Ayats Found (6)
Surah 6 : Ayat 91
وَمَا قَدَرُواْ ٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦٓ إِذْ قَالُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَىْءٍۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ ٱلْكِتَـٰبَ ٱلَّذِى جَآءَ بِهِۦ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِۖ تَجْعَلُونَهُۥ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًاۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوٓاْ أَنتُمْ وَلَآ ءَابَآؤُكُمْۖ قُلِ ٱللَّهُۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِى خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ
ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے1 ان سے پوچھو، پھر وہ کتاب جسے موسیٰؑ لایا تھا، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو، اور جس کے ذریعہ سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو، آخر اُس کا نازل کرنے والا کون تھا؟2 بس اتنا کہہ دو کہ اللہ، پھر اُنہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لیے چھوڑ دو
2 | یہ جواب چونکہ یہودیوں کو دیا جارہا ہے اس لیے موسیٰ علیہ السّلام پر توراۃ کے نزول کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، کیوں کہ وہ خود اس کے قائل تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ تسلیم کرنا کہ حضرت موسیٰ ؑ پر توراۃ نازل ہوئی تھی، ان کے اس قول کی آپ سے آپ تردید کردیتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا۔ نیز اس سے کم ازکم اتنی بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور ہو چکا ہے |
1 | انسانی جسم کے تمام اجزاء زمین سے حاصل ہوتے ہیں، کوئی ایک ذرہ بھی اس میں غیر ارضی نہیں ہے، اس لیے فرمایا کہ تم کو مِٹی سے پیدا کیا گیا ہے |
Surah 10 : Ayat 2
أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَآ إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ ٱلنَّاسَ وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْۗ قَالَ ٱلْكَـٰفِرُونَ إِنَّ هَـٰذَا لَسَـٰحِرٌ مُّبِينٌ
کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہو گئی کہ ہم نے خود اُنہی میں سے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اُن کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟1 (کیا یہی وہ بات ہے جس پر) منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے؟2
2 | یعنی جادوگر کی پھبتی تو انہوں نے اس پر کس دی مگر یہ نہ سوچا کہ وہ چسپاں بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ صرف یہ بات کہ کوئی شخص اعلیٰ درجہ کی خطابت سے کام لے کر دلوں اور دماغوں کو مسخر کر رہا ہے، اُس پر یہ الزام عائد کر دینے کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی کہ وہ جادوگری کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس خطابت میں وہ بات کیا کہتا ہے، کس غرض کے لیے قوت تقریر کو استعمال کر رہا ہے، اور جو اثرات اس کی تقریر سے ایمان لانے والوں کی زندگی پر مترتب ہو رہے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں جو خطیب کسی ناجائز غرض کے لیے جادو بیانی کی طاقت استعمال کرتا ہے وہ تو ایک منہ پھٹ بے لگام، غیر ذمہ دار مقرر ہوتا ہے۔ حق اور صداقت اور انصاف سے آزاد ہو کر ہر وہ بات کہہ ڈالتا ہے جو بس سننے والوں کو متاثر کر دے، خواہ بجائے خود کتنی ہی جھوٹی، مبالغہ آمیز اورغیر منصفانہ ہو۔ اس کی باتوں میں حکمت کے بجائے عوام فریبی ہوتی ہے کسی منظم فکر کے بجائے تناقض اور ناہمواری ہوتی ہے۔ اعتدال کے بجائے بے اعتدالی ہوا کرتی ہے وہ تو محض اپنا سکہ جمانے کے لیے زبان درازی کرتا ہے یا پھر لوگوں کو لڑانے اور ایک گروہ کو دوسرے کے مقابلہ میں ابھارنے کے لیے خطابت کی شراب پلاتا ہے۔ اس کے اثر سے لوگوں میں نہ کوئِ اخلاقی بلندی پیدا ہوتی ہے، نہ ان کی زندگیوں میں کوئی مفید تغیر رونما ہوتا ہے اور نہ کوئی صالح فکر یا صالح عملی حالت وجود میں آتی ہے، بلکہ لوگ پہلے سے بدتر صفات کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ مگر یہاں تم دیکھ رہے ہو کہ پیغمبر جو کلام پیش کر رہا ہے اس میں حکمت ہے، ایک متناسب نظام ِ فکر ہے، غایت درجے کا اعتدال اور حق و صداقت کا سخت التزام ہے، لفظ لفظ جچا تُلا اور بات بات کانٹے کی تول پوری ہے۔ اس کی خطابت میں تم خلق خدا کی اصلاح کے سوا کسی دوسری غرض کی نشاندہی نہیں کر سکتے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے اس میں اس کی اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی یا کسی قسم کی دنیوی غرض کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ جس غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس کے بُرے نتائج سے ان کو خبر دار کرے اور انہیں اُس طریقے کی طرف بلائیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ پھر اس کی تقریر سے جو اثرات مترتب ہوئے ہیں وہ بھی جادوگروں کے اثرات سے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں جس نے بھی اس کا اثر قبول کیا ہے اس کی زندگی سنور گئی ہے، وہ پہلے سے زیادہ بہتر اخلاق کا انسان بن گیا ہے اوراس کے سارے طرزِعمل میں خیر و صلاح کی شان نمایاں ہو گئی ہے۔ اب تم خود ہی سوچ لو، کیا جدوگر ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اور ان کا جادو ایسے ہی نتائج دکھایا کرتا ہے؟ |
1 | یعنی آخر اس میں تعجب کی بات کیا ہے؟ انسانو ں کو ہوشیار کرنے کے لیے انسان نہ مقرر کیا جاتا تو کیا فرشتہ یا جن یا حیوان مقرر کیا جاتا؟ اور اگر انسان حقیقت سے غافل ہو کر غلط طریقے سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا خالق و پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے یا یہ کہ وہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی انتظام کرے؟ اور اگر خدا کی طرف سے کوئی ہدایت آئے تو عزت و سرفرازی اُن کے لیے ہونی چاہیے جو اسے مان لیں یا ان کے لیے جو اسے رد کر دیں؟ پس تعجب کرنے والوں کو سوچنا تو چاہیے کہ آخر وہ بات کیا ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں۔ |
Surah 17 : Ayat 94
وَمَا مَنَعَ ٱلنَّاسَ أَن يُؤْمِنُوٓاْ إِذْ جَآءَهُمُ ٱلْهُدَىٰٓ إِلَّآ أَن قَالُوٓاْ أَبَعَثَ ٱللَّهُ بَشَرًا رَّسُولاً
لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے اُن کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر اُن کے اِسی قول نے کہ 1"کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا؟"
1 | یعنی ہر زمانے کے جاہل لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ بشر کبھی پیغمبر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہ دیکھ کر کہ کھاتا ہے، پیتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے، گوشت پوست کا بنا ہوا ہے، فیصلہ کر دیا کہ پیغمبر نہیں ہے، کیونکہ بشر ہے۔ اور جب وہ گزر گیا تو ایک مدت کے بعد اس کے عقیدت مندوں میں ایسے لوگ پیدا ہونے شروع ہو گئے جو کہنے لگے کہ وہ بشر نہیں تھا، کیونکہ پیغمبر تھا۔ چنانچہ کسی نے اس کو خدا بنایا، کسی نے اسے خدا کا بیٹا کہا، اور کسی نے کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا تھا۔ غرض بشریت اور پیغمبری کا ایک ذات میں جمع ہونا جاہلوں کے لیے ہمیشہ ایک معما ہی بنا رہا۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یٰس، حاشیہ ١١) |
Surah 17 : Ayat 96
قُلْ كَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدَۢا بَيْنِى وَبَيْنَكُمْۚ إِنَّهُۥ كَانَ بِعِبَادِهِۦ خَبِيرَۢا بَصِيرًا
اے محمدؐ، ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان بس ایک اللہ کی گواہی کافی ہے وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے1
1 | یعنی جس طرح سے میں تمہیں سمجھا رہا ہوں اور تمہاری اصلاح حال کے لیے کوشش کر رہا ہوں اسے بھی اللہ جانتا ہے، اور جو جو کچھ تم میری مخالفت میں کر رہے ہو اس کو بھی اللہ دیکھ رہا ہے۔ فیصلہ آخر کار اسی کو کرنا ہے اس لیے بس اسی کا جاننا اور دیکھنا کافی ہے |
Surah 21 : Ayat 1
ٱقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِى غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ
قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت1، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں2
2 | یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا ہے اور نہ اس پیغمبر کی بات سنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے |
1 | مراد ہے قرب قیامت ۔ یعنی اب وہ وقت دور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہو رہی ہے ۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے ۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے ۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا : بُعِثتُ انا وَالسَّاعَۃُ کَھَ تینِ ، ’’ میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اورقیامت ان دوانگلیوں کی طرح ہیں ۔ ‘‘ یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے ۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے ۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جاؤ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر نذیر آنے والا نہیں ہے |
Surah 21 : Ayat 7
وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالاً نُّوحِىٓ إِلَيْهِمْۖ فَسْــَٔلُوٓاْ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور اے محمدؐ، تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے1 تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو2
2 | یعنی یہ یہودی، جو آج اسلام کی دشمنی میں تمہارے ہم نوا ہیں اور تم کو مخالفت کے داؤ پیچ سکھایا کرتے ہیں ، ان ہی سے پوچھ لو کہ موسیٰ اور دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کون تھے ۔ انسان ہی تھے یا کوئی اور مخلوق ؟ |
1 | یہ جواب ہے ان کے اس قول کا کہ ’’ یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے ‘‘ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت کو اس بات کی دلیل قرار دیتے تھے کہ آپ نبی نہیں ہو سکتے ۔ جواب دیا گیا کہ پہلے زمانے کے جن لوگوں کو تم خود مانتے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے ، وہ سب بھی بشر ہی تھے اور بشر ہوتے ہوۓ ہی خدا کی وحی سے سرفراز ہوۓ تھے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، یٰسین، حاشیہ 11 ) |