Ayats Found (2)
Surah 28 : Ayat 85
إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍۚ قُل رَّبِّىٓ أَعْلَمُ مَن جَآءَ بِٱلْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
اے نبیؐ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے1 وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے2 اِن لوگوں سے کہہ دو کہ "میرا رب خُوب جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھُلی گمراہی میں کون مُبتلا ہے"
2 | اصل الفاظ ہیں لَرَآدُّکَ اِلٰیمَعَادِِ’’تمہیں ایک معاد کی طرف پھیرنے والا ہے‘‘۔ معاد کےلغوی معنی ہیں وہ مقام جس کی طرف آخر کارآدمی کوپلٹنا ہو۔ اوراسے نکرہ استعمال کرنےسے اس میں خود بخود یہ مفہوم پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ مقام بڑی شان اورعظمت کامقام ہے۔ بعض مفسرین نےاس سے مراد جنت لی ہے۔ لیکن اسے صرف جنت کےساتھ مخصوص کردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ کیوں نہ اسے ویسا ہی عام رکھا جائے جیسا خوداللہ تعالٰی نےبیان فرمایا ہے۔تاکہ یہ وعدہ دنیا اورآخرت دونوں سےمتعلق ہوجائے۔ سیاق عبارت کااقتضاء بھی یہ ہے کہ اسےآخرت ہی میںنہیں اس دنیا میںبھی نبی ﷺ کوآخر کاربڑی شان عطاکرنے کاوعدہ سمجھاجائے۔ کفارمکہ کے جس قول پرآیت ۵۷ سےلےکر یہاں تک مسلسل گفتگو چلی آرہی ہے، اُس میں انہوں نےکہاتھا کہ اےمحمد (ﷺ)تم اپنے ساتھ ہمیں ڈوبناچاہتے ہو۔ اگر ہم تمہارا ساتھ دیں اوراس دین کواختیار کرلیںتوعرب کی سرزمین میں ہمارا جینا مشکل ہوجائے۔ اس کےجواب میں اللہ تعالیٰ اپنےنبی ﷺ سےفرماتا ہےکہ اےنبی ﷺ، جس خدانےاس قرآن کی علم برداری کابار تم پرڈالاہےوہ تمہیں برباد کرنےوالا نہیں ہے، بلکہ تم کواُس مرتبے پرپہنچانے والا ہے جس کاتصور بھی یہ لوگ آج نہیں کرسکتے۔ اورفی الواقع اللہ تعالٰی نےچند ہی سال بعد حضورﷺ کواس دنیا میں، اُنہی لوگوں کی آنکھوں کےسامنے تمام ملک عرب پرایسا مکمل اقتدار عطا کرکےرکھادیا کہ آپ کی مزاحمت کرنے والی کوئی طاقت وہان نہ ٹھیرسکی اورآپ کےدین کےسواکسی دین کےلیے وہاں گنجائش نہ رہی۔ عرب کی تاریخ میںاس سے پہلے کوئی نظیر اس کی موجودہ نہ تھی کہ پورے جزیرۃالعرب پرکسی ایک شخص کی ایسی بےغل وغش بادشاہی قائم ہوگئی ہوکہ ملک بھرمیں کوئی اس کامدمقابل باقی نہ رہاہو، کسی میںاس کےحکم سےسرتابی کایارانہ ہو، اورلوگ صرف سیاسی طور پرہی اس کےحلقہ بگوش نہ ہوئے ہوں بلکہ سارے دینوں کومٹاکراسی ایک شخص نےسب کو اپنے دین کاپیروبھی بنالیاہو۔بعض مفسرین نےیہ خیال ظاہر کیاہے کہ سورہ قصص کی ایک آیت مکہ سےمدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے راستہ میں نازل کوئی گنجائش اس امرکی نہیں ہےکہ ’’معاد‘‘ سے’’مکہ‘‘مراد لیاجائے۔ دوسرے، یہ سورۃ روایات کی رو سےبھی اوراپنے مضمون کی داخلی شہادت کےاعتبار سےبھی ہجرت حبشہ کےقریب زمانہ کی ہےاوریہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کئی سال بعد ہجرت مدینہ کےراستہ میں اگر یہ آیت نازل ہوئی تھی تواسے کسی مناسبت سےیہاں اس سیاق وسباق میں لاکر رکھ دیا گیا۔ تیسرے ، اس سیاق وسباق کے اندر مکہ کی طرف حضورﷺ کی واپسی کاذکر بالکل بےمحل نظرآتا پے۔ آیت کےیہ معنی اگر لیےجائیں تویہ کفارمکہ کی بات کاجواب نہیں بلکہ اُن کےعزر کواورتقویت پہنچانے والا ہوگا۔ اس کےمعنی یہ ہوں گ ے کہ بےشک اےاہل مکہ، تم ٹھیک کہتے ہو، محمدﷺ اس شہر سےنکال دیے جائیں گے، لیکن وہ مستقل طور پرجلاوطن نہیں رہیں گے، بلکی آخر کارہم انہیں اسی جگہ واپس لےآئیں گے۔ یہ روایت اگرچہ بخاری،نسائی، ابن جریراوردوسرے محدثین نےابن عباسؓ سے نقل کی ہے، لیکن یہ ہےابن عباسؓ کی اپنی ہی رائے۔ کوئی حدیث مرفوع نہیں ہےکہ اسے ماننالازم ہو۔ |
1 | یعنی اس قرآن کوخلق خداتک پنچانے اوراس کی تعلیم دینے اوراس کی ہدایت کےمطابق دنیا کی اصلاح کرنے ذمہ داری تم پرڈالی ہے۔ |
Surah 48 : Ayat 27
لَّقَدْ صَدَقَ ٱللَّهُ رَسُولَهُ ٱلرُّءْيَا بِٱلْحَقِّۖ لَتَدْخُلُنَّ ٱلْمَسْجِدَ ٱلْحَرَامَ إِن شَآءَ ٱللَّهُ ءَامِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُواْ فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٲلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا
فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھا یا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے 1مطابق تھا2 انشاءاللہ تم ضرور مسجد حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہو گے3، اپنے سر منڈواؤ گے اور بال ترشواؤ گے4، اور تمہیں کوئی خوف نہ ہو گا وہ اُس بات کو جانتا تھا جسے تم نہ جانتے تھے اس لیے وہ خواب پورا ہونے سے پہلے اُس نے یہ قریبی فتح تم کو عطا فرما دی
4 | یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عمرے اور حج میں سر منڈوانا لازم نہیں ہے بلکہ بال ترشوانا بھی جائز ہے۔ البتہ مر منڈوانا افضل ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلے بیان فرمایا ہے او بال ترشوانے کا ذکر بعد میں کیا ہے |
3 | یہ وعدہ اگلے سال ذی القعدہ 7ھ میں پورا ہوا ۔ تاریخ میں یہ عمرہ عمرۃ القضاء کے نام سے مشہور ہے |
2 | یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کے الفاظ جو استعمال فرماۓ ہیں، اس پر ایک معترض یہ سوال کرسکتا ہے کہ جب یہ وعدہ اللہ تعالیٰ خود ہی فرما رہا ہے تو اس کو اللہ کے چاہنے سے مشروط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ الفاظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوۓ ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہے گا تو اپنا یہ وعدہ پورا نہ کرے گا ۔ بلکہ در اصل ان کا تعلق اس پس منظر سے ہے جس میں یہ وعدہ فرمایا گیا ہے۔ کہ کفار مکہ نے جس زعم کی بنا پر مسلمانوں کو عمرے سے روکنے کا یہ سارا کھیل کھیلا تھا وہ یہ تھا کہ جس کو ہم عمرہ کرنے دینا چاہیں گے وہ عمرہ کر سکے گا، اور جب ہم اسے کرنے دیں گے اسی وقت وہ کر سکے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی مشیت پر نہیں بلکہ ہماری مشیت پر موقوف ہے۔ اس سال عمرے کا نہ ہو سکنا اس لیے نہیں ہوا کہ کفار مکہ نے یہ چاہا تھا کہ وہ نہ ہو، بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے اس کے نہ ہونے دینا چاہا تھا ۔ اور آئندہ یہ عمرہ اگر ہم چاہیں گے تو ہو گا خواہ کفار چاہیں یا نہ چاہیں۔ اس کے ساتھ ان الفاظ میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ مسلمان بھی جو عمرہ کریں گے تو اپنے زور سے نہیں کریں گے بلکہ اس بنا پر کریں گے کہ ہماری مشیت یہ ہوگی کہ وہ عمرہ کریں۔ ورنہ ہماری مشیت اگر اس کے خلاف ہو تو ان کا یہ بل ہوتا نہیں ہے کہ خود عمرہ کر ڈالیں |
1 | یہ اس سوال کا جواب ہے جو بار بار مسلمانوں کے دلوں میں کھٹک رہا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب تو یہ دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہوۓ ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم عمرہ کیے بغیر واپس جا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما دیا تھا کہ خواب میں اسی سال عمرہ ہونے کی تصریح تو نہ تھی، مگر اس کے باوجود ابھی تک کچھ نہ کچھ خلش دلوں میں باقی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود یہ وضاحت فرمائی کہ وہ خواب ہم نے دکھایا تھا، اور وہ بالکل سچا تھا ، اور وہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا |