Ayats Found (4)
Surah 16 : Ayat 41
وَٱلَّذِينَ هَاجَرُواْ فِى ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُواْ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةًۖ وَلَأَجْرُ ٱلْأَخِرَةِ أَكْبَرُۚ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ
جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے1 کاش جان لیں وہ مظلوم
1 | یہ اشارہ ہے اُس مہاجرین کی طرف جو کفار کے ناقابلِ برداشت مظالم سے تنگ آکر مکّے سے حبش کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ منکرینِ آخرت کی بات کا جواب دینے کے بعد یکایک مہاجرین ِحبشہ کا ذکر چھیڑ دینے میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ اِس سے مقصود کفارمکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ ظالمو! یہ جفاکاریاں کرنے کے بعد اب تم سمجھتے ہوکہ کبھی تم سے باز پرس اور مظلوموں کی داد رسی کا وقت ہی نہ آئے گا۔ |
Surah 16 : Ayat 42
ٱلَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)
Surah 24 : Ayat 55
وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ كَمَا ٱسْتَخْلَفَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ ٱلَّذِى ٱرْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًاۚ يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ بِى شَيْــًٔاۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٲلِكَ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں1 اور جو اس کے بعد کفر کرے2 تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں
2 | کفر سے مراد یہاں کفران نعمت بھی ہو سکتا ہے اور انکارِ حق بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق وہ لوگ ہوں گے جو نعمت خلافت پانے کے بعد طریق حق سے ہٹ جائیں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق منافقین ہوں گے جو اللہ کا یہ وعدہ سن لینے کے بعد بھی اپنی منافقانہ روش نہ چھوڑیں |
1 | جیسا کہ اس سلسلہ کلام کے آغاز میں ہم اشارہ کر چکے ہیں ، اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں ، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں ، اللہ کے پسندیدہ دین کا تباع کرنے والے ہوں ، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابندگی و غلامی کی پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔ بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و نمکُّن کے معنی میں لے لیتے ہیں ، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگی حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے ، اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیں کہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان ، صلاح ، دین حق، عبادت الٰہی اور شرک، ہر چیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو ان کے اس نظریے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے۔ اس نے قرآن کی ایک آیت کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اسلام کی کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لا محالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنہوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تَمکُّن پایا ہے یا آج پاۓ ہوۓ ہیں ، خواہ وہ خدا، وحی، رسالت ، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق و فجور کی ان تمام آلائشوں میں بری طرح لتھڑے ہوۓ ہوں جنہیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے ، جیسے سود، زنا ، شراب اور جوا۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گۓ ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے ، اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں ؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت و سیاست میں خوب ترقی کی جاۓ ؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جاۓ جو انفرادی اور اجتماعی سعی و جہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً سفید اور ضروری ہیں ؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نا رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد و ضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان وہ طریقے بھی اختیار کر لے ؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی، ایمان اور عمل صالح اور دین حق اور عبادت الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں ؟ یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتا ہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوۓ ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہٰ ، اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ ہدایت، اور اس کے مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے ، اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوۓ کام کریں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح و صاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمانداری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑ سکتا ہے جن میں آیت استخلاف کے یہ نۓ مفسرین مبتلا ہوۓ ہیں۔ حالانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انہوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے ، قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا۔ قرآن در اصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق و سباق سے پتہ چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بو لا گیا ہے : اس کے ایک معنی ہیں ’’خدا کے دیے ہوۓ اختیارات کا حامل ہونا‘‘ اس معنی میں پوری اولاد آدم زمین میں خلیفہ ہے۔ دوسرے معنی ہیں ’’خدا کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوۓ اس کے امر شرعی (نہ کہ محض امر تکوینی) کے تحت اختیارات خلافت کو استعمال کرنا‘‘۔ اس معنی میں صرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے ، کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے۔ اور اس کے برعکس کافر و فاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے ، کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوۓ اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے۔ تیسرے معنی ہیں ’’ ایک دور کی غالب قوم کے بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا‘‘۔ پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی ’’نیابت‘‘ سے ماخوذ ہیں ، اور یہ آخر یہ معنی خلافت بمعنی ’’جانشینی‘‘ سے ماخوذ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت عرب میں معلوم و معروف ہیں۔ اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں آیت استخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جوہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار ، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ای لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین ، یعنی اسلام ، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جاۓ گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جا رہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پاۓ۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چو راہے پر لے پہنچنا اور امریکہ سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں بج رہا ہو اس کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،الانبیاء، حاشیہ 99)۔ اس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں موجود تھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت خود و صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدائش کی زمین ہی میں نہیں ، کرۂ زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہ ہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انہوں نے حضرت عمر کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں : ’’اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید و نصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم وے تو اللہ خود فرما چکا ہے وَعَدَاللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا مِنْکُمْ وَعَمِلُو االصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ ............ اللہ اس وعدے کو پورا کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔ اسلام میں قیم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں۔ مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں ے ہٹ گۓ تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہو جاۓ گا اور نوبت یہ آ جاۓ گا اور نوبت یہ آ جاۓ گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہو گی۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے ، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے ، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈ آۓ ہیں ، تو اس کو جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں ، بلکہ اللہ کی تائید و نصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے ‘‘۔ دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت استخلاف کا مصداق ٹھیرا رہے ہیں |
Surah 48 : Ayat 27
لَّقَدْ صَدَقَ ٱللَّهُ رَسُولَهُ ٱلرُّءْيَا بِٱلْحَقِّۖ لَتَدْخُلُنَّ ٱلْمَسْجِدَ ٱلْحَرَامَ إِن شَآءَ ٱللَّهُ ءَامِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُواْ فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٲلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا
فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھا یا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے 1مطابق تھا2 انشاءاللہ تم ضرور مسجد حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہو گے3، اپنے سر منڈواؤ گے اور بال ترشواؤ گے4، اور تمہیں کوئی خوف نہ ہو گا وہ اُس بات کو جانتا تھا جسے تم نہ جانتے تھے اس لیے وہ خواب پورا ہونے سے پہلے اُس نے یہ قریبی فتح تم کو عطا فرما دی
4 | یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عمرے اور حج میں سر منڈوانا لازم نہیں ہے بلکہ بال ترشوانا بھی جائز ہے۔ البتہ مر منڈوانا افضل ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلے بیان فرمایا ہے او بال ترشوانے کا ذکر بعد میں کیا ہے |
3 | یہ وعدہ اگلے سال ذی القعدہ 7ھ میں پورا ہوا ۔ تاریخ میں یہ عمرہ عمرۃ القضاء کے نام سے مشہور ہے |
2 | یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کے الفاظ جو استعمال فرماۓ ہیں، اس پر ایک معترض یہ سوال کرسکتا ہے کہ جب یہ وعدہ اللہ تعالیٰ خود ہی فرما رہا ہے تو اس کو اللہ کے چاہنے سے مشروط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ الفاظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوۓ ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہے گا تو اپنا یہ وعدہ پورا نہ کرے گا ۔ بلکہ در اصل ان کا تعلق اس پس منظر سے ہے جس میں یہ وعدہ فرمایا گیا ہے۔ کہ کفار مکہ نے جس زعم کی بنا پر مسلمانوں کو عمرے سے روکنے کا یہ سارا کھیل کھیلا تھا وہ یہ تھا کہ جس کو ہم عمرہ کرنے دینا چاہیں گے وہ عمرہ کر سکے گا، اور جب ہم اسے کرنے دیں گے اسی وقت وہ کر سکے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی مشیت پر نہیں بلکہ ہماری مشیت پر موقوف ہے۔ اس سال عمرے کا نہ ہو سکنا اس لیے نہیں ہوا کہ کفار مکہ نے یہ چاہا تھا کہ وہ نہ ہو، بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے اس کے نہ ہونے دینا چاہا تھا ۔ اور آئندہ یہ عمرہ اگر ہم چاہیں گے تو ہو گا خواہ کفار چاہیں یا نہ چاہیں۔ اس کے ساتھ ان الفاظ میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ مسلمان بھی جو عمرہ کریں گے تو اپنے زور سے نہیں کریں گے بلکہ اس بنا پر کریں گے کہ ہماری مشیت یہ ہوگی کہ وہ عمرہ کریں۔ ورنہ ہماری مشیت اگر اس کے خلاف ہو تو ان کا یہ بل ہوتا نہیں ہے کہ خود عمرہ کر ڈالیں |
1 | یہ اس سوال کا جواب ہے جو بار بار مسلمانوں کے دلوں میں کھٹک رہا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب تو یہ دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہوۓ ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم عمرہ کیے بغیر واپس جا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما دیا تھا کہ خواب میں اسی سال عمرہ ہونے کی تصریح تو نہ تھی، مگر اس کے باوجود ابھی تک کچھ نہ کچھ خلش دلوں میں باقی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود یہ وضاحت فرمائی کہ وہ خواب ہم نے دکھایا تھا، اور وہ بالکل سچا تھا ، اور وہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا |