Ayats Found (1)
Surah 25 : Ayat 31
وَكَذَٲلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا مِّنَ ٱلْمُجْرِمِينَۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا
اے محمدؐ، ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے1 اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے2
2 | رہنمائی سے مراد صرف علم حق عطا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ تحریک اسلامی کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ، اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لیے بر وقت صحیح تدبیریں سمجھانا بھی ہے ۔ اور مدد سے مراد ہر قسم کی مدد ہے ۔ حق اور باطل کی کشمکش میں جتنے محاذ بھی کھلیں ، ہر ایک پر اہل حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے ۔ دلیل کی لڑائی ہو تو وہی اہل حق کو حجت بالغہ عطا کرتا ہے ۔ اخلاق کی لڑائی ہو تو وہی ہر پہلو سے اہل حق کو اخلاقی برتری عطا فرماتا ہے ۔ تنظیم کا مقابلہ ہو تو وہی باطل پرستوں کے دل پھاڑتا اور اہل حق کے دل جوڑتا ہے ۔ مادّی وسائل کی ضرورت ہو، تو وہی اہل حق کے تھوڑے مال و اسباب میں وہ برکت دیتا ہے کہ اہل باطل کے وسائل کی فراوانی ان کے مقابلے میں محض دھوکے کی ٹٹی ثابت ہوتی ہے ۔ غرض کوئی پہلو مدد اور راہ نمائی کا ایسا نہیں ہے جس میں اہل حق کے لیے اللہ کافی نہ ہو اور انہیں کسی دوسرے سہارے کی حاجت ہو، بشرطیکہ وہ اللہ کی کفایت پر ایمان و اعتماد رکھیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں بلکہ سر گرمی کے ساتھ باطل کے مقابلے میں حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑائیں ۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ آیت کا یہ دوسرا حصہ نہ ہوتا تو پہلا حصہ انتہائی دل شکن تھا ۔ اس سے بڑھ کر ہمت توڑ دینے والی چیز اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک شخص کو یہ خبر دی جائے کہ ہم نے جان بوجھ کر تیرے سپرد ایک ایسا کام کیا ہے جسے شروع کرتے ہی دنیا بھر کے کتّے اور بھیڑیے تجھے لپیٹ جائیں گے ۔ لیکن اس اطلاع کی ساری خوفناکی یہ حرف تسلی سن کر دور ہو جاتی ہے کہ اس جاں گُسِل کشمکش کے میدان میں اتار کر ہم نے تجھے اکیلا نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ ہم خود تیری حمایت کو موجود ہیں ۔ ایمان دل میں ہو تو اس سے بڑھ کر ہمت دلانے والی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ خدا وند عالم آپ ہماری مدد اور رہنمائی کا ذمہ لے رہا ہے ۔ اس کے بعد تو صرف ایک کم اعتقاد بزدل ہی میدان میں آگے بڑھنے سے ہچکچا سکتا ہے |
1 | یعنی آج جو دشمنی تمہارے ساتھ کی جا رہی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی نبی حق اور راستی کی دعوت دینے اٹھا تو وقت کے سارے جرائم پیشہ لوگ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گۓ ۔ یہ مضمون سورہ اَنعام آیات 112۔ 113 میں بھی گزر چکا ہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ ہم نے ان کو دشمن بنایا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا قانون فطرت یہی کچھ ہے ، لہٰذا ہماری اس مشیت پر صبر کرو، اور قانون فطرت کے تحت جن حالات سے دو چار ہونا نا گزیر ہے ان کا مقابلہ ٹھنڈے دل اور مضبوط عزم کے ساتھ کرتے چلے جاؤ ۔ اس بات کی امید نہ رکھو کہ ادھر تم نے حق پیش کیا اور ادھر ایک دنیا کی دنیا اسے قبول کرنے کے لیے امنڈ آئے گی اور سارے غلط کاراپنی اپنی غلط کاریوں سے تائب ہو کر اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگیں گے |