننا چاہیے۔ اسیہ سے یہ بات بھی مُستَنبَط ہوتی ہے کہ امام جب نماز میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہو تو مقتدیوں کو خاموشی کے ساتھ اس کی سماعت کرنی چاہیے۔ لیکن اس مسئلہ میں ائمہ کے درمیان اختلاف واقع ہوگیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ جبری قرأت خواہ جہری ہو یا سِرّی، مقتدیوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ صرف جہری قرأت کی صورت میں مقتدیوں کو خاموش رہنا چاہیے۔ لیکن امام شافعیؒ اس طرف گئے ہیں کہ جہری اور سرّی دونوں صورتوں میں مقتدی کو قرأت کرنی چاہیے کیونکہ بعض احادیث کی بنا پر وہ سمجھے ہیں کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی |
Surah 10 : Ayat 20
وَيَقُولُونَ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ ءَايَةٌ مِّن رَّبِّهِۦۖ فَقُلْ إِنَّمَا ٱلْغَيْبُ لِلَّهِ فَٱنتَظِرُوٓاْ إِنِّى مَعَكُم مِّنَ ٱلْمُنتَظِرِينَ
اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اِس نبیؐ پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی1، تو ان سے کہو “غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے، اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں 2"
2 | یعنی جو کچھ اللہ نے اُتارا ہے وہ تو میں نے پیش کر دیا، اور جو اس نے نہیں اتارا وہ میرے اور تمہارے لیے”غیب“ ہے جس پر سوائے خدا کے کسی کا اختیار نہیں، وہ چاہے تواتارے اور نہ چاہے تو نہ اُتارے۔ اب اگر تمہارا ایمان لانا اِسی پر موقوف ہے کہ جو کچھ خدا نے نہیں اُتارا ہے وہ اُترے تو اس کے انتظار میں بیٹھے رہو، میں بھی دیکھوں گا کہ تمہاری یہ ضد پوری کی جاتی ہے یا نہیں۔ |
1 | یعنی اس بات کی نشانی کہ یہ واقعی نبی بر حق ہے اور جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نشانی کے لیے ان کا یہ مطالبہ کچھ اس بنا پرنہیں تھا کہ وہ سچے دل سے دعوتِ حق کو قبول کرنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے اخلاق کو، عادت کو، نظامِ معاشرت و تمدن کو، غرض اپنی پوری زندگی کو ڈھال لینے کے لیے تیار تھے اور بس اس وجہ سے ٹھیرے ہوئے تھے کہ نبی کی تائید میں کوئی نشانی ابھی انہوں نے ایسی نہیں دیکھی تھی جس سے انہیں اس کی نبوت کا یقین آجائے۔ اصل بات یہ تھی کہ نشانی کا یہ مطالبہ محض ایمان نہ لانے کے لیے ایک بہانے کے طور پیش کیا جاتا تھا۔ جو کچھ بھی ان کو دکھایا جاتا اس کے بعد وہ یہی کہتے کہ کوئی نشانی تو ہم کو دکھائی ہی نہیں گئی۔ اس لیے کہ وہ ایمان لاناچاہتے نہ تھے۔ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو کو اختیار کرنے میں یہ جو آزادی ان کو حاصل تھی کہ نفس کی خواہشات و رغبات کے مطابق جس طرح چاہیں کام کریں اور جس چیز میں لذت یا فائدہ محسوس کریں اس کے پیچھے لگ جائیں، اِس کو چھوڑ کر وہ ایسی غیبی حقیقتوں (توحید و آخرت) کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے جنہیں مان لینے کے بعد ان کو اپنا سارا نظامِ حیات مستقل اخلاقی اصولوں کی بندش میں باندھنا پڑجاتا۔ |
Surah 13 : Ayat 7
وَيَقُولُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ ءَايَةٌ مِّن رَّبِّهِۦٓۗ إِنَّمَآ أَنتَ مُنذِرٌۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ
یہ لوگ جنہوں نے تمہاری با ت ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ 1"اِس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟ تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے2
2 | یہ اُن کے مطالبے کا مختصر سا جواب ہے جو براہِ راست اُن کو دینے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے آخر کون سا کرشمہ دکھایا جائے۔ تمہارا کام ہر ایک کو مطمئن کردینا نہیں ہے۔ تمہارا کام تو صرف یہ ہے کہ خواب غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو چونکا دو اور اُن کو غلط روی کے بُرے انجام سے خبردار کرو۔ یہ خدمت ہم نے ہر زمانے میں، ہر قوم میں، ایک نہ ایک ہادی مقرر کر کے لی ہے۔ اب تم سے یہی خدمت لے رہے ہیں۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے آنکھیں کھولے اور جس کا جی چاہے غفلت میں پڑا رہے۔ یہ مختصر جواب دے کر اللہ تعالیٰ اُن کے مطالبے کی طرف رُخ پھیر لیتا ہے اور اُن کو متنبہ کرتا ہے کہ تم کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہو جہاں کسی چوپٹ راجہ کا راج ہو۔ تمہارا واسطہ ایک ایسے خدا سے ہے جو تم میں سے ایک ایک شخص کو اُس وقت سے جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بن رہے تھے، اور زندگی بھر تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس کے ہاں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ ٹھیٹھ عدل کے ساتھ تمہارے اوصاف کے لحاظ سے ہوتا ہے، اور زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو اُس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے |
1 | نشانی سے اُن کی مراد ایسی نشانی تھی جسے دیکھ کر اُن کو یقین آجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ وہ آپؐ کی بات کو اس کی حقانیت کے دلائل سے سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ وہ آپؐ کی سیرت پاک سے سبق لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ اُس زبردست اخلاقی انقلاب سے بھی کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو آپؐ کی تعلیم کے اثر سے آپؐ کے صحابہ کی زندگیوں میں رونما ہو رہا تھا۔ وہ اُن معقول دلائل پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کے اوہامِ جاہلیت کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے قرآن میں پیش کیا جا رہے تھے۔ اِن سب چیزوں کو چھوڑ کر وہ چاہتے تھے کہ انہیں کوئی کرشمہ دکھایا جائے جس کے معیار پر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسات کو جانچ سکیں |
Surah 13 : Ayat 27
وَيَقُولُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ ءَايَةٌ مِّن رَّبِّهِۦۗ قُلْ إِنَّ ٱللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِىٓ إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ
یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدیؐ کو ماننے سے) انکار کر دیا ہے کہتے ہیں 1"اِس شخص پر اِس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری" کہو، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے2
2 | یعنی جو اللہ کی طرف خود رجوع نہیں کرتا اور اس سے روگردانی اختیار کرتا ہے اُسے زبردستی راہِ راست دکھانے کا طریقہ اللہ کے ہاں رائج نہیں ہے۔ وہ ایسے شخص کو اُنہی راستوں میں بھٹکنے کو توفیق دے دیتا ہے جن میں وہ خود بھٹکنا چاہتا ہے۔ وہی سارے اسباب جو کسی ہدایت طلب انسان کے لیے سببِ ہدایت بنتے ہیں ، ایک ضلالت طلب انسان کے لیے سبب ضلالت بنا دیے جاتےہیں۔ شمعِ روشن بھی اُس کے سامنے آتی ہے تو راستہ دکھانے کے بجائے اس کی آنکھیں خیر ہی کرنے کا کام دیتی ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ کے کسی شخص کو گمراہ کرنے کا۔
نشانی کے مطالبے کا یہ جواب اپنی بلاغت میں بے نظیر ہے۔ وہ کہتے تھے کہ کوئی نشانی دکھاؤ تو ہمیں تمہاری صداقت کا یقین آئے، جواب میں کہا گیا کہ نادانو تمہیں راہ راست نہ ملنے کا اصل سبب نشانیوں کا فقدان نہیں ہے بلکہ تمہاری اپنی ہدایت طلبی کا فقدان ہے۔ نشانیاں تو ہر طرف بے حدو حساب پھیلی ہوئی ہیں، مگر اُن میں سے کوئی بھی تمہارے لیے نشانِ راہ نہیں بنتی، کیونکہ تم خدا کے راستے پر جانے کے خواہشمند ہی نہیں ہو۔ اب اگر کوئی اور نشانی آئے تو وہ تمہارے لیے کیسے مفید ہو سکتی ہے؟ تم شکایت کرتے ہو کہ کوئی نشانی نہیں دکھائی گئی۔ مگر جو خدا کی راہ کے طالب ہیں انہیں نشانیاں نظر آ رہی ہیں اور وہ انہیں دیکھ دیکھ کر راہ راست پا رہے ہیں۔ |
1 | اس سے پہلے آیت ۷ میں اِس سوال کا جو جواب دیا جا چکا ہے اسے پیشِ نظر رکھا جائے۔ اب دوبارہ اُن کے اسی اعتراض کو نقل کر کے ایک دوسرے طریقے سے اُس کا جواب دیا جا رہا ہے |
Surah 13 : Ayat 31
وَلَوْ أَنَّ قُرْءَانًا سُيِّرَتْ بِهِ ٱلْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ ٱلْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ ٱلْمَوْتَىٰۗ بَل لِّلَّهِ ٱلْأَمْرُ جَمِيعًاۗ أَفَلَمْ يَاْيْــَٔسِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن لَّوْ يَشَآءُ ٱللَّهُ لَهَدَى ٱلنَّاسَ جَمِيعًاۗ وَلَا يَزَالُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُواْ قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ وَعْدُ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُخْلِفُ ٱلْمِيعَادَ
اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟1 (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے2 پھر کیا اہل ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگا ئے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر) مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟3 جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر ر کھا ہے اُن پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا
3 | یعنی اگر سمجھ بوجھ کے بغیر محض ایک غیر شعوری ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لیے نشانیاں دکھانے کے تکلف کی کیا حاجت تھی۔ یہ کام تو اس طرح بھی ہو سکتا تھا کہ اللہ سارے انسانوں کو مومن ہی پیدا کر دیتا |
2 | یعنی نشانیوں کے نہ دکھانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہےکہ اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قاد رنہیں ہے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان طریقوں سے کام لینا اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے ۔ اس لیے کہ اصل مقصود تو ہدایت ہے نہ کہ ایک نبی کی نبوت کو منوالینا، اور ہدایت اِس کے بغیر ممکن نہیں کہ لوگوں کی فکر وبصیرت کی اصلاح ہو |
1 | اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی ضروری ہے کہ اِس میں خطاب کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان جب کفار کی طرف سے بار بار نشانی کا مطالبہ سنتے تھے تو ان کے دلوں میں بے چینی پیدا ہوتی تھی کہ کاش اِن لوگوں کو کوئی نشانی دکھادی جاتی جس سے یہ لوگ قائل ہو جاتے۔ پھر جب وہ محسوس کرتےتھے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پھیلانے کا موقع مل رہا ہے تو ان کی یہ بے چینی اور بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ اِس پر مسلمانوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن کی کسی سورۃ کے ساتھ ایسی اور ایسی نشانیاں یکایک دکھا دی جاتیں تو کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آتے ؟ کیا تمہیں اِن سے یہ خوش گمانی ہے کہ یہ قبولِ حق کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں ،صرف ایک نشانی کے ظہور کی کسر ہے؟ جن لوگوں کو قرآن کی تعلیم میں ، کائنات کے آثارمیں، نبی کی پاکیزہ زندگی میں، صحابہ ٔ کرام کے انقلاب حیات میں نورِ حق نظر نہ آیا کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے پھٹنے اور مُردوں کے قبروں سے نکل آنے میں کوئی روشنی پا لیں گے؟ |
Surah 21 : Ayat 5
بَلْ قَالُوٓاْ أَضْغَـٰثُ أَحْلَـٰمِۭ بَلِ ٱفْتَرَٮٰهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِـَٔـايَةٍ كَمَآ أُرْسِلَ ٱلْأَوَّلُونَ
وہ کہتے ہیں 1"بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ اِس کی مَن گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے"
1 | اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شروع کی جاۓ اور ہر اس شخص کو ، جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بد گمان کر دیا جاۓ کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمادہ ہی نہ ہو۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی، مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبردار کرتے پھرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے ، اس سے ہوشیار رہنا ۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں ۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادو گر ہے ۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ رکھا ہے ، اور کہتا ہے خدا کا کلام ہے ۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے ، دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے ۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ تخیلات اور تک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلام الہٰی رکھا ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے ۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اور جچی تُلی رائے ظاہر کرتے ۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا ۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدت ہی کے اندر ہو گئی ۔ ہر شخص کے دل میں ایک سوال پیدا ہو گیا کہ آخر معلوم تو ہووہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے ، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سنی تو جائے۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے ۔ اس کی ایک دلچسپ مثال طُفَیل بن عَمر و دَوسی کا قصہ ہے جسے ابن اسحاق نے خود ان کی روایت سے بڑی تفصیل کے ستھ نقل کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں قبیلہ دوس کا ایک شاعر تھا۔ کسی کام سے مکہ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قریش کے چند لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف خوب میرے کان بھرے یہاں تک کہ میں آپ سے سخت بد گمان ہو گیا اور میں نے طے کر لیا کہ آپ سے بچ کر ہی رہوں گا ۔ دوسرے روز میں نے حرم میں حاضری دی تو آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے ۔ میرے کانوں میں چند جملے جو پڑے تو میں نے محسوس کیا کہ یہ تو کوئی بڑا اچھا کلام ہے ۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں شاعر ہوں ، جو ان مرد ہوں ، عقل رکھتا ہوں ، کوئی بچہ نہیں ہوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکوں ۔ آخر کیوں نہ اس شخص سے مل کر معلوم کرو کہ یہ کیا کہتا ہے ۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو کر واپس چلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور آ؛ کے مکان پر پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق مجھ سے یہ یہ کچھ کہا تھا، اور میں آپ سے اس قدر بد گمان ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ آپ کی آواز نہ سننے پاؤں ۔ لین ابھی جو چند کلمے میں نے آپ کی زبان سے سنے ہیں وہ مجھے کچھ اچھے معلوم ہوئے ۔ آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے ، آپ کیا کہتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں مجھ کو قرآن کا ایک حصہ سنایا اور میں اس سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا۔ پھر واپس جا کر میں نے اپنے باپ اور بیوی کو مسلمان کیا ۔ اس کے بعد اپنے قبیلے میں مسلسل اشاعت اسلام کرتا رہا ، یہاں تک کہ غزوہ خندق کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے میرے قبیلے کے ستر اسی گھرانے مسلمان ہو گئے ۔ (ابن ہشام جلد 2 ، ص 22۔ 24 ) ایک اور روایت جو ابن اسحاق نے نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرداران قریش اپنی محفلوں میں خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ جو باتیں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بناتے ہیں وہ محض جھوٹ ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مجلس میں نَضر بن حارث نے تقریری کی کہ ’’ تم لوگ محمدؐ کا مقابلہ جس طرح کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ وہ جب تمہارے درمیان نو عمر جواب تھا تو تمہارا سب سے زیادہ خوش اطوار آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امین سمجھا جاتا تھا۔ اب کہ اس کے بال سفید ہونے کو آ گئے ، تم کہتے ہو یہ ساحر ہے ، کاہن ہے ، شاعر ہے ، مجنون ہے ۔ بخدا وہ ساحر نہیں ہے ، ہم نے سحروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک سے ہم واقف ہیں ۔ بخدا وہ کاہن بھی نہیں ہے ، ہم نے کاہنوں کی تک بندیاں سنی ہیں اور جیسی گول مول باتیں وہ کیا کرتے ہیں انکا ہمیں علم ہے ۔ بخدا وہ شاعر بھی نہیں ہے ، شعر کی تمام اصناف سے ہم واقف ہیں اور اس کا کلام ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتا۔ بخدا ہو مجنون بھی نہیں ہے ، مجنون کی جو حالت ہوتی ہے اور جیسی بے تکی بڑ وہ ہانکتا ہے کیا اس سے ہم بے خبر ہیں ؟ اے سرداران قریش ، کچھ اور بات سوچو ، جس چیز کا مقابلہ تمہیں در پیش ہے وہ اس سے زیادہ بڑی ہے کہ یہ باتیں بنا کر تم اسے شکست دے سکو‘‘۔ اس کے بعد اس نے یہ تجویز پیش کی کہ عجم سے رستم و اسفندیار کے قصے لا کر پھیلائے جائیں تاکہ لوگ ان میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ انہیں قرآن سے زیادہ عجیب معلوم ہوں ۔ چنانچہ کچھ دنوں اس پر عمل کیا گیا اور خود نضر نے داستان گوئی شروع کر دی۔ (ابن ہشام جلد اول ،ص 32 ۔321 ) |
Surah 21 : Ayat 6
مَآ ءَامَنَتْ قَبْلَهُم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَـٰهَآۖ أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ
حالاں کہ اِن سے پہلے کوئی بستی بھی، جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہ لائی، اب کیا یہ ایمان لائیں گے؟1
1 | اس مختصر سے جملے میں نشانی کے مطالبے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ تین مضمونوں پر مشتمل ہے ۔ ایک یہ کہ تم پچھلے رسولوں کی سی نشانیاں مانگتے ہو، مگر یہ بھول جاتے ہو کہ ہٹ دھرم لوگ ان نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لاۓ تھے ۔ دوسرے یہ کہ تم نشانی کا مطالبہ تو کرتے ہو، مگر یہ یاد نہیں رکھتے کہ جس قوم نے بھی صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے انکار کیا ہے وہ پھر ہلاک ہوئے بغیر نہیں رہی ہے ۔ تیسرے یہ کہ تمہاری منہ مانگی نشانی نہ بھیجنا تو تم پر خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے ۔ اب تک تم انکار پر انکار کیے جاتے رہے اور مبتلائے عذاب نہ ہوئے ۔ کیا اب نشانی اس لیے مانگتے ہو کہ ان قوموں کا سا انجام دیکھو جو نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اور تباہ کر دی گئیں |