Ayats Found (2)
Surah 48 : Ayat 28
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدًا
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے1
1 | اس مقام پر یہ بات ارشاد فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ میں جب معاہدہ صلح لکھا جانے لگا تھا اس وقت کفار مکہ نے حضور کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ لکھنے پر اعتراض کیا تھا اور ان کے اصرار پر حضورؐ نے خود معاہدے کی تحریر میں سے یہ الفاظ مٹا دیے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہمارے رسول کا رسول ہونا تو ایک حقیقت ہے جس میں کسی کے ماننے یا نہ ماننےسے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس کو اگر کچھ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ اس کے حقیقت ہونے پر صرف ہماری شہادت کافی ہے۔ ان کے انکار کردینےسے یہ حقیقت بدل نہیں جاۓ گی، بلکہ ان کے علی الرَّغم اس ہدایت اور س دین حق کو پوری جنس دین پر غلبہ حاصل ہو کر رہے گا جسےلے کر یہ رسول ہماری طرف سے آیا ہے، خواہ یہ منکرین سے روکنے کے لیے کتنا ہی زور مار کر دیکھ لیں۔ ’’پوری جنس دین‘‘سے مراد زندگی کے وہ تمام نظام ہیں جو ’’ دین‘‘ کی نوعیت رکھتے ہیں۔ اس کی مفصل تشریح ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن، جلد چہارم ، تفسیر سورہ زمر، حاشیہ 3، اور تفسیر سورہ شوریٰ حاشیہ 20 میں کر چکے ہیں ۔ یہاں جو بات اللہ تعلایٰ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کا مقصد محض اس دین کی تبلیغ نہ تھا بلکہ اسے دین کی نوعیت رکنے والے تمام نظامات زندگی پر غالب کر دینا تھا۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ دین اس لیے نہیں لاۓ تھے کہ زندگی کے سارےشعبوں پر غلبہ تو ہو کسی دین باطل کا اور اس کی قہر مانی کے تحت یہ دین ان حدود کے اندر سکڑ کر رہے جن میں دین غالب اسے جینے کی اجازت دے دے۔ بلکہ اسے آپ اسلیے لاۓ تھے کہ زندگی کا غالب دین یہ ہو اور دوسرا کوئی دین اگر جیے بھی تو ان حدود کے اندر جیے جن میں یہ اسے جینے کی اجازت دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القران، جلد چہارم، تفسیر سورہ زمر، حاشیہ48) |
Surah 9 : Ayat 33
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے1 خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو
1 | متن میں”الدین“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ”جنس دین“ کیا ہے۔ دین کا لفظ ، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، عربی زبان میں اُس نظامِ زندگی یا طریقِ زندگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے قائم کرنے والے کو سند اور مُطاع تسلیم کر کے اس کا اتباع کیا جائے۔ پس بعثتِ رسول کی غرض اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اور دینِ حق کو وہ خدا کیطرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام طریقوں اور نظاموں پر غالب کر دے۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظامِ زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے۔ بلکہ وہ بادشاہِ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آیا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظامِ حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے ۔ اگر کوئی دوسرا نظامِ زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظامِ زندگی رہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو المزمر، حاشیہ ۳، المومن، حاشیہ ۴۳ – الشوریٰ حاشیہ ۲۰) |