Ayats Found (5)
Surah 3 : Ayat 14
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ ٱلشَّهَوَٲتِ مِنَ ٱلنِّسَآءِ وَٱلْبَنِينَ وَٱلْقَنَـٰطِيرِ ٱلْمُقَنطَرَةِ مِنَ ٱلذَّهَبِ وَٱلْفِضَّةِ وَٱلْخَيْلِ ٱلْمُسَوَّمَةِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ وَٱلْحَرْثِۗ ذَٲلِكَ مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَٱللَّهُ عِندَهُۥ حُسْنُ ٱلْمَـَٔـابِ
لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے
Surah 17 : Ayat 100
قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّىٓ إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ ٱلْإِنفَاقِۚ وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ قَتُورًا
اے محمدؐ، اِن سے کہو، اگر کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے1
1 | یہ اشارہ اسی مضمون کی طرف ہے جو اس سے پہلے آیت ۵۵ و َرَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ میں گزر چکا ہے۔ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل وشرف ماننا پڑتا تھا، اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کے لیے انسان مشکل ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے۔ اسی پر فرمایا جارہاہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا حال یہ ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے، انہیں اگر کہیں خدا نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کر دی ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے۔ |
Surah 89 : Ayat 20
وَتُحِبُّونَ ٱلْمَالَ حُبًّا جَمًّا
اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو1
1 | یعنی جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمہیں کوئی فکر نہیں۔ جس طریقے سے بھی ما ل حاصل کیا جا سکتا ہو اسے حاصل کرنے میں تمہیں کوئی تامل نہیں ہو تا۔ اور خواہ کتنا ہی مال مل جائے تمہاری حرص و طمع کی آگ کبھی نہیں بجھتی |
Surah 70 : Ayat 21
وَإِذَا مَسَّهُ ٱلْخَيْرُ مَنُوعًا
اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے
Surah 100 : Ayat 8
وَإِنَّهُۥ لِحُبِّ ٱلْخَيْرِ لَشَدِيدٌ
اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے1
1 | اصل الفاظ ہیں ’’ وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ۔ ‘‘اس فقرے کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’وہ خیر کی محبت میں بہت سخت ہے‘‘ لیکن عربی زبان میں خیر کا لفاظ نیکی اور بھلائی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ مال و دولت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ آیت 180 میں خیر بمعنی مال و دولت ہی استعمال ہوا ہے۔ یہ بات کلام کے موقع و محل سے معلوم ہوتا ہے کہ کہاں خیر کا لفظ نیکی کے معنی میں ہے ا ور کہاں مال و دولت کے معنی میں۔ اس آیت کے سیاق و سباق سے خود ہی یہ ظاہر ہو رہا ہےکہ اس میں خیر مال و دولت کے معنی میں ہے نہ کہ بھلائی اور نیکی کے معنی میں، کیونکہ جو انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور اپنے طرز عمل سے خود اپنی ناشکری پر شہادت دے رہا ہے، اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نیکی اور بھلائی کی محبت میں بہت سخت ہے |