Ayats Found (12)
Surah 2 : Ayat 41
وَءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوٓاْ أَوَّلَ كَافِرِۭ بِهِۦۖ وَلَا تَشْتَرُواْ بِـَٔـايَـٰتِى ثَمَنًا قَلِيلاً وَإِيَّـٰىَ فَٱتَّقُونِ
اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ یہ اُس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو1 او ر میرے غضب سے بچو
1 | تھوڑی قیمت سے مُراد وہ دُنیوی فائدے ہیں جن کی خاطر یہ لوگ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو رد کر رہے تھے۔ حق فروشی کے معاوضے میں خواہ انسان دنیا بھر کی دولت لے لے، بہر حال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے، کیونکہ حق یقیناً اس سے گراں تر چیز ہے |
Surah 2 : Ayat 89
وَلَمَّا جَآءَهُمْ كِتَـٰبٌ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَآءَهُم مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِۦۚ فَلَعْنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلْكَـٰفِرِينَ
اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟ باوجود یہ کہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجو د تھی، باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آ گئی، جسے وہ پہچان بھی گئے تو، انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا1 خدا کی لعنت اِن منکرین پر
1 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے یہُودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظِر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیاء نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مِٹے اور پھر ہمارے عُروج کا دَور شروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شا ہد تھے کہ بعشتِ محمدی ؐ سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہُودی آنے والے نبی کی اُمّید پر جِیا کر تے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیہ ء کلام یہی تھا کہ” اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کر لے ، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے۔“ اہلِ مدینہ یہ باتیں سُنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا ، کہیں یہ یہُودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہُودی ، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گِن رہے تھے، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔ اور یہ جو فرمایا کہ” وہ اس کو پہچان بھی گئے“، تو اس کے متعدّد ثبوت اُسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت اُمّ المومنین حضرت صَفِیّہ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہُودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے ، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپ ؐ سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے ، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سُنا: چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟ والد: خدا کی قسم ، ہاں۔ چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟ والد: ہاں۔ چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟ والد: جب تک جان میں جان ہے اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔ ( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱۶۵، طبع جدید) |
Surah 2 : Ayat 91
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ ءَامِنُواْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ نُؤْمِنُ بِمَآ أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَآءَهُۥ وَهُوَ ٱلْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنۢبِيَآءَ ٱللَّهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں "ہم تو صرف اُس چیز پر ایمان لاتے ہیں، جو ہمارے ہاں (یعنی نسل اسرائیل) میں اتری ہے" اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے، اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ حق ہے اور اُس تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی اچھا، ان سے کہو: اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے اُن پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے) کیوں قتل کرتے رہے؟
Surah 2 : Ayat 97
قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُۥ نَزَّلَهُۥ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
اِن سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو1، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ کے اِذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے2، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے3 اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے4
4 | اِ س میں لطیف اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ نادانو، اصل میں تمہاری ساری ناراضی ہدایت اور راہِ راست کے خلاف ہے۔ تم لڑ رہے ہو اُس صحیح رہنمائی کے خلاف ، جسے اگر سیدھی طرح مان لو، تو تمہارے ہی لیے کامیابی کی بشارت ہو |
3 | مطلب یہ ہے کہ یہ گالیاں تم اسی لیے تو دیتے ہو کہ جبریل یہ قرآن لے کر آیا ہے اور حال یہ ہے کہ یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے۔ لہٰذا تمہاری گالیوں میں تورات بھی حصّے دار ہوئی |
2 | یعنی اس بنا پر تمہاری گالیاں جبریل پر نہیں بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں |
1 | یہُودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل کو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ رحمت کا نہیں، عذاب کا فرشتہ ہے |
Surah 2 : Ayat 101
وَلَمَّا جَآءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ كِتَـٰبَ ٱللَّهِ وَرَآءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی، تو اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں
Surah 3 : Ayat 81
وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَـٰقَ ٱلنَّبِيِّــۧنَ لَمَآ ءَاتَيْتُكُم مِّن كِتَـٰبٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥۚ قَالَ ءَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٲلِكُمْ إِصْرِىۖ قَالُوٓاْ أَقْرَرْنَاۚ قَالَ فَٱشْهَدُواْ وَأَنَا۟ مَعَكُم مِّنَ ٱلشَّـٰهِدِينَ
یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، 1"آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی" یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، "کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟" اُنہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں
1 | مطلب یہ ہے کہ ہر پیغمبر سے اس امر کا عہد لیا جاتا رہا ہے ۔۔۔۔ ۔ اور جو عہد پیغمبر سے لیا گیا ہو وہ لامحالہ اس کی پیرووں پر بھی آپ سے آپ عائد ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ کہ جو نبی ہماری طرف سے اُس دین کی تبلیغ و اقامت کے لیے بھیجا جائے جس کی تبلیغ و اقامت پر تم مامُور ہوئے ہو ، اس کا تمہیں ساتھ دینا ہو گا۔ اُس کے ساتھ تعصّب نہ برتنا، اپنے آپ کو دین کا اجارہ دار نہ سمجھنا، حق کی مخالفت نہ کرنا، بلکہ جہاں جو شخص بھی ہماری طرف سے حق کا پرچم بلند کرنے کے لیے اُٹھایا جائے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جانا۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی اُمّت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن نہ قرآن میں نہ حدیث میں ، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عہد لیا گیا ہو یا آپ نے اپنی اُمّت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو |
Surah 4 : Ayat 47
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ ءَامِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰٓ أَدْبَارِهَآ أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّآ أَصْحَـٰبَ ٱلسَّبْتِۚ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ مَفْعُولاً
اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی! مان لو اُس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اُس کتاب کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی1 اس پر ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہر ے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں یا ان کو اسی طرح لعنت زدہ کر دیں جس طرح سبت والوں کے ساتھ ہم نے کیا تھا2، اور یاد رکھو کہ اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے
2 | ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۸۲ و ۸۳ |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو آلِ عمران حاشیہ نمبر ۲ |
Surah 5 : Ayat 48
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِۖ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ ٱلْحَقِّۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًاۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَـٰكُمْۖ فَٱسْتَبِقُواْ ٱلْخَيْرَٲتِۚ إِلَى ٱللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
پھر اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی1 اور اس کی محافظ و نگہبان ہے2 لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ3 کرو ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اُس نے یہ اِس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو4
4 | یہ مذکورہ بالا سوال کا پُورا جواب ہے۔ اس جواب کی تفصیل یہ ہے: (۱) محض اختلاف شرائع کو اس بات کی دلیل قرار دینا غلط ہے کہ یہ شریعتیں مختلف مآخذ سے ماخوذ اور مختلف سر چشموں سے نکلی ہوئی ہے۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لیے مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں مختلف ضابطے مقرر فرمائے۔ (۲) بلاشبہ یہ ممکن تھا کہ شروع ہی سے تمام انسانوں کے لیے ایک ضابطہ مقرر کر کے سب کو ایک اُمّت بنا دیا جاتا۔ لیکن وہ فرق جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی شریعتوں کے درمیان رکھا اُس کے اندر دُوسری بہت سی مصلحتوں کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے لوگوں کی آزمائش کرنا چاہتا تھا ۔ جو لوگ اصل دین اور اس کی رُوح اور حقیقت کو سمجھتے ہیں، اور دین میں اِن ضوابط کی حقیقی حیثیت کو جانتے ہیں، اور کسی تعصّب میں مُبتلا نہیں ہیں وہ حق کو جس صُورت میں بھی وہ آئے گا پہچان لیں گے اور قبول کر لیں گے۔ اُن کو اللہ کے بھیجے ہوئے سابق احکام کی جگہ بعد کے احکام تسلیم کرنے میں کوئی تامّل نہ ہو گا۔بخلاف اس کے جو لوگ روح دین سے بیگانہ ہیں اور ضوابط اور ان کی تفصیلات ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں،اور جنہوں نے خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیزوں پر خود اپنے حاشیےچڑھا کر ان پر جمود اور تعصب اختیا کر لیا ہے وہ ہر اُس ہدایت کو رد کرتے چلے جائیں گے جو بعد میں خدا کی طرف سے آئے ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش ضروری تھی، اس لیے اللہ تعالٰی نے شرائع میں اختلاف رکھا۔
(۳)تمام شرائع سے اصل مقصود نیکیوں اور بھلائیوں کو پانا ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتی ہیں کہ جس وقت جو حکم خدا ہو اس کی پیروی کی جائے۔لہذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے شرائع کے اختلافات اور مناہج کے فروق پر جھگڑا کرنے کے بجائے صیح طرز عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اس راہ سے پیش قدمی کریں جس کو اللہ تعالٰی کی منظوری حاصل ہو۔(۴)جواختلافات انسانوں نے اپنے جمود تعصب،ہٹ دھرمی اور ذہن کی اُپچ سے خود پیدا کر لیے ہیں اُن کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہو سکتا ہے نہ میدان جنگ میں۔آخری فیصلہ اللہ تعالٰی خود کرے گا جبکہ حقیقت بے نقاب کر دی جائے گی اور لوگوں پر منکشف ہو جائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کر دنیا سے آئے ہیں اُن کی تہ میں’’حق‘‘ کا جو ہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کس قدر |
3 | یہ ایک جملہ ء معترضہ ہے جس سے مقصُود ایک سوال کی توضیح کرنا ہے جو اُوپر کے سلسلہ ء تقریر کو سُنے ہوئے مخاطب کے ذہن میں اُلجھن پیدا کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء اور تمام کتابوں کا دین ایک ہے ، اور یہ سب ایک دُوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے آئے ہیں تو شریعت کی تفصیلات میں ان کے درمیان فرق کیوں ہے؟ کیا بات ہے کہ عبادت کی صُورتوں میں ، حرام و حلال کی قیُود میں اور قوانین ِ تمدّن و معاشرت کے فروع میں مختلف انبیاء اور کُتبِ آسمانی کی شریعتوں کے درمیان تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے |
2 | اصل میں لفظ”مُھَیْمِنْ“ استعمال ہوا ہے۔ عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت، نگرانی ، شہادت، امانت ، تائد اور حمایت کے ہیں۔ ھیمن الرجل الشئ، یعنی آدمی نے فلاں چیز کی حفاظت و نگہبانی کی۔ ھیمن الطائر علیٰ فراخہ۱، یعنی پرندے نے اپنے چُوزے کو اپنے پروں میں لے کر محفوض کر لیا۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا انی داعٍ فھیمنوا یعنی میں دُعا کر تا ہوں تم تائید میں آمین کہو۔ اسی سے لفظ ھمیَان ہے جسے اُردو میں ہمیانی کہتے ہیں، یعنی وہ تھیلی جس میں آدمی اپنا مال رکھ کر محفوظ کرتا ہے۔ پس قرآن کو ”الکتاب“ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام بر حق تعلیمات کو جو پچھلی کُتبِ آسمانی میں دی گئی تھیں، اپنے اندر لے کر محفوظ کر لیا ہے۔ وہ اِن پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات بر حق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کا مؤیّد ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کےاندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہو گئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے |
1 | یہاں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اگرچہ اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ ”پچھلی کتابوں“ میں سے جو کچھ اپنی اصلی اور صحیح صورت پر باقی ہے، قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ”پچھلی کتابوں“ کے بجائے”الکتاب“ کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ قرآن اور تمام وہ کتابیں جو مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں، سب فی الاصل ایک ہی کتاب ہیں۔ ایک ہی ان کا مصنّف ہے ، ایک ہی ان کا مدّعا اور مقصد ہے ، ایک ہی ان کی تعلیم ہے ، اور ایک ہی علم ہے جو ان کے ذریعہ سے نوع انسانی کو عطا کیا گیا۔ فرق اگر ہے تو عبارات کا ہے جو ایک ہی مقصد کے لیے مختلف مخاطبوں کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے اختیار کی گئیں۔ پس حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ کتابیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں، مؤ یّد ہیں، تردید کرنے والی نہیں، تصدیق کرنے والی ہیں۔ بلکہ اصل حقیقت اس سے کچھ بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی ”الکتاب“ کے مختلف ایڈیشن ہیں |
Surah 6 : Ayat 92
وَهَـٰذَا كِتَـٰبٌ أَنزَلْنَـٰهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ ٱلَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ ٱلْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَاۚ وَٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱلْأَخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِۦۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
(اُسی کتاب کی طرح) یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے بڑی خیر و برکت والی ہے اُس چیز کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی تھی اور اس لیے نازل کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم بستیوں کے اِس مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کرو جو لو گ آخرت کو مانتے ہیں وہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں1
1 | پہلی دلیل اس بات کے ثبوت میں تھی کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور عملاً ہوا بھی ہے۔ اب یہ دُوسری دلیل اس بات کے ثبوت میں ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے یہ خدا ہی کا کلام ہے۔ اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے چار باتیں شہادت کے طور پیش کی گئی ہیں: ایک یہ کہ یہ کتاب بڑی خیر و برکت والی ہے ، یعنی اس میں انسان کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین اُصُول پیش کیے گئے ہیں ۔ عقائد ِ صحیحہ کی تعلیم ہے، بھلائیوں کی ترغیب ہے، اخلاقِ فاضلہ کی تلقین ہے، پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی ہدایت ہے، اور پھر یہ جہالت ، خودغرضی، تنگ نظری، ظلم ، فحش اور دُوسری اُن بُرائیوں سے ، جن انبار تم لوگوں نے کتب ِ مقدسہ کے مجمُوعہ میں بھر رکھا ہے، بالکل پاک ہے۔ دوسرے یہ کہ اس سے پہلے خدا کی طرف سے ہدایت نامے آئے تھے یہ کتاب اُن سے الگ ہٹ کر کوئی مختلف ہدایت پیش نہیں کرتی بلکہ اُسی چیز کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو اُن میں پیش کی گئی تھی۔ تیسرے یہ کہ یہ کتاب اُسی مقصد کے لیے نازل ہوئی ہے جو ہر زمانہ میں اللہ کی طرف سے کتابوں کے نُزول کا مقصد رہا ہے ، یعنی غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانا اور کج روی کے انجامِ بد سے خبردار کرنا۔ چوتھے یہ کہ کتاب کی دعوت نے انسانوں کے گروہ میں سے ان لوگوں کو نہیں سمیٹا جو دُنیا پرست اور خواہشِ نفس کے بندے ہیں، بلکہ ایسے لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا ہے جن کی نظر حیاتِ دنیا کی تنگ سرحدوں سے آگے تک جاتی ہے ، اور پھر اس کتاب سے متاثر ہو کر جو انقلاب ان کی زندگی میں رُونما ہوا ہے اس کی سب سے زیادہ نمایاں علامت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان اپنی خد ا پرستی کی اعتبار سے مُمتاز ہیں۔ کیا یہ خُصوصیات اور یہ نتائج کسی ایسی کتاب کے ہو سکتے ہیں جسے کسی جھُوٹے انسان نے گھڑ لیا ہو جو اپنی تصنیف کو خد ا کی طرف منسُوب کر دینے کی انتہائی مجرمانہ جسارت تک کر گزرے |
Surah 10 : Ayat 37
وَمَا كَانَ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ ٱلَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ ٱلْكِتَـٰبِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے1 اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے
1 | ’’جو کچھ پہلے آچکا تھا اس کی تصدیق ہے“، یعنی ابتدا سے جو اصولی تعلیمات انبیاء علیہم السلام کی معرفت انسان کو بھیجی جاتی رہی ہیں یہ قرآن اُن سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں پیش کر رہا ہے بلکہ انہی کی تصدیق و توثیق کررہا ہے۔ اگر یہ کسی نئے مذہب کے بانی کی ذہنی اُپج کا نتیجہ ہوتا تو اس میں ضرور یہ کوشش پائی جاتی کہ پرانی صداقتوں کے ساتھ کچھ اپنا نرالا رنگ بھی ملا کر اپنی شان امتیاز نمایاں کی جائے۔ ”الکتاب کی تفصیل ہے“، یعنی اُن اصولی تعلیمات کو جو تمام کتب آسمانی کا لُبِّ لُباب (الکتاب) ہیں، اس میں پھیلا کر دلائل و شواہد کے ساتھ، تلقین و تفہیم کے ساتھ، تشریح و توضیح کے ساتھ، اور عملی حالات پر انطباق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ |