Ayats Found (1)
Surah 94 : Ayat 3
ٱلَّذِىٓ أَنقَضَ ظَهْرَكَ
جو تمہاری کمر توڑے ڈال رہا تھا1
1 | مفسرین میں سے بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ نبوت سے پہلے ایام جاہلیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ قصور ا یسے ہو گئے تھے جن کی فکر آپ کو سخت گراں گزر رہی تھی اور یہ آیت نازل کر کے ا للہ تعالی نے آپ کو مطمئن کردیا کہ آپ کے وہ قصور ہم نے معاف کر دیے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ معنی لینا سخت غلطی ہے۔ اول تو لفظ وزر کے معنی لازماً گناہ ہی کے نہیں ہیں بلکہ یہ لفظ بھاری بوجھ کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو خواہ مخواہ برے معنی میں لیا جائے۔ دوسرے حضورؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی اس قدر پاکیزہ تھی کہ قرآن میں مخالفین کے سامنے اس کو ایک چلینج کے طور پر پیش کیا گیا تھا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کفار کو مخاطب کر کے یہ کہوایا گیا کہ ’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ‘‘’’میں اس قرآن کو پیش کرنے سے پہلے تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں‘‘(یونس آیت 16) اور حضور اس کردار کے انسان بھی نہ تھے کہ لوگوں سے چھپ کر آپ نے کوئی گناہ کیا ہو۔ معاذ اللہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی تو اس سے ناواقف نہ ہو سکتا تھا کہ جو شخص کوئی چھپا ہوا داغ اپنے دامن پر لیے ہوئے ہوتا اس سے خلق خدا کے سامےن بر ملا وہ بات کہلواتا جو سورہ یونس کی مذکورہ بالا آیت میں اس نے کہلوائی ہے۔ پس درحقیقت اس آیت میں وزر کے صحیح معنی بھاری بوجھ کے ہیں اور اس سے مراد رنج و غم اور فکر و پریشانی کا وہ بوجھ ہے جو اپنی قوم کی جہالت و جاہلیت کو دیکھ دیکھ کر آپ کی حساس طبیعت پر پڑ رہا تھا آپ کے سامنے بت پوجے جا رہے تھے۔ شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم کا بازار گرم تھا۔ اخلاق کی گندگی اور بے حیائی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ معاشرت میں ظلم اور معاملات میں فساد عام تھا۔ زور د اروں کی زیادتیوں سے بے زور پس رہے تھے۔ لڑکیاں زنددفن کی جا رہی تھیں۔ قبیلوں پر قبیلے چھاپے مار رہے تھے اور بعض اوقات سو سو برس تک انتقامی لڑائیوں کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ کسی کی جان، مال اور آبرو محفوظ نہ تھی جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط جتھا نہ ہو۔ یہ حالت دیکھ کر آپ کڑھتے تھے مگر اس بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی صورت آپ کو نظر نہ آتی تھی۔ یہی فکر آپ کی کمر توڑے ڈال رہی تھی جس کا بارِ گراں اللہ تعالی نے ہدایت کا راستہ دکھا کر آپ کے اوپر سے اتار دیا ا ور نبوت کے منصب پر سرفراز ہوتے ہی آپ کو معلوم ہو گیا کہ توحید ا ور آخرت اور رسالت پر ا یمان ہی وہ شاہ کلید ہے جس سے انسانی زندگی کے ہر بگاڑ کا قفل کھولا جا سکتا ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں اصلاح کا راستہ صاف کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی کی اس رہنمائی نے آپ کے ذہن کا سارا بوجھ ہلکا کر دیا اور آپ پوری طرح مطمئن ہو گئے کہ اس ذریعہ سے آپ نہ صرف عرب بلکہ پوری نوع انسانی کو ان خرابیوں سے نکلا سکتے ہیں جن میں اس وقت عرب سے باہر کی بھی ساری دنیا مبتلا تھی |