Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 144
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِى ٱلسَّمَآءِۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَـٰهَاۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُۥۗ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَـٰفِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو مسجد حرام کی طرف رُخ پھیر دو اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو1 یہ لوگ جںہیں کتاب دی گئی تھی، خو ب جانتے ہیں کہ (تحویل قبلہ کا) یہ حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور بر حق ہے، مگرا س کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے غافل نہیں ہے
1 | یہ ہے وہ اصل حکم ، جو تحویلِ قبلہ کے بارے میں دیا گیا تھا۔ یہ حکم رجب یا شعبان ۲ ہجری میں نازل ہوا۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بِشْر بن بَراء بن مَعْرُور کے ہاں دعوت پر گئے ہوئے تھے۔ وہاں ظہر کا وقت آگیا اور آپ لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے۔ دو رکعتیں پڑھا چکے تھے کہ تیسری رکعت میں یکایک وحی کے ذریعے سے یہ آیت نازل ہوئی اور اسی وقت آپ اور آپ کی اقتدا میں جماعت کے تمام لوگ بیت المقدس سے کعبے کے رُخ پھر گئے۔ اس کے بعد مدینہ اور اطرافِ مدینہ میں اس کی عام منادی کی گئی۔ بَراء بن عازِب کہتے ہیں کہ ایک جگہ منادی کی آواز اس حالت میں پہنچی کہ لوگ رکوع میں تھے۔ حکم سنتے ہی سب کے سب اسی حالت میں کعبے کی طرف مُڑ گئے۔ اَنس بن مالک کہتے ہیں کہ بنی سَلمَہ میں یہ اطلاع دُوسرے روز صبح کی نماز کے وقت پہنچی۔ لوگ ایک رکعت پڑھ چکے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز پڑی: ”خبردار رہو، قبلہ بدل کی کعبے کی طرف کر دیا گیا ہے“۔ سنتے ہی پوری جماعت نے اپنا رُخ بدل دیا۔ خیال رہے کہ بیت المقدس مدینے سے عین شمال میں ہے اور کعبہ بالکل جنوب میں ۔ نماز باجماعت پڑھتے ہوئے قبلہ تبدیل کرنے میں لامحالہ امام کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہو گا اور مقتدیوں کو صرف رُخ ہی نہ بدلنا پڑا ہوگا ، بلکہ کچھ نہ کچھ انہیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنی پڑی ہوں گی۔ چنانچہ بعض روایات میں یہی تفصیل مذکور بھی ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ” ہم تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے ہیں “ اور یہ کہ” ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو“، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تحویلِ قبلہ کا حکم آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس کے منتظر تھے۔ آپ خود یہ محسوس فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دَور ختم ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ بیت المقدس کی مرکزیّت بھی رخصت ہوئی۔ اب اصل مرکزِ ابراہیمی کی طرف رُخ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ مسجدِ حرام کے معنی ہیں حُرمت اور عزّت والی مسجد۔ اس سے مُراد وہ عبادت گاہ ہے، جس کے وسط میں خانہء کعبہ واقع ہے۔ کعبے کی طرف رُخ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہ دُنیا کے کسی کونے میں ہو، اُسے بالکل ناک کی سیدھ میں کعبے کی طرف رُخ کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا ہر وقت ہر شخص کے لیے ہر جگہ مشکِل ہے۔ اسی لیے کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، نہ کہ کعبے کی سیدھ میں۔ قرآن کی رُو سے ہم اس بات کے لیے ضرور مُکَلف ہیں کہ حتّی الامکان صحیح سَمْتِ کعبہ کی تحقیق کریں، مگر اس بات پر مُکَلف نہیں ہیں کہ ضرور بالکل ہی صحیح سَمْت معلوم کر لیں۔ جس سمت کے متعلق ہمیں امکانی تحقیق سے ظنِ غالب حاصل ہو جائے کہ یہ سَمْتِ کعبہ ہے، اُدھر نماز پڑھنا یقیناً صحیح ہے۔ اور اگر کہیں آدمی کے لیے سَمْتِ قبلہ کی تحقیق مشکل ہو ، یا وہ کسی ایسی حالت میں ہو کہ قبلے کی طرف اپنی سَمْت قائم نہ رکھ سکتا ہو (مثلاً ریل یا کشتی میں ) تو جس طرف اسے قبلے کا گمان ہو، یا جس طرف رُخ کرنا اس کے لیے ممکن ہو، اسی طرف وہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ البتہ اگر دورانِ نماز میں صحیح سمت ِ قبلہ معلوم ہو جائے یا صحیح سَمْت کی طرف نماز پڑھنا ممکن ہو جائے ، تو نماز کی حالت ہی میں اس طرف پھر جانا چاہیے |
Surah 2 : Ayat 146
ٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَـٰهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ يَعْرِفُونَهُۥ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَآءَهُمْۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ ٱلْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اِس مقام کو (جسے قبلہ بنایا گیا ہے) ایسا پہچانتے ہیں، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں1 مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپا رہا ہے
1 | یہ عرب کا محاورہ ہے ۔ جس چیز کو آدمی یقینی طور پر جانتا ہو اور اُس کے متعلق کسی قسم کا شک و اشتباہ نہ رکھتا ہو، اُسے یُوں کہتے ہیں کہ وہ اس چیز کو ایسا پہچانتا ہے ، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتا ہے۔ یعنی ، جس طرح اُسے اپنے بچّوں کو پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا، اسی طرح وہ بِلا کسی شک کے یقینی طور پر اس چیز کو بھی جانتا ہے ۔ یہُودیوں اور عیسائیوں کے علما حقیقت میں یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ کعبے کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا اور اس کے برعکس بیت المقدس اس کے ۱۳ سو برس بعد حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھوں تعمیر ہوا اور اُنہی کے زمانے میں قبلہ قرار پایا۔ اس تاریخی واقعے میں ان کے لیے ذرہ برابر کسی اشتباہ کی گنجائش نہ تھی |
Surah 6 : Ayat 114
أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ أَبْتَغِى حَكَمًا وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ إِلَيْكُمُ ٱلْكِتَـٰبَ مُفَصَّلاًۚ وَٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَـٰهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُۥ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِٱلْحَقِّۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُمْتَرِينَ
پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کر دی ہے؟1 اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو2
2 | یعنی بیشر لوگ جو دینا میں بستے ہیں علم کے بجائے قیاس و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور ان کے عقائد تخیلات فلسفے اُصول زندگی اور قوانین عمل سب کے سب قیاس آرائیوں پر منبی ہیں۔ بخلاف اس کے اللہ کا راستہ یعنی دینا میں زندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ جو اللہ کی رضا کے مطابق ہے لازمًا صرف وہی ایک ہے جس کا علم اللہ نے خود دیا ہے نہ کہ وہ جس کو لوگوں نے بطورخود اپنے قیاسات سے تجویز کر لیا ہے۔ لہذا کسی طالب حق کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ دینا کے بیشر انسان کس راستہ پر جا رہے ہیں بلکہ اسے پُوری ثابت قدمی کے ساتھ اُس راہ پر چلنا چاہیے جو اللہ نے بتائی ہے چاہے اس راستے پر چلنے کے لیے وہ دُنیا میں اکیلا ہی رہ جائے |
1 | اس فقرہ میں متکلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور خطاب مسلمانوں سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنی کتاب میں صاف صاف یہ تمام حقیقتیں بیان کر دی ہیں اور یہ بھی فیصلہ کر دیا ہے کہ فوق الفطری مداخلت کے بغیر حق پرستوں کو فطری طریقوں ہی سے غلبہ ٔ حق کی جدّوجہد کرنی ہوگی، تو کیا اب میں اللہ کے سوا کوئی اَور ایسا صاحب ِ امر تلاش کروں جو اللہ کے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور ایسا کوئی معجزہ بھیجے جس سے یہ لوگ ایمان لانے پر مجبوُر ہو جائیں |
Surah 13 : Ayat 43
وَيَقُولُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَسْتَ مُرْسَلاًۚ قُلْ كَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدَۢا بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُۥ عِلْمُ ٱلْكِتَـٰبِ
یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو کہو 1"میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر ہر اُس شخص کی گواہی جو کتاب آسمانی کا علم رکھتا ہے"
1 | یعنی ہر وہ شخص جو واقعی آسمانی کتابوں کے علم سے بہرہ ور ہے اس بات کی شہادت دے گا کہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لے کر آئے تھے |
Surah 26 : Ayat 197
أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ ءَايَةً أَن يَعْلَمَهُۥ عُلَمَـٰٓؤُاْ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ
کیا اِن (اہلِ مکہ) کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اِسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں؟1
1 | یعنی علمائے بنی اسرائیل اس بات سے واقف ہیں کہ جو تعلیم قرآن مجید میں دی گئی ہے وہ ٹھیک وہی تعلیم ہے جو سابق کتب آسمانی میں دی گئی تھی۔ اہل مکہ خود علم کتاب سے نا آشنا سہی، بنی اسرائیل کے اہل علم تو گرد و پیش کے علاقوں میں کثرت سے موجود ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا اور نرالا ’’ذکر‘‘ نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ محمدؐ بن عبد اللہ نے لا کر تمہارے سامنے رکھ دیا ہو، بلکہ ہزارہا برس سے خدا کے نبی یہی ذکر پے در پے لاتے رہے ہیں۔ کیا یہ بات اس امر کا اطمینان کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ تنزیل بھی اسی رب العالمین کی طرف سے ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں ؟ سیرت ابن ہشام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے زمانہ نزول سے قریب ہی یہ واقعہ پیش آ چکا تھا کہ حبش سے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی دعوت سن کر 20 آدمیوں کا ایک وفد مکہ آیا اور اس نے مسجد حرام میں کفار قریش کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مل کر دریافت کیا کہ آپ کیا تعلیم لائے ہیں۔ حضورؐ نے جواب میں ان کو قرآن کی کچھ آیات سنائیں۔ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ اسی وقت آپ کے رسول برحق ہونے کی تصدیق کر کے آپ پر ایمان لے آئے۔ پھر جب وہ حضورؐ کے پاس سے اٹھے تو ابو جہل قریش کے چند لوگوں کے ساتھ ان سے ملا اور انہیں سخت ملامت کی۔ اس نے کہا’’ تم سے زیادہ احمق قافلہ یہاں کبھی نہیں آیا۔ نامراد و، تمہارے ہاں کے لوگوں نے تو تمہیں اس لیے بھیجا تھا کہ اس شخص کے حالات کی تحقیق کر کے آؤ، مگر تم ابھی اس سے ملے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ بیٹھے ‘‘۔ وہ شریف لوگ ابو جہل کی اس زجر و توبیخ پر الجھنے کے بجائے سلام کر کے ہٹ گۓ اور کہنے لگے کہ ہم آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتے ، آپ اپنے دین کے مختار ہیں اور ہم اپنے دین کے مختار ہمیں جس چیز میں اپنی خیر نظر آئی اسے ہم نے اختیار کر لیا (جلد دوم۔ صفحہ 32)۔ اسی واقعہ کا ذکر سورہ قصص میں آیا ہے کہ : اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ھُمْ بِہٖ یُؤْ مِنُوْنَ ہ وَاِذَ ا یُتْلیٰ عَلَیْہِمْ قَا لُؤ آ اٰمَنَّا بِہٖٓ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَا اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ O .......... وَاِذَ سَمِعُوا الْلَّغْوَاَ عْرَضُوْا عَنْہُ وَقَا لُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ ، لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ O (آیات 52۔ 55)۔ ’’ جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انہیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے ................ اور جب انہوں نے بیہودہ باتیں سنیں تو الجھنے سے پرہیز کیا اور بولے ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، تم کو سلام ہو، ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے (کہ چار باتیں تم ہمیں سناؤ توچار ہم تمہیں سنائیں )‘‘ |
Surah 3 : Ayat 86
كَيْفَ يَهْدِى ٱللَّهُ قَوْمًا كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَـٰنِهِمْ وَشَهِدُوٓاْ أَنَّ ٱلرَّسُولَ حَقٌّ وَجَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت بخشے جنہوں نے نعمت ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا حالانکہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں1 اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا
1 | یہاں پھر اُسی بات کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے قبل بارہا بیان کی جا چکی ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عرب کے یہودی علماء جان چکے تھے اور ان کی زبانوں تک سےاس امر کی شہادت ادا ہو چکی تھی کہ آپ نبی ِ برحق ہیں اور جو تعلیم آپ لائے ہیں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لا تے رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ محض تعصّب، ضد اور دُشمنیِ حق کی اُس پُرانی عادت کا نتیجہ تھا جس کے وہ صدیوں سے مجرام چلے آرہے تھے |