Ayats Found (2)
Surah 51 : Ayat 52
كَذَٲلِكَ مَآ أَتَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُواْ سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ
یونہی ہوتا رہا ہے، اِن سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون1
1 | یعنی آج پہلی مرتبہ ہی یہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوۓ رسول کی زبان سے آخرت کی خبر اور توحید کی دعوت سن کر لوگ اسے ساحر اور مجنون کہہ رہے ہیں۔ رسالت کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ جب سے نوع انسانی کی ہدایت کے لیے رسول آنے شروع ہوۓ ہیں، آج تک جاہل لوگ اسی ایک حماقت کا پوری یکسانی کے ساتھ اعادہ کیے چلے جا رہے ہیں۔ جس رسول نے بھی آ کر خبر دار کیا کہ تم بہت سے خداؤں کے بندے نہیں ہو بلکہ صرف ایک ہی خدا تمہارا خالق و معبود اور تمہاری قسمتوں کا مالک و مختار ہے، جاہلوں نے شور مچا دیا کہ یہ جادوگر ہے جو اپنے افسوں سے ہماری عقلوں کو بگاڑنا چاہتا ہے۔ جس رسول نے بھی آ کر خبر دار کیا کہ تم غیر ذمہ دار بنا کر دنیا میں نہیں چھوڑ دیے گۓ ہو بلکہ اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد تمہیں اپنے خالق و مالک کے سامنے حاضر ہو کر اپنا حساب دینا ہے اور اس حساب کے نتیجہ میں اپنے اعمال کی جزا و سزا پائی ہے، نادان لوگ چیخ اٹھے کہ یہ پاگل ہے، اس کی عقل ماری گئی ہے، بھلا مرنے کے بعد ہم کہیں دوبارہ بھی زندہ ہو سکتے ہیں؟ |
Surah 51 : Ayat 53
أَتَوَاصَوْاْ بِهِۦۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ
کیا اِن سب نے آپس میں اِس پر کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے؟ نہیں، بکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں1
1 | یعنی یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہزارہا برس تک ہر زمانے میں مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگوں کا دعوت انبیاء کے مقابلے میں ایک ہی رویہ اختیار کرنا، اور ایک ہی طرح کی باتیں ان کے خلاف بنانا کچھ اس بنا پر تو نہ ہو سکتا تھا کہ ایک کانفرنس کر کے ان سب اگلی اور پچھلی نسلوں نے آپس میں یہ طے کر لیا ہو کہ جب کوئی نبی آ کر یہ دعوت پیش کرے تو اس کا یہ جواب دیا جاۓ۔ پھر ان کے رویے کی یہ یکسانی اور ایک ہی طرز جواب کی یہ مسلسل تکرار کیوں ہے؟ اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ طغیان و سرکشی ان سب کا مشترک وصف ہے۔ چونکہ ہر زمانے کے جاہل لوگ خدا کی بندگی سے آزاد اور اس کے محاسبہ سے بے خوف ہو کر دنیا میں شُتر بے مہار کی طرح جینے کے خواہاں رہے ہیں، اس لیے اور صرف اسی لیے جس نے بھی ان کو خدا کی بندگی اور خدا ترسانہ زندگی کی طرف بلایا اس کو وہ ایک ہی لگا بندھا جواب دیتے رہے۔ اس ارشاد سے ایک اور اہم حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ضلالت اور ہدایت، نیکی اور بدی ظلم اور عدل اور ایسے ہی دوسرے اعمال کے جو محرکات نفسِ انسانی میں بالطبع موجود ہیں ان کا ظہور ہمیشہ ہر زمانے میں اور زمین کے ہر گوشے میں ایک ہی طرح ہوتا ہے، خواہ ذرائع و وسائل کی ترقی سے اس کی شکلیں بظاہر کتنی ہی مختلف نظر آتی ہوں۔ آج کا انسان خواہ ٹینکوں اور ہوائی جہازوں اور ہائیڈروجن بموں کے ذریعہ سے لڑے اور قدیم زمانے کا انسان چاہے پتھروں اور لاٹھیوں سے لڑتا ہو، مگر انسانوں کے درمیان جنگ کے بنیادی محرکات میں سر مُو فرق نہیں آیا ہے۔ اسی طرح آج کا ملحد اپنے الحاد کے لیے دلائل کے خواہ کتنے ہی انبار لگاتا رہے، اس کے اس راہ پر جانے کے محرکات بعینہٖ وہی ہیں جو آج سے 6 ہزار برس پہلے کے کسی ملحد کو اس طرف لے گۓ تھے، اور بنیادی طور پر وہ اپنے استدلال میں بھی اپنے سابق پیشواؤں سے کچھ مختلف نہیں ہے |