Ayats Found (1)
Surah 20 : Ayat 94
قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِى وَلَا بِرَأْسِىٓۖ إِنِّى خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ
ہارونؑ نے جواب دیا 1"اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ تو آ کر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا2"
2 | حضرت ہارون کے اس جواب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قوم کا مجتمع رہنا اس کے راہ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور اتحاد چاہے وہ شرک ہی پر کیوں نہ ہو، افتراق سے بہتر ہے خواہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو۔ اس آیت کا یہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجاۓ گمراہی اخذ کرے گا۔ حضرت ہارون کی پوری بات سمجھنے کے لیے اس آیت کو سورہ اعراف کی آیت 150 کے ساتھ ملا کر پڑہنا چاہیے۔ وہاں وہ فرماتے ہیں کہ : اَبْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْ نِیْ وَ کَادُوْا یَقْتُلُوْ نَتِیْ ۗ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَ عْدَآءَ وَلٓاتَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔ ’’میری مان کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے۔ پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ میں مجھے شمار نہ کر‘‘۔ اب ان دونوں آیتوں کو جمع کر کے دیکھیے تو صورت واقعہ کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اس گمراہی سے روکنے کی پوری کوشش کی، مگر انہوں نے آنجناب کے خلاف سخت فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تل گۓ۔ مجبوراً آپ اس اندیشے سے خاموش ہو گۓ کہ کہیں حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے یہاں خانہ جنگی برپا نہ ہو جاۓ، اور وہ بعد میں آ کر شکایت کریں کہ تم اگر اس صورت حال سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تھے تو تم نے معاملات کو اس حد تک کیوں بگڑنے دیا، میرے آنے کا انتظار کیوں نہ کیا۔ سورہ اعراف والی آیت کے آخری فقرے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ قوم میں دونوں بھائیوں کے دشمنوں کی ایک تعداد موجود تھی۔ |
1 | ان آیات کے ترجمے میں ہم نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ حضرت موسیٰ چھوٹے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے بڑے تھے، اور حضرت ہارون بڑے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔ |