Ayats Found (4)
Surah 6 : Ayat 19
قُلْ أَىُّ شَىْءٍ أَكْبَرُ شَهَـٰدَةًۖ قُلِ ٱللَّهُۖ شَهِيدُۢ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْۚ وَأُوحِىَ إِلَىَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ لِأُنذِرَكُم بِهِۦ وَمَنۢ بَلَغَۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ ٱللَّهِ ءَالِهَةً أُخْرَىٰۚ قُل لَّآ أَشْهَدُۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَٲحِدٌ وَإِنَّنِى بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے1، اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں2؟ کہو، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا کہو3، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو
3 | یعنی اگر تم علم کے بغیر محض جھُوٹی شہادت دینا چاہتے ہو تو دو، میں تو ایسی شہادت نہیں دے سکتا |
2 | کسی چیز کی شہادت دینے کے لیے محض قیاس و گمان کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے علم ہونا ضروری ہے جس کی بنا پر آدمی یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ایسا ہے ۔ پس سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تمہیں یہ علم ہے کہ اس جہانِ ہست و بُود میں خدا کے سوا اَور بھی کوئی کار فرما حاکمِ ذی اختیار ہے جو بندگی و پرستش کا مستحق ہو |
1 | یعنی اس بات پر گواہ ہے کہ میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اسی کے حکم سے کہہ رہا ہوں |
Surah 13 : Ayat 43
وَيَقُولُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَسْتَ مُرْسَلاًۚ قُلْ كَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدَۢا بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُۥ عِلْمُ ٱلْكِتَـٰبِ
یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو کہو 1"میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر ہر اُس شخص کی گواہی جو کتاب آسمانی کا علم رکھتا ہے"
1 | یعنی ہر وہ شخص جو واقعی آسمانی کتابوں کے علم سے بہرہ ور ہے اس بات کی شہادت دے گا کہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لے کر آئے تھے |
Surah 17 : Ayat 96
قُلْ كَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدَۢا بَيْنِى وَبَيْنَكُمْۚ إِنَّهُۥ كَانَ بِعِبَادِهِۦ خَبِيرَۢا بَصِيرًا
اے محمدؐ، ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان بس ایک اللہ کی گواہی کافی ہے وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے1
1 | یعنی جس طرح سے میں تمہیں سمجھا رہا ہوں اور تمہاری اصلاح حال کے لیے کوشش کر رہا ہوں اسے بھی اللہ جانتا ہے، اور جو جو کچھ تم میری مخالفت میں کر رہے ہو اس کو بھی اللہ دیکھ رہا ہے۔ فیصلہ آخر کار اسی کو کرنا ہے اس لیے بس اسی کا جاننا اور دیکھنا کافی ہے |
Surah 46 : Ayat 8
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَٮٰهُۖ قُلْ إِنِ ٱفْتَرَيْتُهُۥ فَلَا تَمْلِكُونَ لِى مِنَ ٱللَّهِ شَيْــًٔاۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِۖ كَفَىٰ بِهِۦ شَهِيدَۢا بَيْنِى وَبَيْنَكُمْۖ وَهُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ
کیا اُن کا کہنا یہ ہے کہ رسول نے اِسے خود گھڑ لیا ہے؟1 ان سے کہو، 2"اگر میں نے اِسے خود گھڑ لیا ہے تو تم مجھے خدا کی پکڑ سے کچھ بھی نہ بچا سکو گے، جو باتیں تم بناتے ہو اللہ ان کو خوب جانتا ہے، میرے اور تمہارے درمیان وہی گواہی دینے کے لیے کافی ہے، اور وہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے3"
3 | اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ فی الواقع یہ اللہ کا رحم اور اس کا در گزر ہی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ زمین میں سانس لے رہے ہیں جنہیں خدا کے کلام کو افتا قرار دینے میں کوئی باک نہیں اور نہ کوئی بے رحم اور سخت گیر خدا اس کائنات کا مالک ہوتا تو ایسی جسارتیں کرنے والوں کو ایک سانس کے بعد دوسرا سانس لینا نصیب نہ ہوتا۔ دوسرا مطلب اس فقرے کا یہ ہے کہ ظالمو، اب بھی اس ہٹ دھرمی سے باز آ جاؤ تو خدا کی رحمت کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہوا ہے، اور جو کچھ تم نے اب تک کیا ہے وہ معاف ہو سکتا ہے |
2 | چونکہ ان کے الزام کا محض بے اصل اور سرا سر ہٹ دھرمی پر مبنی ہونا بالکل ظاہر تھا اس لیے اس کی تردید میں دلائل پیش کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ پس یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ اگر واقعی میں نے خود ایک کلام تصنیف کر کے اللہ کی طرف منسوب کرنے کا جرم عظیم کیا ہے، جیسا کہ تم الزام رکھتے ہو، تو مجھے خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے تم نہ آؤ گے، لیکن اگر یہ خدا ہی کا کلام ہے اور تم جھوٹے الزامات رکھ رکھ کر اسے رد کر رہے ہو تو اللہ تم سے نمٹ لے گا۔ حقیقت اللہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے، اور جھوٹ سچ کا فیصلہ کرنے کے لیے وہ بالکل کافی ہے۔ ساری دنیا اگر کسی کو جھوٹا کہے اور اللہ کے علم میں وہ سچا ہو تو آخری فیصلہ لازماً اسی حق میں ہو گا۔ اور ساری دنیا اگر کسی کو سچا کہہ دے، مگر اللہ کے علم میں وہ جھوٹا ہو، تو آخر کار وہ جھوٹا ہی قرار پاۓ گا۔ لہٰذا الٹی سیدھی باتیں بنانے کے بجاۓ اپنے انجام کی فکر کرو |
1 | اس سوالیہ طرز بیان میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اتنے بے حیا ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن خود گھڑ لانے کا الزام رکھتے ہیں؟ حالانکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ یہ ان کا تصنیف کردہ کلام نہیں ہو سکتا، اور ان کا اسے سحر کہنا خود اس امر کا صریح اعتراف ہے کہ یہ غیر معمولی کلام ہے جس کا کسی انسان کی تصنیف ہونا ان کے اپنے نزدیک بھی ممکن نہیں ہے |