Ayats Found (3)
Surah 17 : Ayat 29
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ ٱلْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ1
1 | ہاتھ باندھنا ہی استعارہ ہے بخل کےلیے، اور اسے کھلا چھوڑ دینے سے مراد ہےفضول خرچی۔ دفعہ ۴ کے ساتھ دفعہ٦ کے اس فقرے کو ملا کر پڑھنے سےمنشاہ صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اتنا اعتدال ہونا چاہیے کہ وہ نہ بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بن کر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ اس کے برعکس ان کے اندر توازن کی ایسی صحیح حس موجود ہونی چاہیے کہ وہ بجا خرچ سے باز بھی نہ رہیں اور بیجا خرچ کی خرابیوں میں مبتلا بھی نہ ہو۔ فخر اور ریا اور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ، اور تمام ایسے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہادیں، دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔ یہ دفعات بھی محض اخلاقی تعلیم اور انفرادی ہدایات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صاف اشارہ اس بات کی طرف کر رہی ہیں۔ کہ ایک صالح معاشرے کو اخلاقی تربیت، اجتماعی دباؤ اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ سے بے جا صرف ِمال کی روک تھام کرنی چاہیے۔چنانچہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کی ریاست میں ان دونوں دفعات کےمنشا کی صحیح ترجمانی مختلف عملی طریقوں سے کی گئی۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بے جا سرف مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف معاشرتی اصلاح کے ذریعہ سےاُن بہت سی رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی تھیں۔ پھر حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایاں صورتوں کو اپنے انتظامی احکام کے ذریعہ سے روک دے۔ اسی طرح زکوٰة و صدقات کے احکام سے بخل کا زور بھی توڑا گیا اور اس امر کے امکانات باقی نہ رہنے دیےگئے کہ لوگ زراندوزی کر کے دولت کی گردش کو روک دیں۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام نے بخیلوں کو ذلیل کیا۔اعتدال پسندوں کو معزز بنایا۔ فضول خرچوں کو ملامت کی اور فیاض لوگوں کو پوری سوسائٹی کا گِل سرِسَبَد قرار دیا۔ اس وقت کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا یہ اثر آج تک مسلم معاشرے میں موجود ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں کنجوسوں اور زراندوزوں کو بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور سخی انسان آج بھی ان کی نگاہ میں معزز و محترم ہے۔ |
Surah 90 : Ayat 13
فَكُّ رَقَبَةٍ
کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا
Surah 111 : Ayat 5
فِى جِيدِهَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدِۭ
اُس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی1
1 | اُس کی گردن کے لیے جِید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ایسی گردن کے لیے بو لا جاتا ہے جس میں زیور پہنا گیا ہو۔ سعید بن المُسَیَّب، حسن بصری اور قَتادہ کہتے ہیں کہ وہ ایک بہت قیمتی ہار گردن میں پہنتی تھی ، اور کہا کرتی تھی کہ لات اور عُزّیٰ کی قسم میں اپنا یہ ہار بیچ کر اس کی قیمت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عداوت میں خرچ کر دوں گی۔ اسی بنا پر جید کا لفظ یہاں بطورِ طنز استعمال کیا گیا ہے کہ اِس مزیّن گلے میں، جس کے ہار پر وہ فخر کرتی ہے، دوزخ میں رسّی پڑی ہو گی۔ یہ اسی طرح کا طنز یّہ اندازِ کلام ہے جیسے قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر فرما یا گیا ہے بَشِّرْ ھُمْ بَعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۔ ‘‘، اُن کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔ جو رسّی اس کی گردن میں ڈالی جائے گی اس کے لیے حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ ۔ ‘‘کے الفاظ استعمال کیے ہیں، یعنی وہ رَسّی مَسَد کی قِسم سے ہو گی۔ اِس کے مختلف معنی اہلِ لغت اور مفسّرین نے بیان کیے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ خوب مضبوط بٹی ہوئی رَسّی کو مسد کہتے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ کھجور کی چھال سے بنی ہوئی رَسّی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں مونجھ کی رسّی یا اونٹ کی کھال یا اس کے صوف سے بنی ہوئی رسّی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد لوہے کے تاروں سے بٹی ہوئی رسّی ہے |