Ayats Found (2)
Surah 22 : Ayat 73
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَٱسْتَمِعُواْ لَهُۥٓۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَن يَخْلُقُواْ ذُبَابًا وَلَوِ ٱجْتَمَعُواْ لَهُۥۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ ٱلذُّبَابُ شَيْــًٔا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُۚ ضَعُفَ ٱلطَّالِبُ وَٱلْمَطْلُوبُ
لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سنو جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مِل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور1
1 | یعنی مدد چاہنے والا تو اس لیے کسی بالا تر طاقت کی طرف استمداد کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ وہ کمزور ہے۔ مگر اس غرض کے لیے یہ جن کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں ان کی کمزوری کا حال یہ ہے کہ وہ ایک مکھی سے بھی عہدہ برانہیں ہوسکتے۔ اب غور کرو کہ ان لوگوں کی کمزوری کا کیا حال ہو گا جو خود بھی کمزور ہوں اور ان کی امیدوں کے سہارے بھی کمزور |
Surah 16 : Ayat 68
وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى ٱلنَّحْلِ أَنِ ٱتَّخِذِى مِنَ ٱلْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ ٱلشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ
اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی 1کہ پہاڑوں میں، اور درختوں میں، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں
1 | وحی کے لغوی معنی ہیں خفیہ اور لطیف اشارے کے جسے اشارہ کرنے والے اور اشارہ پانے والے کے سوا کوئی اور محسوس نہ کر سکے۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ اِلقاء (دل میں بات ڈال دینے) اور الہام (مخفی تعلیم و تلقین) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی اپنی مخلوق کو جو تعلیم دیتا ہے وہ چونکہ کسی مکتب و درسگاہ میں نہیں دی جاتی بلکہ ایسے لطیف طریقوں سے دی جاتی ہے کہ بظاہر کوئی تعلیم دیتا اور کوئی تعلیم پاتا نظرنہیں آتا، اس لیے اس کو قرآن میں وحی، الہام اور القاء کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔اب یہ تینوں الفاظ الگ الگ اصطلاحوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ لفظ وحی انبیاء کے لیے مخصوص ہو گیا ہے۔الہام کو اولیاءاور بندگانِ خاص کے لیے خاص کر دیا گیا ہے۔اور القاء نسبتًہ عام ہے۔لیکن قرآن میں یہ اصطلاحی فرق نہیں پایا جاتا۔یہاں آسمانوں پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق ان کا سارا نظام چلتا ہے(وَاَوْ حٰی فِیْ کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَھَا۔حٰمِ السجدہ)۔ زمین پر بھی وحی ہوتی ہے جس کا اشارہ پاتے ہی وہ اپنی سرگزشت سنانے لگتی ہے۔(یَوْ مَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَاo بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَاo۔الزلزال)۔ ملائکہ پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں۔(اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ۔الانفال) شہد کی مکھی کو اس کا پورا کام وحی (فطری تعلیم) کے ذریعہ سے سکھایا جاتا ہے جیسا کہ آیت زیر بحث میں آپ دیکھ رہے ہیں۔اور یہ وحی صرف شہد کی مکھی تک ہی محدود نہیں ہے۔مچھلی کو تیرنا، پرندے کو اُڑنا اور نوزائیدہ بچے کو دودھ پینا بھی وحی خداوندی ہی سکھایا کرتی ہے۔پھر ایک انسان کو غور و فکر اور تحقیق و تجسُس کے بغیر جو صحیح تدبیر،یا صائب رائے،یا فکروعمل کی صحیح راہ سُجھائی جاتی ہے وہ بھی وحی ہے (وَاَوْحِیْنَآ اِلیٰ اُمِّ مُوْسیٰٓ اَنْ اَرْ ضِعِیْہِ۔القصص)۔اور اس وحی سے کوئی انسان بھی محروم نہیں ہے۔دنیا میں جتنے اکتشافات ہوئے ہیں،جتنی مفید ایجادیں ہوئی ہیں،بڑے بڑے مدبرین،فاتحین،مفکرین اور مصنفین نے جو معرکے کے کام کیے ہیں،اُن سب میں اس وحی کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔بلکہ عام انسانوں کو آئے دن اس طرح کے تجربات ہوتے رہتے ہیں کہ کبھی بیٹھے بیٹھے دل میں ایک بات آئی،یا کوئی تدبیر سوجھ گئی،یا خواب میں کچھ دیکھ لیا،اور بعد میں تجربے سے پتہ چلا کہ وہ ایک صحیح رہنمائی تھی جو غیب سے انہیں حاصل ہوئی تھی۔ان بہت سی اقسام میں سے ایک خاص قسم کی وحی وہ ہے جس سے انبیاء علیہم السلام نوازے جاتے ہیں اور یہ وحی اپنی خصوصیات میں دوسری اقسام سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔اس میں وحی کیے جانے والے کو پورا شعور ہوتا ہے کہ یہ وحی خدا کی طرف سے آرہی ہے۔اُسے اس کے مِن جانب اللہ ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔وہ عقائد اور احکام اور قوانین اور ہدایات پر مشتمل ہوتی ہے۔اور اسے نازل کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ نبی اس کے ذریعہ سے نوع انسانی کی رہنمائی کرے۔ |