Ayats Found (22)
Surah 4 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَآءًۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلْأَرْحَامَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے1 اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے
1 | چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصُوصیّت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں، اس لیے تمہید اس طرح اُٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دُوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دُوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔ ” تم کو ایک جان سے پیدا کیا“ یعنی نوعِ انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی۔ دُوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسلِ انسانی پھیلی۔ ”اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“، اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا ( تَلموُد میں اَور تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حوّا کو حضرت آدم علیہ السّلام کی دائیں جانب کی تیرھویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا)۔ لیکن کتاب اللہ اِس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہُوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعیّن کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے |
Surah 6 : Ayat 99
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ نَبَاتَ كُلِّ شَىْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ ٱلنَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّـٰتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَـٰبِهٍۗ ٱنظُرُوٓاْ إِلَىٰ ثَمَرِهِۦٓ إِذَآ أَثْمَرَ وَيَنْعِهِۦٓۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكُمْ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے، پھر ان سے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر اُن کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، اِن چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
Surah 7 : Ayat 189
۞ هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَاۖ فَلَمَّا تَغَشَّـٰهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِۦۖ فَلَمَّآ أَثْقَلَت دَّعَوَا ٱللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ ءَاتَيْتَنَا صَـٰلِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے
Surah 30 : Ayat 21
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦٓ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَٲجًا لِّتَسْكُنُوٓاْ إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةًۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں1 تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو2 اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی3 یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں
3 | محبت سےمراد یہاں جنسی محبت(Sexual Love)ہے جومرد اورعورت کےاندرجذب وکشش کی ابتدائی محرک بنتی ہےاورپھرانہیں ایک دوسرےسےچسپاں کیے رکھتی ہے۔اوررحمت سےمراد وہ روحانی تعلق ہےجوازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرتا ہے،جس کی بدولت وہ ایک دوسرےکےخیرخواہ،ہمدرد وغم خواراورشریکِ رنج وراحت بن جاتےہیں،یہاں تک کہ ایک وقت ایساآتاہےجب جنسی محبت پیچھے جاپڑتی ہے اوربڑھاپے میں یہ جیون ساتھی کچھ جوانی سے بھی بڑھ کرایک دوسرے کے حق میں رحیم وشفیق ثابت ہوتے ہیں۔یہ دومثبت طاقتیں ہیں جوخالق نےاُس ابتدائی اضطراب کی مدد کےلیے انسان کے اندرپیدا کی ہیں جس کاذکراوپرگزراہے۔وہ اضطراب توصرف سکون چاہتاہےاس کی تلاش میں مرد وعورت کو ایک دوسے کی طرف لے جاتاہے۔اس کے بعد یہ دو طاقتیں آگے بڑھ کران کےدرمیان مستقل رفاقت کاایسارشتہ جوڑ دیتی ہیں جودوالگ موحولوں میں پرورش پائےہوئےاجنبیوں کوملاکرکچھ اس طرح پیوستہ کرتا ہےکہ عمربھروہ زندگی کے منجدھارمیں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتےرہتے ہیں۔ظاہرہےکہ یہ محبت ورحمت جس کاتجربہ کروڑوں انسانوں کواپنی زندگی میں ہورہاہے،کوئی مادی چیزنہیں ہےجووزن اورپیمائش میں آسکے،نہ انسانی جسم کے عناصرترکیبی میں کہیں اس کے سرچشمے کی نشان دہی کی جاسکتی ہے،نہ کسی لیبارٹری میں اس کی پیدائش اوراس کے نشوونما کے اسباب کاکھوج لگایاجاسکتا ہے۔اس کی کوئی توجیہ اس کے سوانہیں کی جاسکتی کہ ایک خالقِ حکیم نے بالاراہ ایک مقصد کے لیے پوری مناسبت کےساتھ اسے نفسِ انسانی میں ودیعت کردیاہے۔ |
