Ayats Found (3)
Surah 23 : Ayat 64
حَتَّىٰٓ إِذَآ أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِم بِٱلْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْــَٔرُونَ
یہاں تک کہ جب ہم ان کے عیاشوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے1 تو پھر وہ ڈکرانا شروع کر دیں گے2
2 | اصل میں لفظ ’’ جُؤَار ‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اس آواز کو کہتے ہیں جو سخٹ تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد و فغان کے معنی میں نہیں بلکہ اس شخص کی فریاد و فغان کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہوا ہے۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ ’’ اچھا، اب جو اپنے کرتوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے |
1 | عیاش‘‘ یہاں ’’مُتْرَفِیْن‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ’’مترفین ‘‘ اصل میں ان لوگوں کو کہتے ہیں جو دنیوی مال و دولت کو پا کر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیاش سے ادا ہو جاتا ہے ، بشرطیکہ اسے صرف شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔ عذاب سے مراد یہاں غالباً آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ دنیا کا عذاب ہے جو اسی زندگی میں ظالموں کو دیکھنا پڑے |
Surah 64 : Ayat 3
خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْۖ وَإِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ
اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے، اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے، اور اسی کی طرف آخرکار تمہیں پلٹنا ہے1
1 | اس آیت میں تین باتیں علی الترتیب بیان کی گئی ہیں جن کے درمیان ایک بہت گہرا منطقی ربط ہے۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ نے یہ کائنات بر حق پیدا کی ہے۔ ’’برحق‘‘ کا لفظ جب خبر کے لیے بولا جاتا ہے تو مراد ہوتی ہے سچی خبر۔ حکم کے لیے بولا جاتا ہے تو مطلب ہوتا ہے مبنی بر عدل و انصاف حکم قول کے لیے بولا جاتا ہے تو مقصود ہوتا ہے راست اور درست قول۔ اور جب کسی فعل کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو مراد ایسا فعل ہوتا ہے جو حکیمانہ اور معقول ہو نہ کہ لا یعنی اور فضول۔ اب یہ ظاہر ہے کہ خَلْق ایک فعل ہے، اس لیے تخلیق کائنات کو بر حق کہنے کا مطلب لا محالہ یہ ہے کہ یہ کائنات کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی گئی ہے بلکہ یہ ایک خالق حکیم کا نہایت سنجیدہ کام ہے۔ اس کی ہر چیز اپنے پیچھے ایک معقول مقصد رکھتی ہے، اور یہ مقصدیت اس میں اتنی نمایا ں ہے کہ اگر کوئی صاحب عقل انسان کسی چیز کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لے تو یہ جان لینا اس کے لیے مشکل نہیں ہوتا کہ ایسی ایک چیز کے پیدا کرنے کا معقول اور مبنی بر حکمت مقصد کیا ہو سکتا ہے۔ دنیا میں انسان کی ساری سائنٹفک ترقی اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جس چیز کی نوعیت کو بھی انسان نے غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے سمجھ لیا اس کے بارے میں یہ بات بھی اسے آخر کار معلوم ہو گئی کہ وہ کس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے، اور اس مقصد کو سمجھ کر ہی انسان نے وہ بے شمار چیزیں ایجاد کر لیں جو آج انسانی تمدن میں استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ بات ہر گز ممکن نہ ہوتی اگر یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھلونا ہوتی جس میں کوئی حکمت اور مقصدیت کار فرما نہ ہوتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، سورہ انعام، حاشیہ 46۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ 75۔ الروم، حاشیہ 6۔ جلد چہارم، الدخان، حاشیہ 34۔ الجاثیہ، حاشیہ 28 )۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اس کائنات میں اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا ہے۔ صورت سے مراد محض انسان کا چہرہ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اس کی پوری جسمانی ساخت ہے اور وہ قوتیں اور صلاحیتیں بھی اسکے مفہوم میں شامل ہیں جو اس دنیا میں کام کرنے کے لیے آدمی کو عطا کی گئی ہیں۔ ان دونوں حیثیتوں سے انسان کو زمین کی مخلوقات میں سب سے بہتر بنایا ہے، اور اسی بنا پر وہ اس قابل ہوا ہے کہ ان تمام موجودات پر حکمرانی کرے جو زمین اور اس کے گرد و پید میں پائی جاتی ہیں۔ اس کو کھڑا قد دیا گیا ہے۔ اس کو چلنے کے لیے مناسب ترین پاؤں دیے گۓ ہیں۔اس کو کام کرنے کے لیے موزوں ترین ہاتھ دیۓ گۓ ہیں۔ اس کو ایسے حواس اور ایسے آلات علم دیے گۓ ہیں جن کے ذریعہ سے وہ ہر طرح کی معلومات حاصل کرتا ہے۔ اس کو سوچنے اور سمجھنے اور معلومات کو جمع کر کے ان سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا ذہن دیا گیا ہے۔ اس کو ایک اخلاقی حِس اور قوت تمیز دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ بھلائی اور برائی اور صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے۔ اس کو ایک قوت فیصلہ دی گئی ہے جس سے کام لے کر وہ اپنی راہ عمل کا خود انتخاب کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اپنی کوششوں کو کس راستے پر لگاۓ اور کس پر نہ لگاۓ۔ اس کو یہاں تک آزادی دے دی گئی ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کو مانے اور اس کی بندگی کرے ورنہ اس کا انکار کر دے، یا جن جن کو چاہے اپنا خدا بنا بیٹھے، یا جسے خدا مانتا ہو اس کے خلاف بھی بغاوت کرنا چاہے تو کر گزرے۔ ان ساری وقتوں اور ان سارے اختیارات کے ساتھ اسے خدا نے اپنی پیدا کردہ بے شمار مخلوقات پر تصرُّف کرنے کا اقتدار دیا ہے اور وہ عملاً اس اقتدار کو استعمال کر رہا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، المؤمن ، حاشیہ 91)۔ ان دو باتوں سے جو اوپر بیان کی گئی ہیں بالکل ایک منطقی نتیجہ کے طور پر وہ تیسری بات خود بخود نکلتی ہے جو آیت کے تیسرے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے کہ ’’ اسی کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے ‘‘۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایسے ایک حکیمانہ اور با مقصد نظام کائنات میں ایسی ایک با اختیار مخلوق پیدا کی گئی ہے تو حکمت کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہے کہ اسے یہاں شتر بے مہار کی طرح غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا جاۓ، بلکہ لازماً اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مخلوق اس ہستی کے سامنے جواب دہ ہو جس نے اسے ان اختیارات کے ساتھ اپنی کائنات میں یہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ ’’پلٹنے ‘‘ سے مراد اس آیت میں محض پلٹنا نہیں ہے بلکہ جواب دہی کے لیے پلٹنا ہے، اور بعد کی آیات میں صراحت کر دی گئی ہے کہ یہ واپسی اس زندگی میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہو گی، اور اس کا اصل وقت وہ ہو گا جب پوری نوع انسانی کو از سر نو زندہ کر کے بیک وقت محاسبہ کے لیے اکٹھا کیا جاۓ گا، اور اس محاسبے کے نتیجے میں جزا و سزا اس بنیاد پر ہو گی کہ آدمی نے خدا کے دیے ہوۓ اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کیا یا غلط طریقے سے۔ رہا یہ سوال کہ یہ جواب دہی دنیا کی موجودہ زندگی میں کیوں نہیں ہو سکتی ؟اور اس کا صحیح وقت مرنے کے بعد دوسری زندگی ہی کیوں ہے ؟ اور یہ کیوں ضروری ہے کہ یہ جواب دہی اس وقت ہو جب پوری نوع انسانی اس دنیا میں ختم ہو جاۓ اور تمام اولین و آخر ین کو بیک وقت دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کیا جاۓ ؟ آدمی ذرا بھی عقل سے کام لے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ بھی سراسر معقول ہے اور حکمت و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ محاسبہ دوسری زندگی ہی میں ہو اور سب انسانوں کا ایک ساتھ ہو۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے پورے کارنامہ حیات کے لیے جواب دہ ہے۔ اس لیے اس کی جواب دہی کا صحیح وقت لازماً وہی ہونا چاہیے جب اس کا کارنامہ حیات مکمل ہو چکا ہو۔ اور دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان ان تمام اثرات و نتائج کے لیے ذمہ دار ہے جو اس کے افعال سے دوسروں کی زندگی پر مترتب ہوۓ ہوں، اور وہ اثرات و نتائج اس کے مرنے کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے بعد مدت ہاۓ دراز تک چلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا صحیح محاسبہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب پوری نوع انسانی کا کارنامہ حیات ختم ہو جاۓ اور تمام اولین و آخر ین بیک وقت جواب دہی کے لیے جمع کیے جائیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 30۔ یونس، حواشی 10۔ 11۔ ہود، حاشیہ 105۔ النحل، حاشیہ 35۔ جلد سوم، الحج، حاشیہ 9۔ النمل، حاشیہ 27۔ الروم، حواشی 5۔6۔جلد چہارم، ص، حواشی 28۔ 30۔ المؤمن، حاشیہ 80۔ الجاشیہ، حواشی 27 تا 29 ) |
Surah 95 : Ayat 4
لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا1
1 | یہ ہے وہ بات جس پر انجیر و زیتون کے علاقے یعنی شام و فلسطین اور کوہ طور اور مکہ کے پر امن شہر کی قسم کھائی گئی ہے۔ انسان کے بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وہ ا علی درجہ کا جسم عطا کیا گیا ہے جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں دیا گیا۔ اور اسے فکر و فہم اور علم و عقل کی وہ بلند پایہ قابلیتیں بخشی گئی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں بخشی گئیں۔ پھر چونکہ نوع انسانی کے اس فضل و کمال کا سب سے زیادہ بلند نمونہ انبیاء علیہم السلام ہیں اور کسی مخلوق کے لیے اس سے اونچا کوئی مرتبہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالی نے اسے منصب نبوت عطا کرنے کے لیے منتخب فرمائے۔ اس لیے انسان کے احسن تقویم پر ہونے کی شہادت میں ان مقامات کی قسم کھائی گئی ہے جو خدا کے پیغمبروں سے نسبت رکھتے ہیں۔ شام و فلسطین کا علاقہ وہ علاقہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک بکثرت انبیاء مبعوث ہوئے۔ کوہ طور وہ مقام ہے جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی۔ رہا مکہ معظمہ تو اس کی بنا ہی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے ہاتھوں پڑی، انہی کی بدولت وہ عرب کا مقدس ترین مرکزی شہر بنا، حضرت ابراہیم ہی نے یہ دعا مانگی تھی کہ ’’رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا آمِنًا‘‘’’اے میرے رب اس کو ایک پر امن شہر بنا‘‘ (البقرہ ۔ 126) اور اسی دعا کی یہ برکت تھی کہ عرب میں ہر طرف پھیلی ہوئی بد امنی کے درمیان صرف یہی ایک شہر ڈھائی ہزار سال سے امن کا گہوارہ بنا ہوا تھا پس کلام کا مقصود یہ ہے کہ ہم نے نوع انسانی کو ایسی بہترین ساخت پر بنایا کہ اس میں نبوت جیسے عظیم مرتبے کے حامل انسان پیدا ہوئے |