Ayats Found (9)
Surah 13 : Ayat 30
كَذَٲلِكَ أَرْسَلْنَـٰكَ فِىٓ أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَآ أُمَمٌ لِّتَتْلُوَاْ عَلَيْهِمُ ٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِٱلرَّحْمَـٰنِۚ قُلْ هُوَ رَبِّى لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ
اے محمدؐ، اِسی شان سے ہم نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے1، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تاکہ تم اِن لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے، اِس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں 2اِن سے کہو کہ وہی میرا رب ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا ملجا و ماویٰ ہے
2 | یعنی اُس کی بندگی سے منہ موڑے ہوئے ہیں ، اس کی صفات اور اختیارات اور حقوق میں دوسروں کو اُس کا شریک بنا رہے ہیں، اور اُس کی نعمتوں کے شکریے دوسروں کو ادا کر رہے ہیں |
1 | یعنی کسی ایسی نشانی کے بغیر جس کا یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں |
Surah 13 : Ayat 40
وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ ٱلَّذِى نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ ٱلْبَلَـٰغُ وَعَلَيْنَا ٱلْحِسَابُ
اور اے نبیؐ، جس برے انجام کی دھمکی ہم اِن لوگوں کو دے رہے ہیں اُس کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں، بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے1
1 | مطلب یہ ہے کہ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ جن لوگوں نے تمہاری اِس دعوتِ حق کو جھٹلا دیا ہے ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور کب وہ ظہور میں آتا ہے۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے اُسے پوری یکسوئی کے ساتھ کیے چلے جاؤ اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دو۔ یہاں بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر دراصل بات اُن مخالفین کو سنانی مقصود ہے جو چیلنج کے انداز میں بار بار حضور سے کہتے تھے کہ ہماری جس شامت کی دھمکیاں تم ہمیں دیا کرتے ہو آخر وہ آکیوں نہیں جاتی |
Surah 15 : Ayat 94
فَٱصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْمُشْرِكِينَ
پس اے نبیؐ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے، اُسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو
Surah 16 : Ayat 44
بِٱلْبَيِّنَـٰتِ وَٱلزُّبُرِۗ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے1، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں
1 | تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی، اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کر کے بھی، اور ”ذکرِ الہٰی“ کے منشا کے مطابق اُس کے نظام کو چلا کر بھی۔ اس طرح اللہ تعالٰی نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازمًا ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے۔ ”ذکر“ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچایا جا سکتا تھا۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالٰی کی حکمت اور رحمت اور ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ”ذکر“ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے۔ وہ اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنہیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں اُن کے مقابلہ میں وہ اُس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جو اِس ”ذکر“ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انہیں زندگی کی ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے۔ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے، اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام”ذکر“ کے منشا کی شرح ہو۔ یہ آیت جس طرح اُن منکرینِ نبوت کی حجّت کے لیے قاطع تھی جو خدا کا ”ذِکر“ بشر کے ذریعہ سے آنے کو نہیں مانتے تھے اُسی طرح آج یہ اُن منکرینِ حدیث کی حجت کے لیے بھی قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ”ذکر“ کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف ذکر پیش کر دیا تھا، یا اِس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے نہ نبی کی تشریح، یا اِس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ذکر ہی قابلِ اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے، نبی کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی یا با قی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے، غرض اِن چاروں باتوں میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں، اُن کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے۔ اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نے اُس منشا ہی کو فوت کر دیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اُسے واسطۂ تبلیغ بنایا گیا تھا۔ اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے (معاذ اللہ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا”ذکر“ ایک نبی کے ذریعہ سے بھیجا۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہو جانے کا ہو سکتا تھا۔ اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدیؐ، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلکِ معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صر ف اُن لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالٰی خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو نا گزیر ٹھیرارہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذکر کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرینِ حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونۂ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدیؐ ختم ہو گئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اُن طرح کا رہ گیا جیسا ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کر تے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اُسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ ثابت کر دیتی ہے، صرف ایک بے وقوف ہی اس کے بعد ختم ِنبوت پراصرار کرسکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیرخود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے، اس لیے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مُدعی سست کی حمایت میں گواہانِ چُست کی بات ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے۔ قاتلہم اللہ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِحدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔ |
Surah 16 : Ayat 64
وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُواْ فِيهِۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ہم نے یہ کتاب تم پر اس لیے نازل کی ہے کہ تم اُن اختلافات کی حقیقت اِن پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں یہ کتاب رہنمائی اور رحمت بن کر اتری ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے مان لیں1
1 | دوسرے الفاظ میں، اس کتاب کے نزول سے اِن لوگوں کو اس بات کا بہترین موقع ملا ہے کہ اوہام اور تقلیدی تخیلات کی بنا پر جن بے شمار مختلف مسلکوں اور مذہبوں میں یہ بٹ گئے ہیں اُن کے بجائے صداقت کی ایک بڑی پائیدار بنیاد پالیں جس پر یہ سب متفق ہو سکیں۔ اب جو لوگ اِتنے بے وقوف ہیں کہ اِس نعمت کے آجانے پر بھی اپنی پچھلی حالت ہی کو ترجیح دے رہے ہیں وہ تباہی اور ذلت کے سوا اور کوئی انجام دیکھنے والے نہیں ہیں۔اب تو سیدھا راستہ وہی پائے گا اور وہی برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال ہو گا جو اس کتاب کو مان لے گا۔ |
Surah 18 : Ayat 27
وَٱتْلُ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَـٰتِهِۦ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِۦ مُلْتَحَدًا
اے نبیؐ1! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے2
2 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ کی خاطر قرآن میں کچھ رد و بدل کر دینے اور سرداران قریش سے کچھ کم و بیش پر مصالحت کر لینے کی سوچ رہے تھے اور اللہ تعالٰی آپ کو اس سے منع فرما رہا تھا۔ بلکہ دراصل اس میں روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اگرچہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ مقصود کفار کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا بیشی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اسے بے کم و کاست پہنچا دیں۔ تمہیں ماننا ہے تو اس پورے دین کو جوں کا توں مانو جو خداوند عالم کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اور نہیں ماننا تو شوق سے نہ مانو۔ مگر یہ امید کسی حال میں نہ رکھو کہ تمہیں راضی کرنے کے لیے اس دین میں تمہاری خواہشات کے مطابق کوئی ترمیم کی جائے گی، خواہ وہ کیسی ہی جزوی سی ترمیم ہو۔ یہ جواب ہے اس مطالبے کا جو کفار کی طرف سے بار بار کیا جاتا تھا کہ ایسی بھی کیا ضد ہے کہ ہم تمہاری پوری بات مان لیں۔ آخر کچھ تو ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم و رواج کی رعایت ملحوظ رکھو۔ کچھ تم ہماری مان لو، کچھ ہم تمہاری مان لیں۔ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور برادری پھوٹ سے بچ سکتی ہے۔ قرآن میں ان کے اس مطالبے کا متعدد مواقع پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ یونس کی آیت ۱۵ ملاحظہ ہو : وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِمْ اٰ یٰتُنَا بَیِّنٰتتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لایَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْبَدِّلْہُ۔ ’’جب ہماری آیات صاف صاف ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو کبھی ہمارے سامنے حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ |
1 | اصحاب کہف کا قصہ ختم کرنے کے بعد اب یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے اور اس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو اس وقت مکہ میں مسلمانوں کو در پیش تھے |
Surah 27 : Ayat 92
وَأَنْ أَتْلُوَاْ ٱلْقُرْءَانَۖ فَمَنِ ٱهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَآ أَنَا۟ مِنَ ٱلْمُنذِرِينَ
اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤں" اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہو اُس سے کہہ دو کہ میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں
Surah 28 : Ayat 87
وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَۖ وَٱدْعُ إِلَىٰ رَبِّكَۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفّار تمہیں اُن سے باز رکھیں1 اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو
1 | یعنی اُن کی تبلیغ واشاعت سے اوران کےمطابق عمل کرنےسے۔ |
Surah 29 : Ayat 45
ٱتْلُ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٲةَۖ إِنَّ ٱلصَّلَوٲةَ تَنْهَىٰ عَنِ ٱلْفَحْشَآءِ وَٱلْمُنكَرِۗ وَلَذِكْرُ ٱللَّهِ أَكْبَرُۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
(اے نبیؐ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو