Ayats Found (4)
Surah 29 : Ayat 48
وَمَا كُنتَ تَتْلُواْ مِن قَبْلِهِۦ مِن كِتَـٰبٍ وَلَا تَخُطُّهُۥ بِيَمِينِكَۖ إِذًا لَّٱرْتَابَ ٱلْمُبْطِلُونَ
(اے نبیؐ) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے
Surah 29 : Ayat 51
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور کیا اِن لوگوں کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو اِنہیں پڑھ کر سُنائی جاتی ہے؟1 در حقیقت اِس میں رحمت ہے اور نصیحت ہے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں2
2 | یعنی بلاشبہ اس کتاب کا نزول اللہ تعالٰی کی بہت بڑی مہربانی ہے اور یہ بندوں کے لیے بڑی پندو نصیحت پر مشتمل ہے، مگر اس کا فائدہ صرف وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو اس پر ایمان لائیں۔ |
1 | یعنی اُمی ہونے کے باوجود تم پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا، کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ تمہاری رسالت پر یقین لانے کے لیے یہ کافی ہو؟ اس کے بعد بھی کسی اور معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ دوسرے معجزے تو جنہوں نے دیکھے ان کے لیے وہ معجزے تھے۔ مگر یہ معجزہ تو ہر وقت تمہارے سامنے ہے۔ تمہیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔ تم ہر وقت اسے دیکھ سکتے ہو۔ قرآن مجید کےاس بیان و استدلال کے بعد اُن لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی ﷺ کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضورﷺ کے ناخواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضورﷺ لکھے پڑھے تھے، یا بعد میں آپﷺ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا وہ اوّل تو پہلی نظر میں رد کر دینے کے لائق ہیں کہ کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ پھر وہ بجائے خود بھی اتنی کمزور ہیں کہ ان پر کسی استدلال کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے ایک، بخاری کی یہ روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھا جا رہا تھا تو کفارِ مکہ کے نمائندے نے رسولﷺ کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھے جانے پر اعتراض کیا۔ اس پر حضورﷺ نے کاتب ( یعنی حضرت علیؓ ) کو حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمدﷺ بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت علیؓ نے لفظ رسول اللہ کاٹنے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضور ﷺ نے ان کے ہاتھ سے قلم لے کر وہ الفاظ خود کاٹ دیے اور محإدﷺ بن عبداللہ لکھ دیا۔ لیکن یہ روایت براء بن عارب سے بخاری میں چار جگہ اور مسلم میں دو جگہ وارد ہوئی ہے اور ہر جگہ الفاظ مختلف ہیں: (۱) بخاری کتاب الصلح میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال لعلی احہ فقال علی ما انا بالذی امحاہ فمحاہ رسول اللہ بیدہ۔ حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا یہ الفاظ کاٹ دو، انہوں نے عرض کیا میں تو نہیں کاٹ سکتا۔ آخر کار حضورﷺ نے اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ دیا۔ (۲) اسی کتاب میں دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ثم قال لعلی امح رسول اللہ قال لا واللہ لا امحوک ابدا فا خذ رسول اللہ الکتاب فکتب ھٰذا ماقاضٰی علیہ محمد بن عبداللہ۔ پھر علیؓ سے کہا رسول اللہ کاٹ دو۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں آپ کا نام کبھی نہ کاٹوں گا۔ آخر حضورﷺ نے تحریر کے کر لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدﷺ بن عبداللہ نے طے کیا۔ (۳) تیسری روایت انہی براء بن عازب سے بخاری کتاب الجزیہ میں یہ ہے: وکان لا یکتب فقال لعلی امح رسول اللہ فقال علی واللہ لا امحاہ ابدًا قال فارنیہ قال فاراہ ایاہ فمحاہ انبی ﷺ بیدہ۔ حضورﷺ خود نہ لکھ ستکے تھے۔ آپ نے حضرت علیؓ سے کہا رسول اللہ کاٹ دو۔ انہوں نے عرض کیا خدا کی قسم میں یہ الفاظ ہرگز نہ کاٹوں گا۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں یہ الفاظ لکھے ہیں۔ انہوں نے آپ کو جگہ بتائی اور آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ الفاظ کاٹ دیے۔ (۴) چوتھی روایت بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے: فاخذ رسول اللہ ﷺ الکتاب ولیلس یحسن یکتب فکتب ھٰذا ماتا فعٰی محمد بن عبداللہ نے طے کیا۔ (۵) انہی براء بن عازب سے مسلم کتاب الجہاد میں ایک روایت یہ ہے کہ حجرت علیؓ کے انکار کرنے پر حضورﷺ نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کےالفاظ مٹادیے۔ (۶) دوسری روایت انہی کتاب میں ان سے یہ منقول ہے کہ حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا مجھے بتاؤ رسول اللہ کا لفط کہاں لکھا ہے، حضرت علیؓ نے آپ کو جگہ بتائی، اور آپ نے اسے مٹا کر ابن عبداللہ لکھ دیا۔ روایات کا یہ اضطراب صاف بتا رہا ہے کہ بیج کے رادیوں نے حضرت براء بن عازب ؓ کے الفاظ جوں کے توں نقل نہیں کیے ہیں، اس لیے ان میں سے کسی ایک کی نقل پر بھی ایسا مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ یقینی طور پر یہ کہا جا سکے کہ حضورﷺ نے محمد بن عبداللہ کے الفاظ اپنے دستِ مبارک ہی سے لکھے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علیؓ نے رسول اللہ کا لفظ مٹانے سے انکار کر دیا تو آپﷺ نے اس کی جگہ اُن سے پوچھ کر یہ لفظ اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ہو اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبداللہ کے الفاظ لکھوا دیے ہوں۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر صلح نامہ دو کاتب لکھ رہے تھے۔ ایک حضرت علیؓ، دوسرے محمد مَسکمہَ ( فتح الباری، جلد ۵، ص۲۱۷ )۔ اس لیے یہ امر بعید نہیں ہے کہ جو کام ایک کاتب نے نہ کیا تھا وہ دوسرے کاتب سے لے لیا گیا ہو۔ تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضورﷺ نے اپنا نام اپنے ہی دستِ مبارک سے لکھا ہو، تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں، باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ دوسری روایت جس کی بنا پر نبیﷺ کے خواندہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے مجاہد سے ابن ابی شَیَبَہ اور عمر بن شبہ نے نقل کی ہے۔ اس کے الفاط یہ ہیں کہ ما مات رسول اللہ ﷺ حق کتب وراٴ۔ (رسول اللہ ﷺ اپنی وفات سے پہلے لکھنا پڑھنا سیکھ چکے تھے) لیکن اوّل تو یہ سنداً بہت ضعیف روایت ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں فضعیف لا اصل لہ۔ دوسرے اس کی کمزوری یوں بھی واضح ہے کہ اگر حضورﷺ نے فی الواقع بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو یہ بات مشہور ہو جاتی، بہت سے صحابہ اس کو روایت کرتے اور یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ حضورﷺ نے کس شخص سے یہ تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن سوائے ایک عَون بن عبداللہ کے، جن سے مجاہد نے یہ بات سنی، اور کوئی شخص اسے روایت نہیں کرتا۔ اور یہ عون بھی صحابی نہیں بابعی میں جنہوں نے قطعاً یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس صحابی یا کن صحابیوں سے اس واقعہ کا علم حاصل ہوا۔ ظاہر ہے کہ ایسی کمزور روایتوں کی بنیاد پر کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیں ہو سکتی جو مشہور معروف واقعات کی تردید کر تی ہو۔ |
Surah 42 : Ayat 52
وَكَذَٲلِكَ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَاۚ مَا كُنتَ تَدْرِى مَا ٱلْكِتَـٰبُ وَلَا ٱلْإِيمَـٰنُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَـٰهُ نُورًا نَّهْدِى بِهِۦ مَن نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَاۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِىٓ إِلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور اِسی طرح (اے محمدؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے1 تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے2، مگر اُس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو
2 | یعنی نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کبھی حضورؐ کے ذہن میں یہ تصور تک نہ آیا تھا کہ آپ کو کوئی کتاب ملنے والی ہے ، یا ملنی چاہیے ، بلکہ آپ سرے سے کتب آسمانی اور ان کے مضامین کے متعلق کچھ جانتے ہی نہ تھے۔ اسی طرح آپ کو اللہ پر ایمان تو ضرو حاصل تھا۔ مگر آپ نہ شعوری طور پر اس تفصیل سے واقف تھے کہ انسان کو اللہ کے متعلق کیا کیا باتیں ماننی چاہییں ، اور نہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ اس کے ساتھ ملائکہ اور نبوت اور کتب الہٰی اور آخرت کے متعلق بھی بہت سے باتوں کا ماننا ضروری ہے۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جو خود کفار مکہ سے بھی چھپی ہوئی نہ تھیں۔ مکہ معظمہ کا کوئی شخص یہ شہادت نہ دے سکتا تھا کہ اس نے نبوت کے اچانک اعلان سے پہلے کسی حضورؐ کی زبان سے کتاب الہٰی کا کوئی ذکر سنا ہو، یا آپ سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہو کہ لوگوں کو فلاں فلاں چیزوں پر ایمان لانا چاہیے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے سے خود نبی بن بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہو تو اسکی یہ حالت تو کبھی نہیں ہو سکتی کہ چالیس سال تک اس کے ساتھ شب و روز کا میل جول رکھنے والے اس کی زبان سے کتاب اور ایمان کا لفظ تک نہ سنیں ، اور چالیس سال کے بعد یکایک وہ انہی موضوعات پر دھواں دھار تقریریں کرنے لگے |
1 | ’’ اسی طرح‘‘ سے مراد محض آخری طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ تینوں طریقے ہیں جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوۓ ہیں۔ اور ’’ روح‘‘ سے مراد وحی ، یا وہ تعلیم ہے جو وحی کے ذریعہ سے حضورؐ کو دی گئی۔ یہ بات قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان تینوں طریقوں سے ہدایات دی گئی ہیں : 1)۔ حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آنے کی ابتداء ہی سچے خوابوں سے ہوئی تھی (بخاری و مسلم)۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا ہے ، چنانچہ احادیث میں آپ کے بہت سے خوابوں کا ذکر ملتا ہے جن میں آپ کو کوئی تعلیم دی گئی ہے یا کسی بات پر مطلع کیا گیا ہے ، اور قرآن مجید میں بھی آپ کے ایک خواب کا صراحت کے ساتھ ذکر آیا ہے (الفتح، آیت 27)۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، فلاں بات میرے دل میں ڈالی گئی ہے ، یا مجھے یہ بتایا گیا ہے ، یا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے ، یا مجھے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسی تمام چیزیں وحی کی پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ، اور احادیث قدسیہ بھی زیادہ تر اسی قبیل سے ہیں۔ 2)۔ معراج کے موقع پر حضورؐ کو وحی کی دوسری قسم سے بھی مشرف فرمایا گیا۔ متعدد صحیح احادیث میں حضورؐ کو پنج وقتہ نماز کو حکم دیے جانے ، اور حضورؐ کے اُس پر بار بار عرض معروض کرنے کا ذکر جس طرح آیا ہے اُس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت اللہ اور اُس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان ویسا ہی مکالمہ ہو تھا جیسا دامن طور میں حضرت موسیٰؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوا۔ 3)۔ رہی تیسری قسم، تو اُس کے متعلق قرآن خود ہی شہادت دیتا ہے کہ اسے جبریل امین کے ذریعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا گیا ہے (البقرہ ، 97۔ الشعراء، 192 تا 195) |
Surah 42 : Ayat 53
صِرَٲطِ ٱللَّهِ ٱلَّذِى لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ أَلَآ إِلَى ٱللَّهِ تَصِيرُ ٱلْأُمُورُ
اُس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے خبردار رہو، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں1
1 | یہ آخری تنبیہ ہے جو کفار کو دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی نے کہا اور تم نے سن کر رد کر دیا، اس پر بات ختم نہیں ہو جانی ہے ۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور آخر کار اسی کے دربار سے یہ فیصلہ ہونا ہے کہ کس کا کیا انجام ہونا چاہیے |