Ayats Found (11)
Surah 4 : Ayat 122
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۖ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقًّاۚ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ ٱللَّهِ قِيلاً
رہے وہ لوگ جو ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، توا نہیں ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنی بات میں سچا ہوگا
Surah 10 : Ayat 4
إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًاۖ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقًّاۚ إِنَّهُۥ يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ لِيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ بِٱلْقِسْطِۚ وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمُۢ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ
اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے1، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے بے شک پیدائش کی ابتدا وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا2، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پییں اور دردناک سزا بھگتیں اُس انکار حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے3
3 | یہ وہ ضرورت ہے جس کی بنا پراللہ تعالٰی انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ اوپر جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ خلق کا اعادہ ممکن ہے اور اسے مُستبعَد سمجھنا درست نہیں ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اعادۂ خلق، عقل وانصاف کی روسے ضروری ہے اور یہ ضرورت تخلیقِ ثانیہ کے سوا کسی دوسرے طریقے سے پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کو اپنا واحد رب مان کر جو لوگ صحیح بندگی کا رویہ اختیار کریں وہ اس کے مستحق ہیں کہ انہیں اپنے اس بجا طرزِ عمل کی پوری پوری جزا ملے۔ اور جولو گ حقیقت سے انکار کر کے اس کے خلاف زندگی بسر کریں وہ بھی اس کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے اس بےجا طرزِعمل کا برا نتیجہ دیکھیں۔ یہ ضرورت اگر موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں ہو رہی ہے (اور ہر شخص جوہٹ دھرم نہیں ہے جانتا ہے کہ نہیں ہو رہی ہے) تو اسے پورا کرنے کے لیے یقینًا دوبارہ زندگی ناگزیر ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورۂ ہود، حاشیہ نمبر ۱۰۵) |
2 | یہ فقرہ دعوے اور دلیل دونوں کا مجموعہ ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ خدا دوبارہ انسان کو پیدا کرے گا اور اس پر دلیل یہ دی گئی ہے کہ اسی نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا۔ جو شخص یہ تسلیم کرتا ہو کہ خدا نے خلق کی ابتدا کی ہے (اوراس سے بجز اُن دہریوں کے جو محض پادریوں کے مذہب سے بھاگنے کے لیے خلقِ بے خالق جیسے احمقانہ نظریے کو اوڑھنے پر آمادہ ہو گئے اورکون انکارکرسکتا ہے) وہ اس بات کو ناممکن یا بعد از فہم قرار نہیں دے سکتا کہ وہی خدا اس خلق کا پھر اعادہ کرے گا۔ |
1 | یہ نبی کی تعلیم کا دوسرا بنیادی اصول ہے۔ اصلِ اوّل یہ تمہارا رب صرف اللہ ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ اوراصلِ دوم یہ کہ تمہیں اس دنیا سے واپس جا کر اپنے رب کو حساب دینا ہے۔ |
Surah 31 : Ayat 9
خَـٰلِدِينَ فِيهَاۖ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقًّاۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے1
1 | یعنی کوئی چیزاس کو اپنا وعدہ پورا کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی، اور وہ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک ٹھیک حکمت اور عدل کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے’’یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے‘‘ کہنے کے بعد اللہ تعالٰی کی ان دو صفات کو بیان کرنے کا مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو بالارادہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ اس کائنات میں کوئی طاقت ایسی ہے جو اس کا وعدہ پورا ہونے میں مانع ہو سکتی ہو، اس لئے اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا کہ ایمان و عمل صالح کے انعام میں جو کچھ اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ کسی کو نہ ملے۔ نیز یہ کہ اللہ کی طرف سے اس انعام کا اعلان سراسراس کی حکمت اور اس کے عدل پر مبنی ہے۔ اس کے ہاں کوئی غلط بخشی نہیں ہے کہ مستحق کو محروم رکھا جائے اورغیر مستحق کو نوازدیا جائے۔ ایمان و عمل صالح سے متصف لوگ فی الواقع اس انعام کے مستحق ہیں اور اللہ یہ انعام انہی کو عطا فرمائے گا۔ |
Surah 18 : Ayat 98
قَالَ هَـٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّىۖ فَإِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّى جَعَلَهُۥ دَكَّآءَۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّى حَقًّا
ذوالقرنین نے کہا 1" یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئیگا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا، اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے2"
2 | یہاں پہنچ کر ذو القرنین کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ اگرچہ کفار مکہ کے امتحانی سوال پر سنایا گیا ہے، مگر قصۂ اصحاب کہف اور قصۂ موسیٰ و خضر کی طرح اس کو بھی قرآن نے اپنے قاعدے کے مطابق اپنے مدعا کے لیے پوری طرح استعمال کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ذوالقرنین، جس کی عظمت کا حال تم نے اہل کتاب سے سنا ہے، محض ایک فاتح ہی نہ تھا، بلکہ توحید اور آخرت کا قائل تھا، عدل و انصاف اور فیاضی کے اصولوں پر عامل تھا، اور تم لوگوں کی طرح کم ظرف نہ تھا کہ ذرا سی سرداری ملی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم چومن دیگرے نیست۔ |
1 | یعنی اگرچہ میں نے اپنی حد تک انتہائی مستحکم دیوار تعمیر کی ہے، مگر یہ لازوال نہیں ہے۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے، یہ قائم رہے گی، اور جب وہ وقت آۓ گا جو اللہ نے اس کی تباہی کے لیے مقدر کر رکھا ہے تو پھر اس کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی چیز نہ بچا سکے گی۔ ’’وعدے کا وقت‘‘ ذو معنی لفظ ہے۔ اس سے مراد اس دیوار کی تباہی کا وقت بھی ہے اور وہ ساعت بھی جو اللہ نے ہر چیز کی موت اور فنا کے لیے مقرر فرما دی ہے، یعنی قیامت۔ (اس دیوار کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۔ 2) |
Surah 10 : Ayat 55
أَلَآ إِنَّ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۗ أَلَآ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
سنو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے سُن رکھو! اللہ کا وعدہ سچّا ہے مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں
Surah 30 : Ayat 60
فَٱصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّۖ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ ٱلَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ
پس (اے نبیؐ) صبر کرو، یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے1، اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے2
2 | یعنی دشمن تم کوایساکمزورنہ پائیں کہ ان کےشوروغوغا سےتم دب جاؤ،یاان کی بہتان وافترا کی مہم سےتم مرعوب ہوجاؤ،یاان کی پھبتیوں اورطعنوں اورتضحیک واستہزاءسےتم پست ہمت ہوجاؤ،یاان کی دھمکیوں اورطاقت کےمظاہروں اورظلم وستم سے تم ڈرجاؤ،ان کے دیے ہوئےلالچوں سےتم پھسل جاؤ،یاقومی مفاد کےنام پرجواپیلیں وہ تم سےکررہے ہیں ان کی بناپرتم ان کے ساتھ مصالحت کرلینےپراترآؤ۔اس کےبنائے وہ تم کواپنے مقصدکےشعور میں اتنا ہوشمند،اوراپنےیقین وایمان میں اتنا پختہ اوراس عزم میں اتناراسخ،اوراپنے کیرکٹرمیں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایاجاسکے،نہ کسی قیمت پرتمہیں خریداجاسکے،نہ کسی فریب سےتم کوپُھسلایاجاسکے،نہ کوئی خطرہ یانقصان یاتکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹاسکےاورنہ دین کےمعاملہ میں کسی لین دین کاسودا تم سے چکایاجاسکے۔یہ سارامضمون اللہ تعالٰی کےکلام بلاغت نظام نےاس ذراسےفقرےمیں سمیٹ دیاہےکہ’’یہ بےیقین لوگ تم کوہلکانہ پائیں‘‘۔اب اس بات کاثبوت تاریخ کی بےلاگ شہادت دیتی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا پرویسےہی بھاری ثابت ہوئے جیسااللہ اپنے آخری نبیؐ کوبھاری بھرکم دیکھناچاہتاتھا۔آپ سے جس نےجس میدان میں بھی زورآزمائی کی اس نے اسی میدان میں مات کھائی اورآخراس شخصّیت عظمٰی نے وہ انقلاب برپاکرکےدکھادیا جسےروکنے کےلیےعرب کےکفروشرک نے اپنی ساری طاقت صرف کردی اوراپنے سارےحربےاستعمال کرڈالے۔ |
1 | اشارہ ہےاُس وعدے کی طرف جواوپرآیت نمبر۴۷ میں گزرچکاہے۔وہاں اللہ تعالٰی نے اپنی یہ سنت بیان کی ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کےرسولوں کی لائی ہوئی بّینات کامقابلہ تکذیب و تضحیک اورہٹ دھرمی کےساتھ کیاہےاللہ نےایسےمجرموں سے ضرورانتقام لیاہے(فَاَنتَقَمنَا مِنَ الَّذِینَ اَجرَمُوا)،اوراللہ پریہ حق ہےکہ مومنوں کی نُصرت فرمائے(وَکَانَ حَقًّا عَلَینَا نَٓصرُالمُومِنِینَ)۔ |
Surah 31 : Ayat 33
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمْ وَٱخْشَوْاْ يَوْمًا لَّا يَجْزِى وَالِدٌ عَن وَلَدِهِۦ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِۦ شَيْــًٔاۚ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِٱللَّهِ ٱلْغَرُورُ
لوگو، بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہوگا1 فی الواقع اللہ کا وعدہ سچا ہے2 پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے3 اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے پائے4
4 | الغرور (دھوکے باز) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے، انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے، اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے۔ کسی شخصِ خاص یا شئے خاص کا تعیّن کیے بغیراس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رُخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے۔’’اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے‘‘کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آجاتے ہیں۔ کسی کو اس کا ’’دھوکے باز‘‘یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کرالگ جا بیٹھا ہے اوراب یہ دُنیا بندوں کے حوالے ہے۔ کسی کواس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کرلوتو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو، بخشش تمہاری یقینی ہے۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفورالرحیم ہے، تم گناہ کرتے چلے جاؤ، وہ بخشتا چلا جائے گا۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اوراس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہی تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے، اوراگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کار تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے۔ |
3 | دنیا کی زندگی سطح ہیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اورمرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے، اس بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کرلو، کوئی اپنی دولت اورطاقت اورخوشحالی کےنشے میں بدمست ہو کراپنی موت کو بھول جاتا ہے اوراس خیالِ خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اُس کا عیش اوراس کا اقتدار لازوال ہے۔ کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصُود بالذات سمجھ لیتا ہےاور’’معیار زندگی‘‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے، ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اوراس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے۔ کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدۂ کلّیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے، خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے، اور جس کی دنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے۔ یہ اورایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں’’ دُنیوی زندگی کے دھوکے‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ |
2 | اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اورایک روزاللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہرایک کو اپنےاعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ |
1 | یعنی دوست، لیڈر،پیر اوراسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے۔ مگر وہاں حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اسکے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے، اور باپ کی شامت آ رہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی کہ اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس مقام پر آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دُنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہر گز صحیح نہیں ہے۔ |
Surah 35 : Ayat 5
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَاۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِٱللَّهِ ٱلْغَرُورُ
لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً برحق ہے1، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے2 اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے3
3 | ’’بڑے دھوکے باز‘‘ سے مراد یہاں شیطان ہے، جیسا کہ آگے کا فقرہ بتا رہا ہے۔ اور ’’اللہ کے بارے میں‘‘ دھوکا دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو تو یہ باور کرائے کہ خدا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو اس غلط فہمی میں ڈالے کہ خدا ایک دفعہ دنیا کو حرکت دے کر الگ جا بیٹھا ہے، اب اسے اپنی بنائی ہوئی اس کائنات سے عملاً کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ چکمہ دے کہ خدا کائنات کا انتظام تو بے شک کر رہا ہے، مگر اس نے انسانوں کی رہنمائی کرنے کا کوئی ذمہ نہیں لیا ہے، اس لیے یہ وحی و رسالت محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلائے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے، تم خواہ کتنے ہی گناہ کرو، وہ بخش دے گا، اور اس کے کچھ پیارے ایسے ہیں کہ ان کا دامن تھام لو تو بیڑا پار ہے۔ |
2 | یعنی اس دھوکے میں کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے، اس کے بعد کوئی آخرت نہیں ہے جس میں اعمال کا حساب ہونے والا ہو۔ یا اس دھوکے میں کہ اگر کوئی آخرت ہے بھی تو جو اس دنیا میں مزے کر رہا ہے وہ وہاں بھی مزے کرے گا |
1 | وعدے سے مراد آخرت کا وعدہ ہے جس کی طرف اوپر کے اس فقرے میں اشارہ کیا گیا تھا کہ تمام معاملات آخر کار اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہیں |
Surah 40 : Ayat 55
فَٱصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّ وَٱسْتَغْفِرْ لِذَنۢبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِٱلْعَشِىِّ وَٱلْإِبْكَـٰرِ
پس اے نبیؐ، صبر کرو1، اللہ کا وعدہ بر حق ہے2، اپنے قصور کی معافی چاہو3 اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو4
4 | یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گۓ۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آجاتی ہیں۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص 50۔73۔74۔182۔ جلد دوم،ص 371۔519۔587۔588۔634 تا 637۔ جلد سوم، ص 138۔420۔421۔703 تا 708۔740 تا 742۔ 754 تا 755) |
3 | جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ’’قصور‘‘ سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر، بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جاۓ جس سے کفار قائل ہو جائیں، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جاۓ جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جاۓ۔ یہ خواہش بجاۓ خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالٰی نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتقضی تھا، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالٰی کو آپ کے مرتبے سے فروتر نظر آئی، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے۔ |
2 | اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ’’ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں‘‘۔ |
1 | یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ |
Surah 40 : Ayat 70
ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِٱلْكِتَـٰبِ وَبِمَآ أَرْسَلْنَا بِهِۦ رُسُلَنَاۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
یہ لوگ جو اِس کتاب کو اور اُن ساری کتابوں کو جھٹلاتے ہیں جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجی تھیں؟1عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا
1 | یہ ہے ان کے ٹھوکر کھانے کی اصل وجہ۔ ان کا قرآن کو اور اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ ماننا اور اللہ کی آیات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے بجاۓ جھگڑالو پن سے ان کا مقابلہ کرنا، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس نے ان کو بھٹکا دیا ہے اور ان کے لیے سیدھی راہ پر آنے کے سارے امکانات ختم کر دیے ہیں |