Ayats Found (6)
Surah 12 : Ayat 109
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالاً نُّوحِىٓ إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰٓۗ أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۗ وَلَدَارُ ٱلْأَخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اے محمدؐ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے، اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقویٰ کی روش اختیار کی کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟
Surah 14 : Ayat 10
۞ قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِى ٱللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّىۚ قَالُوٓاْ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَـٰنٍ مُّبِينٍ
اُن کے رسولوں نے کہا 1"کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا ر =ہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدت مقرر تک مہلت دے2" اُنہوں نے جواب دیا 3"تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے اچھا تو لاؤ کوئی صریح سند4"
4 | یعنی کوئی ایسی سند جسے ہم آنکھوں سے دیکھیں اور ہاتھوں سے چھوئیں اور جس سے ہم کو یقین آجائے کہ واقعی خدا نے تم کو بھیجا ہے اور یہ پیغام جو تم لائے ہو خدا ہی کا پیغام ہے |
3 | اُن کا مطلب یہ تھا کہ تم ہر حیثیت سے بالکل ہم جیسے انسان ہی نظر آتے ہو۔ کھاتے ہو، پیتے ہو، سوتے ہو، بیوی بچے رکھتے ہو، بھوک ، پیاس ، بیماری، دُکھ، سردی، گرمی، ہر چیز کے احساس میں اور ہر بشری کمزوری میں ہمارے مشابہ ہو۔ تمہارے اندر کوئی غیر معمولی پن ہمیں نظڑ نہیں آتا جس کی بنا پر ہم یہ مان لیں کہ تم کوئی پہنچے ہوئے لوگ ہو اور خدا تم سے ہم کلام ہوتا ہے اور فرشتے تمہارے پاس آتے ہیں |
2 | مدّتِ مقرر سے مراد افراد کی موت کا وقت بھی ہو سکتا ہے اور قیامت بھی۔ جہاں تک قوموں کا تعلق ہے ان کے اُٹھنے اور گرنے کے لیے اللہ کے ہاں مدت کا تعیّن اُن کے اوصاف کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کرلے تو اس کی مہلتِ عمل گھٹا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے بُرے اوصاف کو اچھے اوصاف سے بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے ، حتیٰ کہ وہ قیامت تک بھی دراز ہو سکتی ہے۔ اسی مضمون کی طرف سورۂ رعد کی آیت نمبر ۱۱ اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہ بدل دے |
1 | رسولوں نے یہ بات اس لیے کہی کہ ہر زمانے کے مشرکین خدا کی ہستی کو مانتے تھَے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق وہی ہے۔ اسی بنیاد پر رسولوں نے فرمایا کہ آخر تمہیں شک کس چیز پر ہے ؟ ہم جس چیز کی طرف تمہیں دعوت دیتے ہیں وہ اِس کے سوا اور کیا ہے کہ اللہ فاطر السمٰوات والارض تمہاری بندگی کا حقیقی مستحق ہے۔ پھر کیا اللہ کے بارے میں تم کو شک ہے؟ |
Surah 14 : Ayat 11
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦۖ وَمَا كَانَ لَنَآ أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَـٰنٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ
ان کے رسولوں نے ان سے کہا 1"واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سند لا دیں سند تو اللہ ہی کے اذن سے آسکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے
1 | یعنی بلا شبہہ ہم ہیں تو انسان ہی مگر اللہ نے تمہارے درمیان ہم کو ہی علمِ حق اور بصیرت ِ کاملہ عطا کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس میں ہمارے بس کی کوئی بات نہیں۔ یہ تو اللہ کے اختیارات کا معاملہ ہے ۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو جو کچھ چاہے دے۔ ہم نہ یہ کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس آیا ہے وہ تمہارے پاس بھجوادیں اور نہ یہی کر سکتے ہیں کہ جو حقیقتیں ہم پر منکشف ہوئی ہیں اُن سے آنکھیں بند کر لیں |
Surah 16 : Ayat 43
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالاً نُّوحِىٓ إِلَيْهِمْۚ فَسْــَٔلُوٓاْ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اے محمدؐ، ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے1 اہل ذکر2 سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے
2 | یعنی علماء اہلِ کتاب، اور وہ دوسرے لوگ جو چاہے سکّہ بند علماء نہ ہوں مگر بہرحال کتب ِآسمانی کی تعلیمات سے واقف اور انبیاء ِسابقین کی سرگزشت سے آگاہ ہوں۔ |
1 | یہاں مشرکین مکہ کے ایک اعتراض کو نقل کیے بغیراسکا جواب دیا جا رہا ہے۔ اعتراض وہی ہے جو پہلے بھی تمام انبیاء پر ہو چکا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین نے بھی آپ پر بارہا کیا تھا کہ تم ہماری ہی طرح کے انسان ہو، پھر ہم کیسے مان لیں کہ خدا نے تم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ |
Surah 16 : Ayat 44
بِٱلْبَيِّنَـٰتِ وَٱلزُّبُرِۗ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے1، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں
1 | تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی، اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کر کے بھی، اور ”ذکرِ الہٰی“ کے منشا کے مطابق اُس کے نظام کو چلا کر بھی۔ اس طرح اللہ تعالٰی نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازمًا ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے۔ ”ذکر“ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچایا جا سکتا تھا۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالٰی کی حکمت اور رحمت اور ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ”ذکر“ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے۔ وہ اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنہیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں اُن کے مقابلہ میں وہ اُس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جو اِس ”ذکر“ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انہیں زندگی کی ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے۔ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے، اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام”ذکر“ کے منشا کی شرح ہو۔ یہ آیت جس طرح اُن منکرینِ نبوت کی حجّت کے لیے قاطع تھی جو خدا کا ”ذِکر“ بشر کے ذریعہ سے آنے کو نہیں مانتے تھے اُسی طرح آج یہ اُن منکرینِ حدیث کی حجت کے لیے بھی قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ”ذکر“ کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف ذکر پیش کر دیا تھا، یا اِس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے نہ نبی کی تشریح، یا اِس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ذکر ہی قابلِ اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے، نبی کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی یا با قی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے، غرض اِن چاروں باتوں میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں، اُن کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے۔ اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نے اُس منشا ہی کو فوت کر دیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اُسے واسطۂ تبلیغ بنایا گیا تھا۔ اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے (معاذ اللہ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا”ذکر“ ایک نبی کے ذریعہ سے بھیجا۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہو جانے کا ہو سکتا تھا۔ اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدیؐ، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلکِ معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صر ف اُن لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالٰی خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو نا گزیر ٹھیرارہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذکر کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرینِ حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونۂ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدیؐ ختم ہو گئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اُن طرح کا رہ گیا جیسا ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کر تے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اُسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ ثابت کر دیتی ہے، صرف ایک بے وقوف ہی اس کے بعد ختم ِنبوت پراصرار کرسکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیرخود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے، اس لیے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مُدعی سست کی حمایت میں گواہانِ چُست کی بات ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے۔ قاتلہم اللہ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِحدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔ |
Surah 21 : Ayat 7
وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالاً نُّوحِىٓ إِلَيْهِمْۖ فَسْــَٔلُوٓاْ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور اے محمدؐ، تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے1 تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو2
2 | یعنی یہ یہودی، جو آج اسلام کی دشمنی میں تمہارے ہم نوا ہیں اور تم کو مخالفت کے داؤ پیچ سکھایا کرتے ہیں ، ان ہی سے پوچھ لو کہ موسیٰ اور دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کون تھے ۔ انسان ہی تھے یا کوئی اور مخلوق ؟ |
1 | یہ جواب ہے ان کے اس قول کا کہ ’’ یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے ‘‘ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت کو اس بات کی دلیل قرار دیتے تھے کہ آپ نبی نہیں ہو سکتے ۔ جواب دیا گیا کہ پہلے زمانے کے جن لوگوں کو تم خود مانتے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے ، وہ سب بھی بشر ہی تھے اور بشر ہوتے ہوۓ ہی خدا کی وحی سے سرفراز ہوۓ تھے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، یٰسین، حاشیہ 11 ) |