Ayats Found (20)
Surah 10 : Ayat 12
وَإِذَا مَسَّ ٱلْإِنسَـٰنَ ٱلضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۢبِهِۦٓ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَآئِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُۥ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَآ إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُۥۚ كَذَٲلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں
Surah 10 : Ayat 21
وَإِذَآ أَذَقْنَا ٱلنَّاسَ رَحْمَةً مِّنۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِىٓ ءَايَاتِنَاۚ قُلِ ٱللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًاۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ
لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں1 ان سے کہو “اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری سب مکّاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں 2"
2 | اللہ کی چال سے مراد یہ ہے کہ اگر تم حقیقت کو نہیں مانتے اور اس کے مطابق اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اسی باغیانہ روش پر چلتے رہنے کی چھوٹ دے دے گا، تم کو جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشۂ زندگانی یونہی تمہیں مست کیے رکھے گا، اور اس مستی کے دوران جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ بیٹھے لکھتے رہیں گے، حتیٰ کہ اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے کرتُوتوں کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤگے۔ |
1 | یہ پھر اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آیات ۱۱ – ۱۲ میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم نشانی آخر کس منہ سے مانگتے ہو۔ ابھی جو قحط تم پر گزرا ہے اس میں تم اپنے اُن معبودوں سے مایوس ہو گئے تھے جنہیں تم نے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی ٹھیرا رکھا تھا اور جن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ فلاں آستانے کی نیاز تو تیر بہدف ہے۔ اور فلاں درگاہ پر چڑھاوا چڑھانے کی دیر ہے کہ مراد بر آتی ہے۔ تم نے دیکھ لیا کہ ان نام نہاد خداؤں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سارے اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے۔ اسی وجہ سے تو آخرکار تم اللہ ہی سے دعائیں مانگنے لگے تھے۔ کیا یہ کافی نشانی نہ تھی کہ تمہیں اُس تعلیم کے برحق ہونے کا یقین آجاتا جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تم کو دے رہے ہیں؟ مگراس نشانی کو دیکھ کر تم نے کیاکیا؟ جونہی کہ قحط دور ہوا اور بارانِ رحمت نے تمہاری مصیبت کا خاتمہ کر دیا، تم نے اس بلا کے آنے اور پھر اس کے دُور ہونے کے متعلق ہزار قسم کی توجیہیں اور تاویلیں (چالبازیاں) کرنی شروع کر دیں تاکہ توحید کے ماننے سے بچ سکو اور اپنے شرک پر جمے رہ سکو۔ اب جن لوگوں نے اپنے ضمیر کو اس درجہ خراب کر لیا ہو انہیں آخر کونسی نشانی دکھائی جائے اور اس کے دکھانے سے حاصل کیا ہے؟ |
Surah 11 : Ayat 9
وَلَئِنْ أَذَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَـٰهَا مِنْهُ إِنَّهُۥ لَيَــُٔوسٌ كَفُورٌ
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے
Surah 14 : Ayat 34
وَءَاتَـٰكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُۚ وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآۗ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا1 اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے
1 | یعنی تمہاری فطرت کی ہر مانگ پوری کی، تمہاری زندگی کے لیے جو جو کچھ مطلوب تھا مہیا کیا ، تمہارے بقا اور ارتقاء کے لیے جن جن وسائل کی ضرورت تھی سب فراہم کیے |
Surah 22 : Ayat 66
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْۗ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَكَفُورٌ
وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی ہے، وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی منکرِ حق ہے1
1 | یعنی یہ سب کچھ دیکھتے ہوۓ بھی اس حقیقت کا انکار کیے جاتا ہے جسے انبیاء علیہم السلام نے پیش کیا ہے |
Surah 43 : Ayat 15
وَجَعَلُواْ لَهُۥ مِنْ عِبَادِهِۦ جُزْءًاۚ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ
(یہ سب کچھ جانتے اور مانتے ہوئے بھی) اِن لوگوں نے اُس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا1، حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے
1 | جُزء بنا دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے کسی بندے کو اس کی اولاد قرار دیا جاۓ، کیونکہ اولاد و لامحالہ باپ کی ہم جنس اور اس کے وجود کا یک جزء ہوتی ہے ، اور کسی شخص کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی کہنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اسے اللہ کی ذات میں شریک کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ کسی مخلوق کو اللہ کا جزء بنانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اسے ان صفات اور اختیارات کا حامل قرار دیا جاۓ جو اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں ، اور اسی تصور کے تحت اس سے دعائیں مانگ جائیں، یا اس کے آگے عبودیت کے مراسم ادا کیے جائیں ، یا اس کی تحریم و تحلیل کو شریعت واجب الاتباع ٹھیرا لیا جاۓ ۔ کیونکہ اس صورت میں آدمی اُلوہیت و ربوبیت کا اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان بانٹتا ہے اور اس کا ایک جز بندوں کے حوالے کر دیتا ہے |
Surah 30 : Ayat 33
وَإِذَا مَسَّ ٱلنَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْاْ رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَآ أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتے ہیں1، پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انہیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں2
2 | یعنی پھردوسرے معبودوں کی نذریں اورنیازیں چڑھنی شروع ہوجاتی ہیں اورکہا جانےلگتا ہےکہ یہ مصیبت فلاں حضرت کے طفیل اورفلاں آستانےکےصدقےمیں ٹلی ہے۔ |
1 | یہ اس بات کی کھلی دلیل ہےکہ ان کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔اُمیدوں کے سہارے جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں،ان کادل خود ہی اندرسےپکارنے لگتا ہےکہ اصل فرمانروائی کائنات کے مالک ہی کی ہےاوراسی کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے۔ |
Surah 17 : Ayat 67
وَإِذَا مَسَّكُمُ ٱلضُّرُّ فِى ٱلْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّآ إِيَّاهُۖ فَلَمَّا نَجَّـٰكُمْ إِلَى ٱلْبَرِّ أَعْرَضْتُمْۚ وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ كَفُورًا
جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہو جاتے ہیں1، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے
1 | یعنی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہاری اصلی فطرت ایک خدا کے سوا کسی رب کو نہیں جانتی، اور تمہارے اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ شعور موجود ہے کہ نفع و نقصان کے حقیقی اختیارات کا مالک بس وہی ایک ہے۔ ورنہ آخراس کی وجہ کیا ہے کہ جو اصل وقت دستگیری کا ہے اُس وقت تم کو ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا دستگیر نہیں سوجھتا؟مزید تفصیل کےلیے دیکھو سورۃ یونس حاشیہ ۳۱ |
Surah 39 : Ayat 8
۞ وَإِذَا مَسَّ ٱلْإِنسَـٰنَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُۥ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُۥ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِىَ مَا كَانَ يَدْعُوٓاْ إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِۦۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلاًۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَـٰبِ ٱلنَّارِ
انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے1 تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتا ہے2 پھر جب اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اُس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس پر وہ پہلے پکار رہا تھا 3اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھیراتا ہے4 تاکہ اُس کی راہ سے گمراہ کرے5 (اے نبیؐ) اُس سے کہو کہ تھوڑے دن اپنے کفر سے لطف اٹھا لے، یقیناً تو دوزخ میں جانے والا ہے
5 | یعنی خود گمراہ ہونے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو بھی یہ کہہ کہہ کر گمراہ کرتا ہے کہ جو آفت مجھ پر آئی تھی وہ فلاں حضرت یا فلاں دیوی یا دیوتا کے صدقے میں ٹل گئی۔ اس سے دوسرے بہت سے لوگ بھی ان معبود ان غیراللہ کے معتقد بن جاتے ہیں اور ہر جاہل اپنے اسی طرح کے تجربات بیان کر کر کے عوام کی اس گمراہی کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ |
4 | یعنی پھر دوسروں کی بندگی کرنے لگتا ہے۔ انہی کی اطاعت کرتا ہے، انہی سے دعائیں مانگتا ہے، اور انہی کے آگے نذر و نیاز پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ |
3 | یعنی وہ بُرا وقت پھر اسے یاد نہیں رہتا جس میں وہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہٗ لاشریک سے دعائیں مانگ رہا تھا |
2 | یعنی اس وقت اسے وہ دوسرے معبود یاد نہیں آتے جنہیں وہ اپنے اچھے حال میں پکارا کرتا تھا، بلکہ ان سب سے مایوس ہو کر وہ صرف اللہ ربّ العالمین کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں دوسرے معبودوں کے بے اختیار ہونے کا احساس رکھتا ہے اور اس حقیقت کا شعور بھی اس کے ذہن میں کہیں نہ کہیں دبا چھپا موجود ہے کہ اصل اختیارات کا مالک اللہ ہی ہے |
1 | انسان سے مراد یہاں وہ کافر انسان ہے جس نے ناشکری کی روش اختیار کر رکھی ہو |
Surah 39 : Ayat 49
فَإِذَا مَسَّ ٱلْإِنسَـٰنَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَـٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَآ أُوتِيتُهُۥ عَلَىٰ عِلْمِۭۚ بَلْ هِىَ فِتْنَةٌ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
یہی انسان1 جب ذرا سی مصیبت اِسے چھو جاتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، اور جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت دے کر اپھار دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے علم کی بنا پر دیا گیا ہے2! نہیں، بلکہ یہ آزمائش ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
2 | اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ جانتا ہے کہ میں اس نعمت کا اہل ہوں، اسی لیے اس نے مجھے یہ کچھ دیا ہے، ورنہ اگر اس کے نزدیک میں ایک بُرا عقیدہ اور غلط کار آدمی ہوتا تو مجھے یہ نعمتیں کیوں دیتا۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تو مجھے میری قابلیت کی بنا پر ملا ہے۔ |
1 | یعنی جسے اللہ کے نام سے چڑ ہے اور اکیلے اللہ کا ذکر سُن کر جس کا چہرہ بگڑنے لگتا ہے۔ |