Ayats Found (10)
Surah 2 : Ayat 83
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلاً مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سو ا تم سب اس عہد سے پھر گئے اور اب تک پھر ے ہوئے ہو
Surah 3 : Ayat 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَوَكِّلِينَ
(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں
Surah 4 : Ayat 5
وَلَا تُؤْتُواْ ٱلسُّفَهَآءَ أَمْوَٲلَكُمُ ٱلَّتِى جَعَلَ ٱللَّهُ لَكُمْ قِيَـٰمًا وَٱرْزُقُوهُمْ فِيهَا وَٱكْسُوهُمْ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا
اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو1
1 | یہ آیت وسیع معنی کی حامل ہے۔ اس میں اُمّت کو یہ جامع ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مال جو ذریعہ قیام ِ زندگی ہے ، بہر حال ایسے نادان لوگوں کے اختیار و تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام ِ تمدّن و معیشت اور بالآخر نظامِ اخلاق کو خراب کر دیں۔ حقوقِ ملکیت جو کسی شخص کو اپنے املاک پر حاصل ہیں اس قدر غیر محدُود نہیں ہیں کہ وہ اگر ان حقوق کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو اور ان کے استعمال سے اجتماعی فساد برپا کر دے تب بھی اس کے وہ حقوق سلب نہ کیے جا سکیں۔ جہاں تک آدمی کی ضروریات ِ زندگی کا تعلق ہے وہ تو ضرور پوری ہونی چاہئیں، لیکن جہاں تک حقوقِ مالکانہ کے آزاد انہ استعمال کا تعلق ہے اس پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے کہ یہ استعمال اخلاق و تمدّن اور اجتماعی معیشت کے لیے صریحاً مُضر نہ ہو۔ اس ہدایت کے مطابق چھوٹے پیمانہ پر ہر صاحبِ مال کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مال جس کے حوالہ کر رہا ہے وہ اس کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اور بڑے پیمانہ پر حکومتِ اسلامی کو اس امر کا انتظام کرنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اموال پر خود مالکانہ تصرف کے اہل نہ ہوں، یا جو لوگ اپنی دولت کو بُرے طریقے پر استعمال کر رہے ہوں، ان کی املاک کو وہ اپنے انتظام میں لے لے اور ان کی ضروریات ِ زندگی کا بندوبست کر دے |
Surah 4 : Ayat 8
وَإِذَا حَضَرَ ٱلْقِسْمَةَ أُوْلُواْ ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينُ فَٱرْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا
اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور اُن کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو1
1 | خطاب میّت کے وارثوں سے ہے اور انہیں ہدایت فرمائی جارہی ہے کہ میراث کی تقسیم کے موقع پر جو دُور نزدیک کے رشتہ دار اور کنبہ کے غریب و مسکین لوگ اور یتیم بچّے آجائیں ان کے ساتھ تنگ دلی نہ برتو۔ میراث میں ازرُوئے شرع اُن کا حصّہ نہیں ہے تو نہ سہی، وُسعتِ قلب سے کام لے کر ترکہ میں سے اُن کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو، اور ان کے ساتھ وہ دل شکن باتیں نہ کرو جو ایسے مواقع پر بالعمُوم چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں |
Surah 5 : Ayat 54
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَسَوْفَ يَأْتِى ٱللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُۥٓ أَذِلَّةٍ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى ٱلْكَـٰفِرِينَ يُجَـٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَآئِمٍۚ ذَٲلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے1، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے2 یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے
2 | یعنی اللہ کے دین کی پَیروی کرنے میں، اُس کے احکام پر عملدرآمد کرنے میں، اور اِس دین کی رُو سے جو کچھ حق ہے اُسے حق اور جو کچھ باطل ہے اُسے باطل کہنے میں اُنہیں کوئی باک نہ ہوگا۔ کسی کی مخالفت، کسی کی طعن و تشنیع ، کسی کے اعتراض اور کسی کی پھبتیوں اور آوازوں کی وہ پروا نہ کریں گے۔ اگر رائے عام اسلام کی مخالف ہو اور اسلام کے طریقے پر چلنے کے معنی اپنے آپ کو دُنیا بھر میں نکّو بنا لینے کے ہوں تب بھی وہ اسی راہ پر چلیں گے جسے وہ سچّے دل سے حق جانتے ہیں |
1 | مومنوں پر نرم“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اہلِ ایمان کے مقابلے میں اپنی طاقت کبھی استعمال نہ کرے۔ اُس کی ذہانت ، اُس کی ہوشیاری، اُس کی قابلیت، اُس کا رسُوخ و اثر، اُس کا مال، اُس کا جسمانی زور، کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے نہ ہو۔ مسلمان اپنے درمیان اس کو ہمیشہ ایک نرم خو، رحم دل، ہمدرد اور حلیم انسان ہی پائیں۔ ”کفار پر سخت“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن آدمی اپنے ایمان کی پختگی ، دینداری کے خلُوص ، اصُول کی مضبُوطی، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخلالفینِ اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کے مانند ہو کہ کسی طرح اپنے مقام سے ہٹایا نہ جا سکے۔ وہ اسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ بنائیں۔ انہیں جب بھی اس سے سابقہ پیش آئے اُن پر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ اللہ کا بندہ مر سکتا ہے مگر کسی قیمت پر بِک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا |
Surah 17 : Ayat 23
۞ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًاۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا
تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے1 کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی 2والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو
2 | اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون و چرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو، اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم نہ کرو۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ، اور صرف انفرادی طرز عمل کے لیے ایک ہدایت ہی نہیں ہے بلکہ اُس پورے نظام اخلاق و تمدن و سیاست کا سنگِ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً قائم کیا۔ اس کی عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے، اور اسی کی شریعت ملک کا قانون ہے۔ |
1 | یہاں وہ بڑے بڑے بنیادی اصول پیش کیے جا رہے ہیں جن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور آنے والے مدنی دور کے نقطہ آغاز پر پیش کیا گیا، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہو جائے کہ اس نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس موقع پر سورہ انعام کے رکوع ١۹ اور اس کے حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہوگا۔ |
Surah 17 : Ayat 28
وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ٱبْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلاً مَّيْسُورًا
اگر اُن سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اُس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو1
1 | ان تین دفعات کا منشا یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور دولت کو صرف اپنے لیے ہی مخصوص نہ رکھے، بلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں، اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجتمند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے۔ اجتماعی زندگی میں تعاون، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری ہو۔ ہر رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کا معاون، اور ہر مستظیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگار ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے، اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرہ میں حق کا تصوراتنا وسیع ہو کہ ہر شخص اُن سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو۔ ان کی خدمت کرے تو یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ ان کا حق ادا کررہا ہے، نہ یہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے۔ اگر کسی کی خدمت سے معذور ہو تو اس سے معافی مانگے اور خدا سے فضل طلب کرے تا کہ وہ بندگان ِ خدا کی خدمت کرنے کے قابل ہو۔ !منشورِ اسلامی کی یہ دفعات بھی صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں، بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انہی کی بنیاد پر صدقاتِ واجبہ اور صدقات نافلہ کے احکام دیے گئے، وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے، یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا، ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم ازکم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے، اور پھر اس کےساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام عملاً ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی، ہمدردی اور تعاون کی روح جاری وساری ہو گئی، حتیٰ کہ لوگ آپ ہی آپ قانونی حقوق کے ما سوا اُن اخلاقی حقوق کو بھی سمجھنے اور ادا کرنے لگے جنہیں نہ قانون کے زور سے مانگا جا سکتا ہے نہ دلوایا جا سکتا ہے۔ |
Surah 17 : Ayat 53
وَقُل لِّعِبَادِى يَقُولُواْ ٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ كَانَ لِلْإِنسَـٰنِ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور اے محمدؐ، میرے بندوں1 سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو 2دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسا ن کا کھلا دشمن ہے3
3 | یعنی جب کبھی تمہیں مخالفین کی بات کا جواب دیتے وقت غصے کی آگ اپنے اندر بھڑکتی محسوس ہو، اور طبیعت بے اختیار جوش میں آتی نظر آئے، تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اکسا رہا ہے تاکہ دعوت دین کا کام خراب ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اپنے مخالفین کی طرح اصلاح کا کام چھوڑ کر اسی جھگڑے اور فساد میں لگ جاؤ جس میں وہ نوع انسانی کی مشغول رکھنا چاہتا ہے۔ |
2 | یعنی کفار و مشرکین سے اور اپنے دین کے مخلافین سے گفتگو اور مباحثے میں تیز کلامی اور مبالغے اور غلو سے کام نہ لیں۔ مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مسلمانوں کو بہرحال نہ تو کوئی بات خلاف ِحق زبان سے نکالنی چاہیے، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے۔ انہیں ٹھنڈے دل سے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو، برحق ہو، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو۔ |
Surah 20 : Ayat 43
ٱذْهَبَآ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُۥ طَغَىٰ
جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے
Surah 20 : Ayat 44
فَقُولَا لَهُۥ قَوْلاً لَّيِّنًا لَّعَلَّهُۥ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ
اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے1"
1 | آدمی کے راہ راست پر آنے کی دو ہی شکلیں ہیں۔ یا تو وہ تفہیم و تلقین سے مطمئن ہو کر صحیح راستہ اختیار کر لیتا ہے، یا پھر برے انجام سے ڈر کر سیدھا ہو جاتا ہے۔ |