Ayats Found (4)
Surah 16 : Ayat 4
خَلَقَ ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا1
1 | اس کےدو معنی ہو سکتے ہیں اور غالبًا دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث واستدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدّعا کے لیے حجتیں پیش کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پراُتر آیا ہے۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اُسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے(جس کی تشریح ہم اس سلسلۂ بیان کےآخر میں کریں گے)۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کر کہاں پہنچا، کس جگہ تو نے ابتداء ًپرورش پائی، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تُو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھول کر تُو کس کے منہ آرہا ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 77
أَوَلَمْ يَرَ ٱلْإِنسَـٰنُ أَنَّا خَلَقْنَـٰهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
کیا انسان دیکھتا نہیں ہے1 کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا2؟
2 | یعنی وہ نطفہ جس میں محض ایک ابتدائی جرثومہ حیات کے سوا کچھ نہ تھا،اس کو ترقی دے کر ہم نے اس حد تک پہنچایا کہ وہ نہ صرف جانوروں کی طرح چلنے پھرنے اور کھانے پینے لگا،بلکہ اس سے آگے پڑھ کر اس میں شعور و تعقُّل اور بحث و استدلال اور تقریر و خطابت کی وہ قابلیتیں پیدا ہو گئیں جو کسی حیوان کو نصیب نہیں ہیں،حتٰی کہ اب وہ اپنے خالق کے بھی منہ آنے لگا ہے۔ |
1 | اب کفار کے اس سوال کا استدلالی جواب دیا جا رہا ہے جو آیت 48 میں نقل کیا گیا تھا۔ان کو یہ سوال کہ ’’قیامت کی دھمکی کب پوری ہو گی‘‘ کچھ اس غرض کے لیے نہ تھا کہ وہ قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے، بلکہ اس بنا پر تھا کہ وہ مرنے کے بعد انسانوں کے دوبارہ اٹھائے جانے کو بعید از امکان، بلکہ بعید ازعقل سمجھتے تھے۔اسی لیے ان کے سوال کے جواب میں امکان آخرت کے دلائل ارشاد ہو رہے ہیں۔ ابن عباس، قتادہ اور سعید بن جُبیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر کفار مکہ کے سرداروں میں سے ایک شخص قبرستان سے کسی مردے کی ایک بوسیدہ ہڈی لیے ہوئے آگیا اور اس نے نبی صلی اللہ و علیہ و سلم کے سامنے اسے توڑ کر اور اس کے منتشر اجزا ہوا میں اڑا کر آپ سے کہا، اے محمدؐ تم کہتے ہو کہ مردے پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔بتاؤ، ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ اس کا جواب فوراً ان آیات کی صورت میں دیا گیا۔ |
Surah 18 : Ayat 54
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِى هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍۚ وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ أَكْثَرَ شَىْءٍ جَدَلاً
ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے
Surah 84 : Ayat 6
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْإِنسَـٰنُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَـٰقِيهِ
اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے1، اور اُس سے ملنے والا ہے
1 | یعنی وہ ساری تگ و دو اور دوڑ دھوپ جو تو دنیا میں کر رہا ہے، اس کے متعلق چاہے تو یہی سمجھتا رہے کہ یہ صرف دنیا کی زندگی تک ہے ا ور دنیوی اغراض کے لیے ہے، لیکن در حقیقت تو شعوری یا غیر شعوری طور پر جا رہا ہے اپنے رب کی طرف اور آ خر کار وہیں تجھے پہنچ کر رہنا ہے |