Ayats Found (22)
Surah 3 : Ayat 108
تِلْكَ ءَايَـٰتُ ٱللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِٱلْحَقِّۗ وَمَا ٱللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعَـٰلَمِينَ
یہ اللہ کے ارشادات ہیں جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک سنارہے ہیں کیونکہ اللہ دنیا والوں پر ظلم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا1
1 | یعنی چونکہ اللہ دُنیا والوں پر ظلم نہیں کرنا چاہتا اس لیے وہ ان کو سیدھا راستہ بھی بتا رہا ہے اور اِس بات سے بھی انہیں قبل از وقت آگاہ کیے دیتا ہے کہ آخر کار وہ کن اُمور پر اُن سے باز پرس کرنے والا ہے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کج روی اختیار کریں اور اپنے غلط طرزِ عمل سے باز نہ آئیں وہ اپنے اُوپر آپ ظلم کریں گے |
Surah 3 : Ayat 117
مَثَلُ مَا يُنفِقُونَ فِى هَـٰذِهِ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوٓاْ أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ ٱللَّهُ وَلَـٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
جو کچھ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی میں خرچ کر رہے ہیں اُس کی مثال اُس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور وہ اُن لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اسے برباد کر کے رکھ دے1 اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا در حقیقت یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں
1 | اِس مثال میں کھیتی سے مراد یہ کشتِ حیات ہے جس کی فصل آدمی کو آخرت میں کاٹنی ہے ۔ ہَوا سے مراد وہ اُوپری جزبہٴ خیر ہے جس کی بنا پر کفار رفاہِ عام کے کاموں اور خیرات وغیرہ میں دولت صرف کرتے ہیں ۔ اور پالے سے مراد صحیح ایمان اور ضابطہٴ خداوندی کی پیروی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان کو پوری زندگی غلط ہو کر رہ گئی ہے۔ اللہ تعالٰی اس تمثیل سے یہ بتا نا چاہتا ہے کہ جس طرح ہوا کھیتیوں کی پرورش کے لیے مفید ہے لیکن اگر اسی ہوا میں پالا ہو تو کھیتی کو پرورش کرنے کے بجائے اسے تباہ کر ڈالتی ہے ، اسی طرح خیرات بھی اگرچہ انسان کے مزرعہٴ آخرت کو پرورش کرنے والی چیز ہے ، مگر جب اس کے اند رکفر کا زہر ملا ہو ا ہو تو یہی خیرات مفید ہونے کے بجائے اُلٹی مہلک بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کا مالک اللہ ہے ، اور اُس مال کا مالک بھی اللہ ہی ہے جس میں انسان تصرف کر رہا ہے ، اور یہ مملکت بھی اللہ ہی کی ہے جس کے اند ر رہ کر انسان کام کر رہا ہے ۔ اب اگر اللہ یا یہ غلام اپنے مالک کے اقتدارِ اعلٰی کو تسلیم نہیں کرتا، یا اس کی بندگی کے ساتھ کسی اَور کی ناجائز بندگی بھی شریک کرتا ہے ، اور اللہ کے مال اور اس کی مملکت میں تصرف کرتے ہوئے اس کے قانون و ضابطہ کی اطاعت نہیں کرتا ، تو اس کے یہ تمام تصرفات ازسر تا پا جُرم بن جاتے ہیں۔ اجر ملنا کیسا وہ تواِس کا مستحق ہے کہ اِن تمام حرکات کے لیے اس پر فوجداری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ اُ س کی خیرات کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نوکر اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اس کا خزانہ کھولے اور جہاں جہاں اپنی دانست میں مناسب سمجھے خرچ کر ڈالے |
Surah 3 : Ayat 182
ذَٲلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
یہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، اللہ اپنے بندوں کے لیے ظالم نہیں ہے
Surah 8 : Ayat 51
ذَٲلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّـٰمٍ لِّلْعَبِيدِ
یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیا کر رکھا تھا، ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے "
Surah 22 : Ayat 10
ذَٲلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّـٰمٍ لِّلْعَبِيدِ
یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے
Surah 4 : Ayat 40
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـٰعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا
اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے
Surah 6 : Ayat 131