2 | یعنی یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہوگیاہے بلکہ بنانے والےنےبالارادہ اِس غرض کےلیے یہ انتظام کیاہے کہ مرداپنی فطرت کے تقاضے عورت کےپاس،اورعورت اپنی فطرت کی مانگ مردکےپاس پائے،اوردونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہوکرہی سکون واطمینان حاصل کریں۔یہی وہ حکیمانہ تدبیرہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کےبرقراررہنےکا،اوردوسری طرف انسانی تہذیب وتمدن کووجود میں لانےکاذریعہ بنایاہے۔اگردونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کےساتھ پیداکردی جاتیں اوران میں وہ اضطراب نہ رکھ دیاجاتاجواُن کےباہمی اتصال ووابستگی کے بغیرمبدّل بسکون نہیں ہوسکتا،توانسانی نسل توممکن ہےکہ بھیڑبکریوں کی طرح چل جاتی،لیکن کسی تہذیب وتمدن کےوجود میں آنےکاکوئی امکان نہ تھا۔تمام انواع حیوانی کےبرعکس نوع انسانی میں تہذیب وتمدن کےرونما ہونے کابنیادی سبب یہی ہےکہ خالق نےاپنی حکمت سے مرداورعورت میں ایک دوسرے کےلیے وہ مانگ،وہ پیاس،وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دی جسے سکون میسرنہیں آتاجب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑ کرنہ رہیں۔یہی سکون کی طلب ہے جس نےانہیں مل کرگھربنانےپرمجبورکیا۔اسی کی بدولت خاندان اورقبیلے وجود میں آئے۔اوراسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدّن کانشوونما ہُوا۔اس نشوونمامیں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگارضرور ہوئی ہیں مگروہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں۔اصل محرک یہی اضطراب ہےجسےمرد وعورت کےوجود میں ودیعت کرکےانہیں’’گھر‘‘کی تاسیس پرمجبورکردیاگیا۔کون صاحبِ عقل یہ سوچ سکتاہےکہ دانائی کا یہ شاہکارفطرت کی اندھی طاقتوں سےمحض اتفاقًاسرزد ہوگیاہے؟یابہت سے خدایہ انتظام کرسکتےتھےکہ اس گہرےحکیمانہ مقصد کوملحوظ رکھ کرہزارہابرس سےمسلسل بےشمارمردوں اوربےشمارعورتوں کویہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیداکرتے چلےجائیں؟یہ توایک حکیم اورایک ہی حکیم کی حکمت کاصریح نشان ہےجسےصرف عقل کےاندھے ہی دیکھنےسے انکارکرسکتے ہیں۔ |
1 | یعنی خالق کاکمالِ حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی،بلکہ اسے دو صنفوں(Sexes) کی شکل میں پیداکیاجوانسانیت میں یکساں ہیں،جن کی بناوٹ کوبنیادی فارمولا بھی یکساں ہے،مگردونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت،مختلف ذہنی ونفسی اوصاف،اورمختلف جذبات واعیات لےکرپیدا ہوتی ہیں۔اورپھران کے درمیان یہ حیرگ انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہےکہ ان میں سے ہرایک دوسرے کوپوراجوڑاہے،ہرایک کاجسم اوراس کے نفسیات وواعیات دوسرے کے جسمانی ونفسیاتی تقاضوں کامکمل جواب ہیں۔مزیدبرآں وہ خالقِ حکیم ان دونوں صنفوں کےافراد کوآغازِآفرینش سےبرابراس تناسب کے ساتھ پیداکیے چلاجارہاہے کہ آج تک کبھی ایسانہیں ہُواکہ دنیا کی کسی قوم یاکسی خطہ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیداہوئےہوں،یاکہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیداہوتی چلی گئی ہوں۔یہ ایسی چیزہےجس میں کسی انسانی تدبیرکاقطعًاکوئی دخل نہیں ہے۔انسان ذرہ برابربھی نہ اِس معاملہ میں اثرانداز ہوسکتاہےکہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنانہ خصوصیات اورلڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیداہوتے رہیں جوایک دوسرے کاٹھیک جوڑ ہوں،اورنہ اس معاملہ ہی میں اس کے پاس اثراندازہونےکاکوئی ذریعہ ہےکہ عورتوں اورمردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔ہزارہا سال سےکروڑوں اوراربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیروانتظام کااتنے متناسب طریقےسےپیہم جاری رہنااتفاقًابھی نہیں ہوسکتا،اوریہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیرکانتیجہ بھی نہیں ہوسکتا۔یہ چیزصریحًااس بات پردلالت کررہی ہےکہ ایک خالقِ حکیم،اورایک ہی خالقِ حکیم نےاپنی غالب حکمت وقدرت سے ابتداءًمرد اورعورت کاایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا،پھراس بات کاانتظام کیاکہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حدوحساب مرد اوربے حدوحساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیابھرمیں ایک تناسب کے ساتھ پیداہوں۔ |
Surah 39 : Ayat 6
خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْأَنْعَـٰمِ ثَمَـٰنِيَةَ أَزْوَٲجٍۚ يَخْلُقُكُمْ فِى بُطُونِ أُمَّهَـٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِى ظُلُمَـٰتٍ ثَلَـٰثٍۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ ٱلْمُلْكُۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ
اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اس کا جوڑا بنایا 1اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے2 وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے3 یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے4، بادشاہی اسی کی ہے5، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے6، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟7
7 | یہ الفاظ قابلِ غور ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ تم کدھر پھرے جا رہے ہو۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو۔ یعنی کوئی دوسرا ہے جو تم کو اُلٹی پٹی پڑھا رہا ہے اور تم اس کے بہکائے میں آ کر ایسی سیدھی سی عقل کی بات بھی نہیں سمجھ رہے ہو۔ دوسری بات جو اس اندازِ بیان سے خود مترشح ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ تم کا خطاب پھرانے والوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ان کے اثر میں آ کر پھر رہے تھے۔ اس میں ایک لطیف مضمون ہے جو ذرا سے غور فکر سے بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔ پھرانے والے اسی معاشرے میں سب کے سامنے موجود تھے اور ہر طرف اپنا کام علانیہ کر رہے تھے، اس لیے ان کا نام لینے کی حاجت نہ تھی۔ ان کو خطاب کرنا بھی بیکار تھا، کیونکہ وہ اپنی اغراض کے لیے لوگوں کو خدائے واحد کی بندگی سے پھیرنے اور دوسروں کی بندگی میں پھانسنے اور پھانسے رکھنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ سمجھانے سے سمجھنے والے نہ تھے، کیونکہ نہ سمجھنے ہی سے ان کا مفاد وابستہ تھا، اور سمجھنے کے بعد بھی وہ اپنے مفاد کو قربان کرنے کے لیے مشکل ہی سے تیار ہو سکتے تھے۔ البتہ رحم کے قابل ان عوام کی حالت تھی جو ان کے چکمے میں آ رہے تھے۔ اُن کی کوئی غرض اس کاروبار سے وابستہ نہ تھی، اس لیے وہ سمجھانے سے سمجھ سکتے تھے۔ اور ذرا سی آنکھیں کھُل جانے کے بعد وہ یہ بھی دیکھ سکتے تھے کہ جو لوگ انہیں خدا کے آستانے سے ہٹا کر دوسرے آستانوں کا راستہ دکھاتے ہیں وہ اپنے اس کاروبار کا فائدہ کیا اُٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ کرنے والے چند آدمیوں سے رُخ پھیر کر گمراہ ہونے والے عوام کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔ |
6 | دوسرے الفاظ میں استدلال یہ ہے کہ جب وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی ساری بادشاہی ہے تو پھر لازماً تمہارا اِلٰہ (معبود) بھی وہی ہے۔دوسرا کوئی اِلٰہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ نہ پروردگاری میں اس کا کوئی حصّہ نہ بادشاہی میں اس کا کوئی دخل۔ آخر تمہاری عقل میں یہ بات کیسے سماتی ہے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا تو ہو اللہ۔ سورج اور چاند کو مسخّر کرنے والا اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لانے والا بھی ہو اللہ۔ تمہارا اپنا اور تمام حیوانات کا خالق و رب بھی ہو اللہ۔ اور تمہارے معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔ |
5 | یعنی تمام اختیارات کا مالک وہی ہے اور ساری کائنات میں اسی کا حکم چل رہا ہے |
4 | یعنی مالک، حاکم اور پروردگار۔ |
3 | تین پردوں سے مراد ہے پیٹ، رحم اور مَشِیْمَہ (وہ جھلّی جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے)۔ |
2 | مویشی سے مراد ہیں اُونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری۔ ان کے چار نر اور چار مادہ مل کر آٹھ نر و مادہ ہوتے ہیں۔ |
1 | یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے حضرت آدم سے انسانوں کو پیدا کر دیا اور پھر ان کی بیوی حضرت حوّا کو پیدا کیا۔ بلکہ یہاں کلام میں ترتیبِ زمان کے بجائے ترتیبِ بیان ہے جس کی مثالیں ہر زبان میں پائی جاتی ہیں۔مثلاً ہم کہتے ہیں تم نے آج جو کچھ کیا وہ مجھے معلوم ہے، پھر جو کچھ تم کل کر چکے ہو اس سے بھی میں باخبر ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ کل کا واقعہ آج کے بعد ہوا ہے۔ |
Surah 16 : Ayat 4
خَلَقَ ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا1
1 | اس کےدو معنی ہو سکتے ہیں اور غالبًا دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث واستدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدّعا کے لیے حجتیں پیش کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پراُتر آیا ہے۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اُسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے(جس کی تشریح ہم اس سلسلۂ بیان کےآخر میں کریں گے)۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کر کہاں پہنچا، کس جگہ تو نے ابتداء ًپرورش پائی، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تُو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھول کر تُو کس کے منہ آرہا ہے۔ |
Surah 18 : Ayat 37
قَالَ لَهُۥ صَاحِبُهُۥ وَهُوَ يُحَاوِرُهُۥٓ أَكَفَرْتَ بِٱلَّذِى خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّٮٰكَ رَجُلاً
اُس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا 1"کیا تو کفر کرتا ہے اُس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا؟
1 | اگرچہ اس شخص نے خدا کی ہستی سے انکار نہیں کیا تھا، بلکہ وَلَئِنْ رُّ دِدْتُّ اِلٰی رِبِّیْ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کے وجود کا قائل تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے ہمسائے نے اسے کفر باللہ کا مجرم قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر باللہ محض ہستی باری کے انکار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ تکبُّر اور فخر و غرور اور انکار آخرت بھی اللہ سے کفر ہی ہے۔ جس نے یہ سمجھا کہ بس میں ہی میں ہوں، میری دولت اور شان و شوکت کسی کا عطیہ نہیں بلکہ میری قوت و ابلیت کا نتیجہ ہے، اور میری دولت لازوال ہے، کوئی اس کو مجھ سے چھیننے والا نہیں، اور کسی کے سامنے مجھے حساب دینا نہیں، وہ اگر خدا کو مانتا بھی ہے تو محض ایک وجود کی حیثیت سے مانتا ہے، اپنے مالک اور آقا اور فرماں روا کی حیثیت سے نہیں مانتا۔ حالانکہ ایمان باللہ اِسی حیثیت سے خدا کو ماننا ہے نہ کہ محض ایک موجود ہستی کی حیثیت سے۔ |
Surah 22 : Ayat 5
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓاْ أَشُدَّكُمْۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــًٔاۚ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنۢبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجِۭ بَهِيجٍ
لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے1، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی2 (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کر دیں ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچّے کی صورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے3 اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی
3 | یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا ، بوڑھا ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پرہنسنے لگتے ہیں |
2 | یہ اشارہ ہے ان مختلف اطوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آسکتی ہیں ، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس زمانے کے عام بدو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے ، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہوتا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے ، اس ہے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے |
1 | اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔ یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز آدم علیہ السلام سے کیا گیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گۓ تھے ، اور پھر آگے نسل انسانی کی سلسلہ نطفے سے چلا ، جیسا کہ سورہ سجدہ میں فرمایا : وَبَدَءَ خَلْقَ الْاِنْسَا نِ مِنْ طِیْنٍ ہ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآ ءٍ مَّھِیْنٍ O (آیات 7۔8) ’’ انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے |
Surah 23 : Ayat 13
ثُمَّ جَعَلْنَـٰهُ نُطْفَةً فِى قَرَارٍ مَّكِينٍ
پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا
Surah 23 : Ayat 14
ثُمَّ خَلَقْنَا ٱلنُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا ٱلْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا ٱلْمُضْغَةَ عِظَـٰمًا فَكَسَوْنَا ٱلْعِظَـٰمَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَـٰهُ خَلْقًا ءَاخَرَۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحْسَنُ ٱلْخَـٰلِقِينَ
پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا1، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا2
2 | یعنی کوئی خالی الذہن آدمی بچے کو ماں کے رحم میں پرورش پاتے تدیکھ کر یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہاں وہ انسان تیار ہو رہا ہے جو باہر جا کر عقل اور دانائی اور صنعت کے یہ کچھ کمالات دکھاۓ گا اور ایسی ایسی حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں اس سے ظاہر ہوں گی۔ وہاں وہ ہڈیوں اور گوشت پوت کا ایک پلندا سا ہوتا ہے جس میں وضع حمل کے آغاز تک زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نہ سماعت، نہ بصارت ، نہ گویائی، نہ عقل و خرد، نہ اور کوئی خوبی۔ مگر باہر آ کر وہ چیز ہی کچھ اور بن جاتا ہے جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اب وہ ایک سمیع و بصیر اور ناطق وجود ہوتا ہے۔ اب وہ تجربے اور مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک ایسی خودی ابھرنی شروع ہوتی ہے جو بیداری کے پہلے ہی لمحہ سے اپنی دسترس کی ہر چیز پر تحکم جتاتی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر وہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے ، اس کی ذات میں یہ ’’چیزے دیگر ‘‘ ہونے کی کیفیت نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جوان ہوتا ہے تو بچپن کی بہ نسبت کچھ اور ہوتا ہے۔ ادھیڑ ہوتا ہے تو جوانی کے مقابلے میں کوئی اور چیز ثابت ہوتا ہے۔ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو نئی نسلوں کے لیے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا بچپن کیا تھا اور جوانی کیسی تھی۔ اتنا بڑا تغیر کم از کم اس دنیا کی کسی دوسری مخلوق میں واقع نہیں ہوتا۔ کوئی شخص ایک طرف کسی پختہ عمر کے انسان کی طاقتیں اور قابلیتیں اور کام دیکھے ، اور دوسری طرف یہ تصور کرے کہ پچاس ساٹھ برس پہلے ایک روز جو بوند ٹپک کر رحم مادر میں گری تھی اس کے اندر یہ کچھ بھرا ہوا تھا، تو بے اختیار اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی جو آگے کے فقرے میں آ رہی ہے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہوں سورہ حج کے حواشی 5۔ 6۔9 |