Ayats Found (3)
Surah 90 : Ayat 6
يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالاً لُّبَدًا
کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا1
1 | ’’ أَنْفَقْتُ مَالًا لُّبَدًا ‘‘ ’’میں نے ڈھیر سارا مال خرچ کر دیا‘‘ نہیں کہا بلکہ ’’ أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا ‘‘ کہا جس کے لفظی معنی ہی ’’میں نے ڈھیر سا مال ہلاک کر دیا‘‘، یعنی لٹا دیا یا اڑا دیا۔ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ کہنے والے کو اپنی مال داری پر کتنا فخر تھا کہ جو ڈھیر سا مال اس نے خرچ کیا وہ اس کی مجموعی دولت کے مقابلے میں اتنا ہیچ تھا کہ اس کے لٹا دینے یا اڑا دینے کی اسے کوئی پروا نہ تھی۔ اور یہ مال اڑا دینا تھا کس مد میں؟ کسی حقیقی نیکی کے کام میں نہیں، جیسا کہ آگے کی آیات سے خود بخود مترشح ہوتا ہے، بلکہ اپنی دولت مندی کی نمائش اور اپنے فخر اور اپنی بڑائی کے اظہار میں۔ قصیدہ گو شاعروں کو بھاری انعامات دینا۔ شادی اور غمی کی رسمو ں میں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی دعوت کر ڈالنا۔ جوے میں ڈھیروں دولت ہار دینا۔ جوا جیت جانے پر اونٹ پر اونٹ کاٹنا اور خوب یار دوستوں کو کھلانا۔ میلوں میں بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ جانا اور دوسرے سرداروں سے بڑھ کر شان و شوکت کا مظاہرہ کرنا۔ تقریبات میں بے تحاشا کھانے پکوانا اور اذن عام دے دینا کہ جس کا جی چاہے آئے اور کھائے، یا اپنے ڈیرے پر کھلا لنگر جاری رکھنا کہ دور دور تک یہ شہرت ہو جائے کہ فلاں رئیس کا دسترخواں بڑا وسیع ہے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے نمائشی اخراجات تھے جنہیں جاہلیت میں آدمی کی فیاضی اور فراخ دلی کی علامت اور اس کی بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ انہی پر ان کی تعریفوں کے ڈنکے بجتے تھے۔ انہی پر ان کی مدح کے قصیدے پڑھے جاتے تھے۔ اور وہ خود بھی ان پر دوسروں کے مقابلے میں اپنا فخر جتاتے تھے |
Surah 96 : Ayat 6
كَلَّآ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَيَطْغَىٰٓ
ہرگز نہیں1، انسان سرکشی کرتا ہے
1 | یعنی ایسا ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ جس خدائے کریم نے انسان پر اتنا بڑا کرم فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں وہ جہالت برت کر وہ رویہ اختیار کرے جو آگے بیان ہو رہا ہے |
Surah 96 : Ayat 7
أَن رَّءَاهُ ٱسْتَغْنَىٰٓ
اِس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے1
1 | یعنی یہ دیکھ کر مال، دولت، عزت و جاہ اور جو کچھ بھی دنیا میں وہ چاہتا تھا وہ اسے حاصل ہو گیا ہے۔ شکر گزار ہونے کے بجائے وہ سرکشی پر اتر آتا ہے اور حد بنگی سے تجاوز کرنے لگتا ہے |