Ayats Found (1)
Surah 41 : Ayat 10
وَجَعَلَ فِيهَا رَوَٲسِىَ مِن فَوْقِهَا وَبَـٰرَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَآ أَقْوَٲتَهَا فِىٓ أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِينَ
اُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیے اور اس میں برکتیں رکھ دیں1 اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دی2ا یہ سب کام چار دن میں ہو گئے3
3 | اس مقام کی تفسیر میں مفسرین کو بالعموم یہ زحمت پیش آئی ہے کہ اگر زمین کی تخلیق کے دو دن، اور اس میں پہاڑ جمانے اور برکتیں رکھنے اور سامان خوراک پیدا کرنے کے چار دن تسلیم کیے جائیں ، تو آگے آسمانوں کی پیدائش دو دنوں میں ہونے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے مزید دو دن ملا کر آٹھ دن بن جاتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق جملہ کچھ دنوں میں ہوئی ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، ص 36۔ 261۔324۔ جلد دوم ص 420)۔ اسی بنا پر قریب قریب تمام مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ چار دن زمین کی تخلیق کے دو دن سمیت ہیں ، یعنی دو دن تخلیق زمین کے اور دو دن زمین کے اندر ان باقی چیزوں کی پیدائش کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس طرح جملہ چار دنوں میں زمین اپنے سرو سامان سمیت مکمل ہو گئی۔ لیکن یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے، اور در حقیقت وہ زحمت بھی محض خیالی زحمت ہے جس سے بچنے کے لیے اس تاویل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ زمین کی تخلیق کے دو دن دراصل ان دو دنوں سے الگ نہیں ہیں جن میں بحیثیت مجموعی پوری کائنات بنی ہے۔ آگے کی آیات پر غور کیجیے۔ ان میں زمین اور آسمان دونوں کی تخلیق کا یکجا ذکر کیا گیا ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے۔ ان سات آسمانوں سے پوری کائنات مراد ہے جس کا یک جز ہماری یہ زمین بھی ہے۔ پھر جب کائنات کے دوسرے بے شمار تاروں اور سیاروں کی طرح یہ زمین بھی ان دو دنوں کے اندر مجرد ایک کُرے کی شکل اختیار کر چکی تو اللہ تعالیٰ نے اسکو ذی حیات مخلوقات کے لیے تیار کرنا شروع کیا اور چار دنوں کے اندر اس میں وہ سب کچھ سرو سامان پیدا کر دیا جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے تاروں اور سیاروں میں ان چار دنوں کے اندر کیا کچھ ترقیاتی کام کیے گۓ، ان کا ذکر اللہ تعالی نے نہیں فرمایا ہے، کیونکہ نزول قرآن کے دور کا انسان تو در کنار، اس زمانے کا آدمی بھی ان معلومات کو ہضم کرنے کی استعداد نہیں رکھتا |
2 | اصل الفاظ ہیں : قَدَّ رَ فِیْحَآ اَقْوَ اتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَ آءً لِلسَّآئِلِیْنَ۔ اس فقرے کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں : بعض مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ زمین میں اس کے رازق مانگنے والوں کے لیے ٹھیک حساب سے رکھ دیے پورے چار دنوں میں ’’۔ یعنی کم یا زیادہ نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ۔ ابن عباس، قَتَادہ اور سُدّی اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ’’ زمین میں اس کے ارزاق چار دنوں میں رکھ دیے۔ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا ‘‘۔ یعنی جو کوئی یہ پوچھے کہ یہ کام کتنے دنوں میں ہوا، اس کا مکمل جواب یہ ہے کہ چار دنوں میں ہو گیا۔ ابن زید اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ زمین میں اس کے رازق مانگنے والوں کے لیے چار دنوں کے اندر رکھ دیے ٹھیک اندازے سے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق‘‘۔ جہاں تک قواعد زبان کا تعلق ہے، آیت کے الفاظ میں یہ تینوں معنی لینے کی گنجائش ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلے دو معنوں میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیا اہمیت رکھتی ہے کہ یہ کام ایک گھنٹہ کم چار دن یا ایک گھنٹہ زیادہ چار دن میں نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور کمال ربوبیت اور کمال حکمت کے بیان میں کون سی کسر رہ جاتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اس تصریح کی حاجت ہو؟ اسی طرح یہ تفسیر بھی بڑی کمزور تفسیر ہے کہ ’’ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا‘‘۔ آیت سے پہلے اور بعد کے مضمون میں کسی جگہ بھی کوئی قرینہ یہ نہیں بتاتا کہ اس وقت کسی سائل نے یہ دریافت کیا تھا کہ یہ سارے کام کتنے دنوں میں ہوۓ، اور یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی۔ انہی وجوہ سے ہم نے ترجمے میں تیسرے معنی کو اختیار کیا ہے۔ ہمارے نزدیک آّیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ زمین میں ابتداۓ آفرینش سے لے کر قیامت تک جس جس قسم کی جتنی مخلوق بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا تھا، ہر ایک کی مانگ اور حاجت کے ٹھیک مطابق غذا کا پورا سامان حساب لگا کر اس نے زمین کے اندر رکھ دیا۔ نباتات کی بے شماراقسام خشکی اور تری میں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی غذائی ضروریات دوسری اقسام سے مختلف ہیں ۔ جاندار مخلوقات کی بے شمار انواع ہوا اور خشکی اور تری میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اور ہر نوع ایک الگ قسم کی غذا مانگتی ہے۔ پھران سب سے جدا، ایک اور مخلوق انسان ہے جس کو محض جسم کی پرورش ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے بھی طرح طرح کی خورا کیں درکار ہیں ۔ اللہ کے سوا کون جان سکتا تھا کہ اس کرّہ خاکی پر زندگی کا آغاز ہونے سے لے کر اس کے اختتام تک کس کس قسم کی مخلوقات کے کتنے افراد کہاں کہاں اور کب کب وجود میں آئیں گے اور ان کو پالنے کے لیے کیسی اور کتنی غذا درکار ہو گی۔ اپنی تخلیقی اسکیم میں جس طرح اس نے غذا طلب کرنے والی ان مخلوقات کو پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اسی طرح اس نے ان کی طلب کو پورا کرنے کے لیےخوراک کا بھی مکمل انتظام کر دیا۔ موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے مارکسی تصور اشتراکیت کا اسلامی ایڈیشن’’قرآنی نظام ربوبیت ‘‘ کے نام سے نکالا ہے وہ سواءً للسّا ئِلین کا ترجمہ’’ سب مانگنے والوں کے لیے برابر‘‘ کرتے ہیں ، اور اس پر استدلال کی عمارت یوں اٹھاتے ہیں کہ اللہ نے زمین میں سب لوگوں کے لیے برابر خوراک رکھی ہے، لہٰذا آیت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے ریاست کا ایک ایسا نظام درکار ہے جو سب کو غذا کا مساوی راشن دے، کیونکہ انفرادی ملکیت کے نظام میں وہ مساوات قائم نہیں ہو سکتی جس کا یہ’’قرآنی قانون‘‘ تقاضا کر رہا ہے۔ لیکن یہ حضرات قرآن سے اپنے نظریات کی خدمت لینے کے جوش میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سائلین، جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے،صرف انسان ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف اقسام کی وہ سب مخلوقات ہیں نہیں زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا واقعی ان سب کے درمیان، یا ایک ایک قسم کی مخلوقات کے تمام افراد کے درمیان خدا نے سامان پرورش میں مساوات رکھی ہے؟ کیا فطرت کے اس پورے نظام میں کہیں آپ کو غذا کے مساوی راشن کی تقسیم کا انتظام نظر آتا ہے؟ اگر واقعہ یہ نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا میں ، جہاں انسانی ریاست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ریاست براہ راست تقسیم رزق کا انتظام کر رہی ہے، اللہ میاں خود اپنے اس’’قرآنی قانون‘‘ کی خلاف ورزی .................... بلکہ معاذ اللہ، بے انصافی............... فرما رہے ہیں ! پھر وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ ’’سائلین ‘‘میں وہ حیوانات بھی شامل ہیں جنہیں انسان پالتا ہے، اور جن کی خوراک کا انتظام انسان ہی کے ذمہ ہے۔ مثلاً بھیڑ بکری، گاۓ،بھینس، گھوڑے، گدھے، خچر، اور اونٹ وغیرہ۔اگر قرآنی قانون یہی ہے کہ سب سائلین کو برابر خوراک دی جاۓ، اور اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے نظام ربوبیت چلانے والی ایک ریاست مطلوب ہے، تو کیا وہ ریاست انسان اور ان حیوانات کے درمیان معاشی مساوات قائم کرے گی؟ |
1 | زمین کی برکتوں سے مراد وہ بے حد و حساب سر و سامان ہے جو کروڑہا کروڑ سال سے مسلسل اس کے پیٹ سے نکلتا چلا آ رہا ہے اور خورد بینی کیڑوں سے لے کر انسان کے بلند ترین تمدن تک کی روز افزوں ضروریات پوری کیے چلا جا رہا ہے۔ ان برکتوں میں سب سے بڑی برکتیں ہوا اور پانی ہیں جن کی دولت ہی زمین پر نباتی، حیوانی اور پھر انسانی زندگی ممکن ہوئی |