ذَٲلِكَ أَن لَّمْ يَكُن رَّبُّكَ مُهْلِكَ ٱلْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَـٰفِلُونَ
(یہ شہادت اُن سے اس لیے لی جائے گی کہ یہ ثابت ہو جائے کہ) تمہارا رب بستیوں کو ظلم کے ساتھ تباہ کرنے والا نہ تھا جبکہ ان کے باشندے حقیقت سے نا واقف ہوں1
1 | یعنی اللہ اپنے بندوں کو یہ موقع نہیں دینا چاہتا کہ وہ اس کے مقابلے میں یہ احتجاج کر سکیں کہ آپ نے ہمیں حقیقت سے تو آگاہ کیا نہیں، اور نہ ہم کو صحیح راستہ بتانے کا کوئی انتظام فرمایا، مگر جب ناواقفیت کی بنا پر ہم غلط راہ پر چل پڑے تو اب آپ ہمیں پکڑتے ہیں۔ اِس حجّت کو قطع کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے اور کتابیں نازل کیں تاکہ جِن و انس کو صاف صاف خبر دار کر دیا جائے۔ اب اگر لوگ غلط راستوں پر چلتے ہیں اور اللہ ان کو سزا دیتا ہے تو اس کا الزام خود ان پر ہے نہ کہ اللہ پر |
Surah 9 : Ayat 70
أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَٲهِيمَ وَأَصْحَـٰبِ مَدْيَنَ وَٱلْمُؤْتَفِكَـٰتِۚ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِۖ فَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کیا اِن لوگوں کو اپنے پیش روؤں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوحؑ کی قوم، عاد، ثمود، ابراہیمؑ کی قوم، مدین کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں الٹ دیا گیا1 اُن کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے2
2 | “یعنی ان کی تباہی و بربادی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ کو ان کے ساتھ کوئی دشمنی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ انہیں تباہ کرے۔ بلکہ دراصل انہوں نے خود ہی اپنے لیے وہ طرزِ زندگی پسند کیا جو انہیں بربادی کی طرف لےجانے والا تھا۔ اللہ نے تو انہیں سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا پورا موقع دیا، ان کی فہمائش کے لیے رسول بھیجے، رسولوں کے ذریعہ سے ان کو غلط روی کے بُرے نتائج سے آگاہ کیا اور انہیں کھول کھول کر نہایت واضح طریقے سے بتا دیا کہ ان کے لیے فلاح کا راستہ کونسا ہے اور ہلاکت و بربادی کا کونسا۔ مگر جب انہوں نے اصلاح حال کے کسی موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا اور ہلاکت کی راہ چلنے ہی پر اصرار کیا تو لامحالہ ان کا وہ انجام ہونا ہی تھا جو بالآخر ہو کر رہا، اور یہ ظلم ان پر اللہ نے نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر کیا |
1 | اشارہ ہے قومِ لوط کی بستیوں کی طرف |
Surah 30 : Ayat 9
أَوَلَمْ يَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۚ كَانُوٓاْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُواْ ٱلْأَرْضَ وَعَمَرُوهَآ أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِۖ فَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِنہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں؟1 وہ اِن سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، اُنہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا2 اور اُسے اتنا آباد کیا تھا جتنا اِنہوں نے نہیں کیا ہے3 اُن کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے4 پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے5
5 | یعنی اس کے بعد جو تباہی ان قوموں پرآئی وہ ان پرخدا کا ظلم نہ تھا بلکہ وہ ان کااپنا ظلم تھاجو انہوں نے اپنے اوپرکیا۔جو شخص یاگروہ نہ خود صحیح سوچے اور نہ کسی سمجھانے والے کے سمجھانے سے صحیح رویہ اختیار کرےاس پراگر تباہی آتی ہے تو وہ آپ ہی اپنے برے انجام کا ذمہ دار ہے۔خدا پراس کاالزام عائد نہیں کیاجا سکتا۔خدانے تو اپنی کتابوں اور اپنے انبیاءکے ذریعہ سے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے،اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہروقت انبیاءاورکتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کی صحت جانچ سکتا ہے۔اِس رہنمائی اوران ذرائع سے اگرخدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا اوراس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دو چار ہونا پڑتا تب بلاشبہ خدا پرظلم کے الزام کی گنجائش نکل سکتی تھی۔ |
4 | یعنی ایسی نشانیاں لے کرآئے جوان کے نبی صادق ہونے کا یقین دلانے کے لیے کافی تھیں۔اس سیاق و سباق میں انبیاء کی آمد کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف انسان کے اپنے وجود میں،اوراس سے باہر ساری کائنات کے نظام میں،اورانسانی تاریخ کے مسلسل تجربے میں آخرت کی شہادتیں موجود تھیں،اور دوسری طرف پے در پے ایسے انبیاءبھی آئے جن کے ساتھ ان کی نبوت کے برحق ہونے کی کھلی کھلی علامتیں پائی جاتی تھیں،اورانہوں نے انسانوں کو خبردار کیاکہ فی الواقع آخرت آنے والی ہے۔ |
3 | اس میں اُن لوگوں کے استدلال کا جواب موجود ہے جو محض مادی ترقی کو کسی قوم کے صالح ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے زمین کے ذرائع کو اتنے بڑے پیمانے پراستعمال(Exploit)کیا ہے،جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تعمیری کام کیے ہیں اور ایک شاندار تمدن کو جنم دیا ہے،بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی ان کو جہنم کا ایندھن بنادے۔قرآن اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ’’تعمیری کام‘‘پہلے بھی بہت سی قوموں نے بڑے پیمانے پرکیے ہیں،پھرکیاتمہاری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ قومیں اپنی تہذیب اور اپنے تمدن سمیت پیوند خاک ہو گئیں اوران کی ’’تعمیر‘‘کا قصرِفلک بوس زمین پرآرہا!جس خدا کے قانون نے یہاں عقیدہ حق اوراخلاقِ صالحہ کے بغیر محض مادی تعمیرکی یہ قدرکی ہے،آخرکیا وجہ ہے کہ اسی خدا کا قانون دوسرے جہان میں انہیں واصل جہنم نہ کرے؟ |
2 | اصل میں لفظ اَثَارُواالارضَ استعمال ہوا ہے۔اس کا اطلاق زراعت کے لیے ہل چلانے پربھی ہوسکتا ہےاور زمین کھود کر زیرزمین پانی،نہریں،کاریزیں اور معدنیات وغیرہ نکالنے پربھی۔ |
1 | یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے۔مطلب یہ ہے کہ آخرت کاانکاردنیا میں دوچار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہے۔انسانی تاریخ کے دوران میں کثیرالتعداد انسان اس مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں۔بلکہ پوری پوری قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے یا تو اس کاانکارکیا ہے،یااس سے غافل ہوکررہی ہیں،یا حیات بعد الموت کے متعلق ایسے غلط عقیدے ایجاد کرلیے ہیں جن سے آخرت کا عقیدہ بے معنی ہوکررہ جاتاہے۔پھر تاریخ کا مسلسل تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انکار آخرت جس صورت میں بھی کیاگیا ہےاس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اخلاق بگڑے،وہ اپنے آپ کو غیرذمہ دار سمجھ کرشتربےمہاربن گئے،انہوں نے ظلم و فساد اورفسق و فجور کی حد کردی،اوراسی چیز کی بدولت قوموں پرقومیں تباہ ہوتی چلی گئیں۔کیا ہزاروں سال کی تاریخ کا یہ تجربہ،جو پے در پےانسانی نسلوں کو پیش آتا رہاہے،یہ ثابت نہیں کرتاکہ آخرت ایک حقیقت ہے جس کا انکارانسان کے لیے تباہ کن ہے؟ انسان کششِ ثقل کااسی لیے تو قائل ہوا ہےکہ تجربے اورمشاہدے سے اس نے مادی اشیاکوہیمشہ زمین کی طرف گرتے دیکھا ہے۔انسان نے زہرکو زہراسی لیے مانا ہے کہ جس نے بھی زہرکھایا وہ ہلاک ہوا۔اسی طرح جب آخرت کا انکار ہیمشہ انسان کے لیے اخلاقی بگاڑ کاموجب ثابت ہوا ہے تو کیا یہ تجربہ یہ سبق دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ آخرت ایک حقیقت ہے اوراس کو نظرانداز کرکے دنیامیں زندگی بسر کرنا غلط ہے؟ |
Surah 10 : Ayat 44
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَظْلِمُ ٱلنَّاسَ شَيْــًٔا وَلَـٰكِنَّ ٱلنَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں1
1 | یعنی اللہ نے تو انہیں کان بھی دیے ہیں اور آنکھیں بھی اور دل بھی۔ اس نے اپنی طرف سے کوئی ایسی چیز ان کو دینے میں بُخل نہیں کیا ہے جو حق و باطل کا فرق دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ضروری تھی۔ مگر لوگوں نے خواہشات کی بندگی اور دنیا کے عشق میں مبتلا ہوکر آپ ہی اپنی آنکھیں پھوڑ لی ہیں، اپنے کان بہرے کر لیے ہیں اور اپنے دلوں کو اتنا مسخ کر لیا ہے کہ ان میں بھلے بُرے کی تمیز،صحیح و غلط کے فہم اور ضمیر کی زندگی کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔ |