Ayats Found (3)
Surah 27 : Ayat 10
وَأَلْقِ عَصَاكَۚ فَلَمَّا رَءَاهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَآنٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْۚ يَـٰمُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّى لَا يَخَافُ لَدَىَّ ٱلْمُرْسَلُونَ
اور پھینک تو ذرا اپنی لاٹھی" جونہی کہ موسیٰؑ نے دیکھا لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے1 تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا "اے موسیٰؑ، ڈرو نہیں میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے2
2 | یعنی میرے حضور اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ رسول کو کوئی گزند پہنچے۔ رسالت کے منصب عظیم پرمقرر کرنے کےلیے جب میں کسی کو اپنی پیشی میں بلاتا ہوں تو اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں۔ اس لیے خواہ کیسا ہی کوئی غیر معمولی معاملہ پیش آئے رسول کو بے خوف اور مطمئن رہنا چاہیے کہ اُس کےلیے وہ کسی ضرررساں نہ ہوگا۔ |
1 | سورہء اَعراف اور سورہء شعراء میں اس کےلیے ثعبان (اژدھا ہے) کالفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہاں اس ’’جان‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے جو چھوٹے سانب کےلیے بولاجاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسامت میں اژدھا تھاء مگر اس کی حرکت کی تیزی ایک چھوٹے سانپ جیسی تھی۔ اسی مفہوم کو سورہ طٰہٰ میں حیۃٌ تسعٰی (دوڑتےہوئےسانپ) کے الفاظ میں اداکیاگیاہے |
Surah 33 : Ayat 38
مَّا كَانَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ ٱللَّهُ لَهُۖۥ سُنَّةَ ٱللَّهِ فِى ٱلَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلُۚ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا
نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہو 1یہی اللہ کی سنت ان سب انبیاء کے معاملہ میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے2
2 | یعنی انبیاء کے لیے ہمیشہ سے یہ ضابطہ مقرر رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم بھی آئے اس پر عمل کرنا ان کے لیے قضائے مُبْرَم ہے جس سے کوئی مفر اُن کے لیے نہیں ہے۔ جب اللہ تعالٰی اپنے نبی پر کوئی کام فرض کر دے تو اسے وہ کام کر کے ہی رہنا ہوتا ہے خواہ ساری دُنیا اس کی مخالفت پر تُل گئی ہو۔ |
1 | ان الفاظ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کے لیے تو اس طرح کا نکاح محض مباح ہے مگر بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے یہ ایک فرض تھا جو اللہ نے آپ پر عائد کیا تھا |
Surah 33 : Ayat 39
ٱلَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَـٰلَـٰتِ ٱللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُۥ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا ٱللَّهَۗ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ حَسِيبًا
(یہ اللہ کی سنت ہے اُن لوگوں کے لیے) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے1
1 | اصل الفاظ ہیں کَفیٰ بِا للّٰہِ حَسِیْباً۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر خوف اور خطرے کے مقابلے میں اللہ کافی ہے۔ دوسرے یہ کہ حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے ، اس کے سوا کسی اور کی باز پُرس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں |